Wednesday, October 27, 2010

مجھے محبت نے مار ڈالا

تجھے تو نفرت سے ہے شکایت، مجھے محبت نے مار ڈالا
جدائی ہوتی تو سہہ بھی لیتے ہمیں تو قربت نے مارڈالا

تھا زعم مجھ کو کہ میرا تیشہ تو کاٹ ڈالے گا پتھروں کو
تو ڈر گیا ہے تو بچ گیا ہے مجھے مہارت نے مارڈالا

اصلاں نال جے کریے نیکی

اصلاں نال جے کریے نیکی
نسلاں تکڑ نبھودیں نے

ماڑیاں نال جے چنگا کریے
پرت کے گل نو اوندے نے

عشق دے پینڈے پے کے عاشق
جندڑی روگ لگوندے نے

دل کنجر دے آکھے لگ کے
لوکی جان گووندے نے

آگ کا بھی پیٹ ہے نا

اپنی ننگی آنکھوں سے
دیکھ رہا ہوں موت کسی کی
سامنے اپنے
آگ کے اندر جھونک رہا ہوں
صندل کی اک شاخ کنواری
سوچ رہا ہوں بول پڑوں تو
رو پڑے کی آگ بےچاری
بھوک کی ماری
جانے کتنے سالوں سے
اس نے منت مانی ہو گی
آگ کا بھی پیٹ ہے نا!

میں نکل گیا ہوں مدار سے

میں نکل گیا ہوں مدار سے، مرے راستوں پہ غبار ہے
اسی کشمکش میں پڑا ہے دل کہ یہ بھول ہے یا فرار ہے؟

جسے راستوں نے جکڑ لیا ، اسے منزلوں کا شعور کیا
جو سلگ سلگ کے ہی بجھ گیا وہ چرا غ ہے نہ شرار ہے

بڑی کم نظر ہے وہ عاشقی جو خیال و خواب کی حد میں ہو
کہ حقیقتوں کے دیار میں کہاں وہمِ دل کا شمار ہے

جو چلا تھا درد سمیٹنے، وہی آج درد سے چور ہے
جسے فکر سارے جہاں کی تھی وہی آج خود پہ ہی بار ہے

یہ فلک کسی سے وفا کرے نہ زمیں کسی کی سدا رہے
بڑا مختصر سا قیام ہے بڑی بے مزہ سی بہار ہے

Thursday, October 7, 2010

کبھی جو بیٹھ کے سوچوں تو سب خسارا ہے

بہت دیا ہے نصیبوں نے پھر بھی تیری کمی
کبھی جو بیٹھ کے سوچوں تو سب خسارا ہے