Friday, May 6, 2011

ہم تو بہشت سے ہو کے واپس بھی آگئے

باد صبا میں اور گلابوں میں آج تک
ملتا ہے تیرا نام کتابوں میں آج تک

اک خوشنما سا ذکر ہے اک دلربا سی یاد
لیکن رہا یہ عشق حجابوں میں آج تک

فکرِ معاش کے تلے عمرِ حسیں کٹی
ملتا ہے رزق تول کے خوابوں میں آج تک

ہم تو بہشت سے ہو کے واپس بھی آگئے
تو ہے ریاضتوں کے سرابوں میں آج تک

حالات اور وقت نے روکا مگر وہ شخص
رہتا ہے میری آنکھ کے خوابوں میں آج تک

تیرا ذکر ہے

تیرا ذکر ہے
تجھ سے ہی نہ ہو
یہ کہاں ممکن !
وقت نے جب کبھی دی مہلت
کہہ دوں گا ترے کان میں آکر
مجھے تجھ سے محبت ہے