بھول جانا ہی تھا اک روز حقیقت تھی یہی
زندہ رہنا تھا کسی طور کہ قسمت تھی یہی
ہم زمانے سے بھلا کیسے بغاوت کرتے
عشق ہی چھوڑ دیا اپنی بغاوت تھی یہی
جس کو بھی چاہا فقط خواب کی حد میں چاہا
آنکھ کھلتے ہی مکر جانا محبت تھی یہی
کھارے پانی کے سمندر میں جزیرہ تھا مرا
یعنی محفل میں بھی تنہائی مصیبت تھی یہی
جب یہ محسوس ہوا ہم سے وہ اکتانے لگا
ہم بھی چپ چاپ پلٹ آئے ضرورت تھی یہی
وہ تو مضراب تھا مطرب کی توجہ نہ ملی
مر گیا وہ بھی سبھی ساز بھی قدرت تھی یہی