Wednesday, December 28, 2011

دونوں ملتے ہیں تھوڑی دیر کو بس!!!‬

حسن کچے گھڑے کی مانند ہے‬
‫عشق موجِ چناب کی صورت‬
‫حسن کی زندگی ہے دو پل کی‬
‫عشق رکتا نہیں گزر جائے‬
‫دونوں ملتے ہیں تھوڑی دیر کو بس!!!‬

Tuesday, December 27, 2011

زندگی میری مگر اس کو گزارے گا کوئی

سابس آٹکی ہے تہہِ دستِ حنائی یارو
وصل کی قید سے بہتر تھی جدائی یارو

زندگی میری مگر اس کو گزارے گا کوئی
مجھ پہ الفت نے یہ تعزیر لگائی یارو

ایک ہی خواب کی تعبیر ملی تھی مجھ کو
اور  پھر زندگی بھر نیند نہ آئی یارو

نظق پایا ہے مگر نظق شناسا نہ ملا
بات جو لب پہ رکی خود کو سنائی یارو

محرمِ دل کی تمنا میں بھٹکتا ہی پھروں
دل میں غم ہاتھ میں کاسہ گدائی یارو

Wednesday, December 21, 2011

کوتوالوں کی طرح کھینچ کے لایا ہوں اسے

شہر کا شہر ہی بن بیٹھا تھا قاتل جاناں
ہم کو کرنا ہی پڑا تجھ سے تغافل جاناں

کوتوالوں کی طرح کھینچ کے لایا ہوں اسے
در ترا چھوڑ کے آتا ہی نہ تھا دل جاناں

نائو چاہت کی بھلا پار لگاتے کیسے
ہر بھنور ہم کو لگا دور سے ساحل جاناں

باریاں باندھ کے بیٹھے ہیں سبھی جانے کو
فرق اتنا ہے کوئی آج کوئی کل جاناں

جب تلک سانس تھی خوابوں کے تعاقب مییں رہے
خواب ہی خواب ہیں مری عمر کا حاصل جاناں

تم کو چھو لوں تو یقیں  آئے کہ زندہ ہوں میں
تم کو پا لوں تو میں ہو جائوں مکمل جاناں

کپکپاتا ہوا ہنستا چہرہ

روٹھ کر اور سنور جائے گا
رنگ گالوں پہ بکھر جائے گا
کپکپاتا ہوا ہنستا چہرہ
سیدھا سینے میں اتر جائے گا

Tuesday, December 20, 2011

لاج کا خوف بھی پروائی بھی

دل یہی سوچ کے گھر جائے نہ
خواب آنکھوں سے مکر جائے نہ
روٹھ کر اور سنور جائے نہ
سرخی گالوں پہ بکھر جائے نہ
آنکھوں آنکھوں میں محبّت ابھری
آنکھوں آنکھوں میں اتر جائے نہ
دل پہ ہر سمت ہزاروں پہرے
عشق گھٹ گھٹ کے ہی مر جائے نہ
لاج کا خوف بھی پروائی بھی
پھول چاہت کا بکھر جائے نہ
کپکپاتا ہوا ہنستا چہرہ
کیسے سینے میں اتر جائے نہ?

اس سے کہنا کہ خفا نہ ہونا

اس سے کہنا کہ خفا نہ ہونا
روپ کچھ اور نکھر جائے گا

Sunday, December 18, 2011

کاغزی پھول سے خوشبو کی تمنا ہے عبث

کاغزی پھول سے خوشبو کا گلہ کرتے ہو
تم بھی نادان ہو اے دوست یہ کیا کرتے ہو
روز شکوے بھی کرے کوئی تو کس سے آخر
تم صحیح کرتے ہو قسمت کو برا کرتے ہو

دفن کر دوں کہ جلا دوں کہ سنبھالے رکھوں

دفن کر دوں کہ جلا دوں کہ سنبھالے رکھوں
میری آنکھوں میں ہیں کچھ خواب جو دم توڑ گئے

Saturday, December 17, 2011

ہم ہی لوٹ آئیں گے دیوار سے ٹکرا کر سر

ہم ہی لوٹ آئیں گے دیوار سے ٹکرا کر سر
اے ستم گر ترا دروازہ نہ کھل پائے گا
وہ اگر مجھ سے خفا ہے تو مجھے چھوڑ بھی دے
گر ملاقات نہ ہو خواب میں آجائے ہے

ہمارے پاس تھے کچھ خواب ہم وہ بیچ آئے

پرانے مال کو نیلام کر رہے تھے لوگ
ہمارے پاس تھے کچھ خواب ہم وہ بیچ آئے

Tuesday, December 13, 2011

ماں

میں جھولی بھر کے خوشیاں
گھر میں آیا ہوں
مگر میں کیا کروں گھر میں میری ماں ہی نہیں

مرے ہی جیسے زمیں زاد "چاند" سمجھیں مجھے

اندھیری رات میں تنہا بھٹکتا پھرتا ہوں
مرے ہی جیسے زمیں زاد "چاند" سمجھیں مجھے

میں شرمسارِ قلم ہوں

تھا جال ریشمی دھاگوں کا جو وہ بنتا گیا
میں خوشنمائی کے دھوکے میں قید ہوتا گیا

بس ایک شخص کو قدرت تھی سارے لمحوں پر
کبھی ہنساتا رہا اور کبھی رلاتا گیا

تھا راستوں کا چنائو کہ کھیل قسمت کا
میں جس طرف بھی چلا تجھ سے دور ہٹتا گیا

یہ بات سچ ہے کہ دل کو سکون غم نے دیا
مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ غم ہی ملتا گیا

تمام عمر میں خواہش کو زیر کرتا رہا
حقیقتا اسی کوشش میں شوق بڑھتا گیا

میں شرمسارِ قلم ہوں کہ جب بھی لکھنے لگا
اذیّتِ غمِ جاں کا بین کرتا گیا

Sunday, December 11, 2011

کھارے پانی کے سمندر میں جزیرہ تھا مرا

بھول جانا ہی تھا اک روز حقیقت تھی یہی
زندہ رہنا تھا کسی طور کہ قسمت تھی یہی

ہم زمانے سے بھلا کیسے بغاوت کرتے
عشق ہی چھوڑ دیا اپنی بغاوت تھی یہی

جس کو بھی چاہا فقط خواب کی حد میں چاہا
آنکھ کھلتے ہی مکر جانا محبت تھی یہی

کھارے پانی کے سمندر میں جزیرہ تھا مرا
یعنی محفل میں بھی تنہائی مصیبت تھی یہی

جب یہ محسوس ہوا ہم سے وہ اکتانے لگا
ہم بھی چپ چاپ پلٹ آئے ضرورت تھی یہی

وہ تو مضراب تھا مطرب کی توجہ نہ ملی
مر گیا وہ بھی سبھی ساز بھی قدرت تھی یہی

یہ اور بات کہ تم سے نظر چرا لی ہے

یہ اور بات کہ تم سے نظر چرا لی ہے
مگر دھیان میں محفل تری سجالی ہے
میں اپنے خواب میں خوش ہوں مجھے سماج سے کیا
کہ میں نے خواب میں صحبت تری بسالی ہے

Thursday, December 8, 2011

اندھیرا بڑھ گیا جب سے دیا جلایا ہے

خدا کا شکر ہے دل کو یقین آیا ہے
وہ اب ہمارا نہیں ہے وہ اب پرایا ہے

جسے شریکِ سفر میرا کہہ رہے ہیں لوگ
وہ کوئی شخص نہیں ہے بس ایک سایہ ہے

جبین خاک پہ رکھ دی اجاڑلی دنیا
بتانِ شہر پہ جس نے بھی سر جھکایا ہے

تمہار ساتھ مجھے اور کر گیا تنہا
اندھیرا بڑھ گیا جب سے دیا جلایا ہے

اداسی آنکھ میں پھیلی خلا ہے سینے میں
لو ہم نے راہ وفا سے یہی کمایا ہے

ہے المیہ کہ ہمیں کوئی بھی سمجھ نہ سکا
سو جو بھی خواب تراشا وہی چھپایا ہے

یوں بے دلی سے لکھا تھا وفا کا آخری خط

یوں بے دلی سے لکھا تھا وفا کا آخری خط
کہ جیسے کڑوی دوا تھا وفا کا آخری خط

Sunday, December 4, 2011

پھر سے مجھے عطا ہو امامت حسین کی

جینا سکھا گئی ہے شہادت حسین کی
ہر دور میں رہے گی حکومت حسین کی

اپنے ہوں یا کہ غیر عقیدت سبھی کو ہے
ہر دل میں موجزن ہے محبت حسین کی

پھر سے مرے وطن پہ یزیدی کا راج ہے
پھر سے مجھے عطا ہو امامت حسین کی

جو ذات ساقیِ کوثر ہے دو جہاں کے لیے

جو ذات ساقیِ کوثر ہے دو جہاں کے لیے
اسی کی آل کا پانی یزید نے روکا

Saturday, December 3, 2011

جو ترے آس پاس رہتے ہیں

جو ترے آس پاس رہتے ہیں 
وہ بھلا کیوں اداس رہتے ہیں