Tuesday, December 31, 2013

وہ قاعدے جو الف بے سکھایا کرتے تھے


پرانی کتب کے انبار میں نظر آئیں
وہ قاعدے جو الف بے سکھایا کرتے تھے

Monday, December 30, 2013

غلام قوم کا گمنام سا کوئی شاعر

وہ جانتا ہے بڑھاپا بہت بری شے ہے
اور ایسے حال میں وارث بھی جب کوئی نہیں/ نہ ہو
مگر وہ ضدّی کسی وعدہِ وفا کا اسیر
ضعیف و بے کس و بیمارو مردہ لفظوں کو
اٹھا کے رکھتا ہے کاغذ پہ اور ہونٹوں پر
جگر کا خون چھڑکتا ہے روح پھونکتا ہے
ہر ایک بات میں قصے میں اور کہانی میں
 گھما پھرا کے انہیں کو سخن میں لاتا ہے
غلام قوم کا گمنام سا کوئی شاعر
غلام قوم کا گمنام سا وہ اک شاعر 
جو اپنی مادری بولی سے عشق کرتا ہے

میں جسے ہضم کر نہیں سکتا

میں جسے ہضم کر نہیں سکتا
ایسے رشتے کو کس طرح نگلوں

 وصل تو وصل ہجر بھی نہ رہا
بڑھتا جاتا ہے خالی پن دل میں

اب تو ڈھا دینی چاہیے دنیا

نیلگوں آسمان لگتی ہے
یہ زمیں دور سے کبھی دیکھو
نارسائی میں خوشنمائی ہے
دھول اڑتی ہے چاند پر ورنہ

دشت ناپید ہوتے جاتے ہیں
شورو غل بڑھ رہا ہے روز بروز


ہجر میں وصل کو ترستے تھے
وصل میں ہجر یاد آتا ہے
یہ نظر بھاگتی ہے منظر سے


بے شمار ان کہے سوالوں کو
ذہن میں دم دیے رکھوں کب تک
سوچ میں کچھ ابلتا رہتا ہے

کس قدر کرب ہے ذرا سوچو
میرے چاروں طرف ہے بھیڑ مگر

ایک بھی بالغ الدماغ نہیں



طفلِ ناداں کی سوچ کی حامل
روز بنتی بگڑتی رہتی ہے
کچی مٹی سی بھربھری دنیا


کتنی فرسودہ سی لگے اب تو
جب نئی ہوگی تب نئی ہو گی


اب تو ڈھا دینی چاہیے دنیا










شاعر


جیتے جی مل نہیں سکا اس کو
ایک کونہ خموش اور تنہا
اس لیے جلد مر گیا شاید!!!

Thursday, December 26, 2013

حورم کی آمد پر !!



حورم کی آمد پر !!
تمہارے پیار کو تجسیم کر دیا اس نے
تمہاری گود میں مہمان رب نے بھیجا ہے
ہماری آنکھوں سے شفقت چھلکتی جاتی ہے
ہمارے ہاتھوں میں اے دوست تیرا بچہ ہے!!!!؟؟؟

درد کیکر کی طرح صحن میں اگ آیا ہے

درد کیکر کی طرح صحن میں اگ آیا ہے
دن تو گلیوں میں گزر جاتا ہے شب بھاری ہے

Tuesday, December 24, 2013

زندگی مختصر ہے کیا کیج

جلدی جلدی میں سارے کروں
زندگی مختصر ہے کیا کیجے

سخت ہے موت مانتا ہیں مگر
زندگی سخت تر ہے کیا کیجے


Monday, December 23, 2013

مجھ کو جو لگتا ہے وہ یہ ہے کہ اس دنیا میں

ہر کوئی میری طرح ناخوش ہے
میں یہی سوچ کے خوش ہوجائوں!!؟؟

وہ سب مقابلے ہاروں کہ جن ے جیتنے سے
مجھے لگے کہ میں دنیا سے کچھ الگ سا ہوں

مجھ کو جو لگتا ہے وہ یوں ہے کہ اس دنیا میں
بے یقینی ہے  یقیں اور گماں ایماں ہے
 کچھ بھی حتمی نہیں اور کچھ بھی یقینا نہیں ہے
مجھ کو جو لگتا ہے وہ یوں ہے کہ اس دنیا میں
مادی اشیا کی طرح سوچ سے ایجاد ہوئی
نظریات اور عقیدوں کی وہ جبری خوراک
جس کو ہر شخص نگلتا ہے دوائی کی طرح
مجھ کو جو لگتا ہے وہ یوں ہے کہ اس دنیا میں
چند افراد نے کچھ ذاتی مقاصد کے لیے
سادہ دل لوگوں کو کو لڑنے پہ لگا رکھا ہے
سرحدوں نفرتوں قوموں کا سہارا لے کر

Friday, December 20, 2013

منافقوں کے لیے بہترین ہے دنیا

عقاب جان سے مارے کہ ادھ موا چھوڑے
کوئی بھی بن میں مددگار فاختہ کا نہیں
اصولِ زیست ہے! کمزور ظلم سہتا ہے


ہیں ہاتھ خونی مگر لوگ جھک کے چومتےہیں
سیاہ شملہ مگر پھر بھی سب سے اونچا ہے
ہمارے ماضی و باطن کوکون دیکھتا ہے
منافقوں کے لیے بہترین ہے دنیا


Thursday, December 19, 2013

ذرا سا چھیلو تو اندر سے وحشی نکلے گا

وحشی

ہماری شکل تھی انسان سے بہت ملتی
بس اتنے جرم پہ جنگل بدر کیا ہم کو!!
ذرا سا چھیلو تو اندر سے وحشی نکلے گا!!!!
---------------------------------------
---------------------------------------
خدا کے واسطے جنگل میں لوٹ جانے دو!

یہ میرا درد کدہ ہے یہاں پہ کچھ بھی نہیں

یہ میرا درد کدہ ہے یہاں پہ کچھ بھی نہیں
بس ایک شمع ہے زارو قطار روتی ہوئی
دو چار سانسیں ہیں سینے میں فوت ہوتی ہوئی
اور اک نظر در و دیوار سے الجھتی ہوئی
-------------------یہ میرا درد کدہ ہے 
کتابِ عشق کے پرزے اڑا گیا ہے وقت
ادھوری نظم ہے بستر پہ ہچکی لیتی ہوئی
 جو خواب آنکھ میں تھے آنکھ میں ہی جل بجھے ہیں
اب ان کی راکھ ہے منظر کو دھند لا کرتی ہوئی
شکست و ریخت اداسی اندھیرا اورگھٹن
کہ میری ذات نہیں قبر ہے سسکتی ہوئی
یہ میرا درد کدہ ہے یہاں پہ کچھ بھی نہیں
بس ایک شمع ہے زارو قطار روتی ہوئی

میں چاہتا ہوں کہ پل سے صدی کشید کروں

یہ دائروں کا سفر ہے سو گھومے جاتے ہیں
چلے جہاں سے وہیں کو پلٹتے جاتے ہیں

کوئی تو ہو جو جمی برف کاٹ سکتا ہو
تمام لوگ بہائو میں پھسلے جاتے ہیں

یہ زندگی ہے اجل کے سپرد کیوں کیجے
تمہاری آنکھوں کے گوشوں میں چِنتے جاتے ہیں

میں چاہتا ہوں کہ پل سے صدی کشید کروں
پلک جھپکتے یہاں سال گزرے جاتے ہیں

بس ایک جنسِ محبت تھی دل کو خوش آئی
تحفظات اب اس سے بھی ہوتے جاتے ہیں

Monday, December 16, 2013

صنف نازک پہ تکیہ مت کیج

اک نصیحت ہے زندگی میں کبھی
صنف نازک پہ تکیہ مت کیجو

ساتھ چلیو ہزار بار مگر
آسرے کی امید مت رکھیو

دن بدلنے پہ فیصلہ بدلے
!!دشمنی کو بھی دل پہ مت لیجو

صرف جذبات سے بنا ہو جو
!!عقل کااس پہ وار مت کیجو

آنے آنے کا یوں تو رکھّے حساب
!پیار سے چاہے جان لے لیجو

ایک لمحہ لگے انسان کو وحشی بنتے

سوچ مثبت ہو یا کہ منفی ہو
جو حقیقت ہے وہ حقیقت ہے
زندگی وقت کا ضیاع ہی ہے

جس قدر زندگی کو سمجھو گے
اس قدر زندگی سے بھاگو گے

رات بھر پہرے دار جاگتے ہیں
آدمی آدمی کو سونے نہ دے

باقی باتیں ہیں جتنی بھی کر لو
حق اسی کا ہے جس میں طاقت ہے

عمر لگ جاتی ہے تہذیب سکھاتے لیکن
ایک لمحہ لگے انسان کو وحشی بنتے


ہم پہ ضائع کیا گیا اس کو

"کون اپنا ہے کیا پرایا ہے""
جو بھی کچھ سامنے ہے سایہ ہے

ہم پہ ضائع کیا گیا اس کو
ہم سے کیا زندگی نے پایا ہے

عشق کا پیرہن بھی ململ تھا
ہی سالوں پہ چھید آیا ہے/////کچھ ہی سالوں میں تار تار ہوا

گھر سے باہر کوئی ٹھکانہ نہیں
گھر کے اندر اسے بٹھایا ہے

Saturday, December 14, 2013

نتیجہ یہ ہے یہاں کچھ بھی پائیدار نہیں

ہمیں سمجھ ہی نہیں آئی شخصیت اپنی
کہ جس بھی بزم میں بیٹھے وہیں پہ اجنبی تھے

نتیجہ یہ ہے یہاں کچھ بھی پائیدار نہیں
سو جو بھی کرتے ہو کرتے رہو سکون کے ساتھ

Friday, December 13, 2013

ہماری زندگی بس نام کی تھی


انحراف کا فی البدیہہ مشاعرہ

کبھی سایہ کبھی بس وہم ہی تھی
ہماری زندگی  تونام کی تھی

خسارہ ہی خسارہ آج کل ہے
محبت ہی محبت زندگی تھی

ازل سے پہلے کیا تھا جاننا ہے
ازل سے پہلے بھی کیا زندگی تھی؟

مجھے درکار کب تھا روز اک دن
مری رفتار لمحوں سے جڑی تھی

حقیقت کس طرح تسلیم کرتے
ہمیں خوابوں کی عادت ہو چلی تھی

یہ جو انسان ہے تقسیم کا شیدائی ہے

سرحدیں کھینچتا، اور فرقے بناتا آیا
یہ جو انسان ہے تقسیم کا شیدائی ہے

Thursday, December 12, 2013

میں نہیں مانگتا ہرروز نیا دن اترے

سایے کو قید کرنے لگے ہو کمال ہے
تم زندگی کو جینے لگے ہو کمال ہے

میں نہیں مانگتا ہرروز نیا دن اترے
مستقل کر دو مرے واسظے بس اک دن جب
!ساری دنیا میں کوئی شخص بھی رویا نہیں تھا

یہ جو دن رات ہیں

یہ جو دن رات ہیں پردے ہیں سفید اور سیاہ
جو مری عمر پہ گرتے ہی چلے جاتے ہیں
میرے بس میں ہو اگر پھاڑ کے پھینکوں ان کو
اور اندر سے نکالوں میں چمکتا ماضی
اور اندر سے نکالوں وہ  چمکتا ماضی
اور مرضی کے کسی خواب سے رنگیں پل کو
کھینچتا کھینچتا دہلیزِ ابد تک لائوں
!مستقل کردوں جوانی کو محبت کو وفا کو

Tuesday, December 10, 2013

مجھے انسان سے محبت ہے

مجھے انسان سے محبت ہے
اس کی خوشیوں سے اس کے دکھڑے سے
اس کی الفت سے اس کے جھگڑے سے
بے بسی ہو گھمنڈبازی ہو
بے وفائی ہو سچی یاری ہو
اس کی ہر چال خوبصورت ہے
مجھے انسان سے محبت ہے

سالوں پہ ہے محیط مگر خود کشی تو ہے

چلتے رہیں کہ بیٹھے رہیں چل رہا ہے وقت
ہر لحظہ بڑھ رہے ہیں عدم کی طرف سبھی
سالوں پہ ہے محیط مگر خود کشی تو ہے

Monday, December 9, 2013

ان کو فرصت ملے گی مر کر ہی

جن کو عادت ہو کام کرنے کی
ان کو فرصت ملے گی مر کر ہی

Sunday, December 8, 2013

زندگی مختصر ہو لمبی ہو

موت منزل ہو جس سفر کی اسے
راستے میں بھی چھوڑ دیں تو کیا
زندگی مختصر ہو لمبی ہو!

تمام عمر ہوا کے خلاف چلتا رہا

حسن خوشبو کی طرح ٹک کے نہیں رہتا ہے
اس کی عادت ہے مکانات بدلتے جانا
اس کی عادت ہے کہ پوشاک بدلتے جانا
حسن پر مان نہیں مان نہیں کر ناداں
یہ تو مہمان ہے مہمان پہ کیا اترانا

گل فروشوں کو نہیں علم محبت کیا ہے
پھول مر جاتے ہیں قیمت کے ادا ہوتے ہی!!!


جس کو دوزخ ملی ہو دنیا میں
ایسے کافر کی عاقبت کیا ہے



تمام عمر ہوا کے خلاف چلتا رہا
ہوا تھمی نہ طبیعت ہی ٹل سکی میری



Saturday, December 7, 2013

اپنے ماتحت کچھ رہا ہی نہیں

زندگی وقت خواب اور رشتے
اپنے ماتحت کچھ رہا ہی نہیں

Friday, December 6, 2013

ایک بیمار سے دیے کے لیے

ایک بیمار سے دیے کے لیے
زندگی بھر ہوا سے لڑتا رہا
اور آخر کو بجھ گیا وہ بھی!!!

اس قدر تیز چل رہے ہو کیوں
موت آنی ہے آہ جائے گی
ہر سفر موت پر ہی رکتا ہے


بڑی بے اعتبار سی ہے جو
ہم اسی زندگی پہ بیٹھے ہیں

Thursday, December 5, 2013

دکھ سبھی کے ہی ایک جیسے ہیں

باقی تفصیل جو بھی ہو سو ہو
دکھ سبھی کے ہی ایک جیسے ہیں
ایک کنبہ ہے بابے آدم کا
سارے اپنے ہیں سارے اچھے ہیں

Wednesday, December 4, 2013

بس ایک موڑ غلط تھا تمام رستے میں

بس ایک موڑ غلط تھا تمام رستے میں
ہمارے بیچ میں صدیوں کا فاصلہ ہے اب

Monday, December 2, 2013

ہے یہی قدر مشترک ہم میں

نفیساتی مریض ہے دنیا
اس پہ آسیب ہے عقیدوں کا
اک معالج ہی جانتا ہے بس
کتنا مشکل ہے ساتھ پاگلوں کا

تو بھی تنہا ہے اور دکھی بھی ہے
میں بھی تلکیف میں اکیلا ہوں
ہے یہی قدر مشترک ہم میں


Sunday, December 1, 2013

جو بھی ہوتا ہے ٹھیک ہوتا ہے

ترو تازہ گلاب اور کلیاں
کیوں سمجھتا ہے تیرا ہی حق ہیں
دوسروں کو بھی کچھ مہکنے دے
دوسرے بھی تو ان کے طالب ہیں
تو ذرا کانٹوں سے بہل کر دیکھ
یہ بھی  تو باغ کی حقیقت ہیں

میری بیٹی ہے کائینات مری
اور بیٹا نظر کی راحت ہے
ان کی ماں سے مگر عداوت ہے
کس قدر خود غرض ہے انساں بھی

-----------------
جو بھی ہوتا ہے ہوتا آیا ہے
جو بھی ہوتا ہے ٹھیک ہوتا ہے
مرگ و شادی کوئی نئے تو نہیں
درد و راحت پرانی باتیں ہے
چھوڑ دے ہاتھ ڈھیلے غم نہ کرو
وقت کا دھارا من کا موجی ہے
اپنی موجوں میں بہتا جاتا ہے
اور سب کچھ بہاتا جاتا ہے
جو بھی ہوتا ہے ٹھیک ہوتا ہے

Saturday, November 30, 2013

ہم تو بس آلو لینے بازار گئے تھے

ہم آلو لینے بازار گئے تھے
وہ کہہ رہی تھی کہ علی آلووں والے پراٹھوں کا شوقین ہے
وہ کہہ رہی تھی کہ صبح علی کے لنچ بکس میں آلووں والے پراٹھے رکھنے ہیں
ہم آلو لینے بازار گئے تھے
میں نے آلو خریدے، 
دکان دار کو پیسے دیے
تو وہ بولی آلو مجھے پکڑا دو
میں نے آلو پکڑانے کے لیے ہاتھ بڑھایا
"پکڑو"
میں پھر بولا
"پکڑ بھی لو"

اس نے جواب نہ دیا
جب میں نے پچھے مڑ کر دیکھا تو وہ بائک سے نیچے گری ہوئی تھی 

دور کہیں گولیوں کی آواز آرہی تھے
ڈاکووں کا پولیس مقابلہ تھا شاید
پر ہم تو آلو لینے بازار گئے
میں بوکھلاہٹ میں آلو اور بائک گرا کر اس کی طرف بھاگا
سرخ خون کا دھارا اس کے سر سے پھوٹ رہا تھا اور  گلی کی گندی نالی میں جاکر گر رہا تھا

"میں نے چیخ کر کہا
تم آلو لانے کے لیے مجھے بازار لائی تھی

" تم نے آلو پکڑے کیوں نہیں
وہ خموش تھی 

بھائی صاحب قسم لے لو، ہماری تو کسی سے کوئی دشمنی نہیں
ہم تو بس آلو لینے بازار گئے تھے

علم تہذیب سے عاری تو چنگھاڑتا ہے

علم تہذیب سے عاری تو چنگھاڑتا ہے
بات سچّی ہے کہ انسان بھی اک وحشی ہے

Friday, November 29, 2013

اب تیرا فیصلہ ہے کہ جس راہ تو چلے

عزت بھی دستیاب ہے ذلت بھی عام ہے
اب تیرا فیصلہ ہے کہ جس راہ تو چلے

Thursday, November 28, 2013

دشمنی عورتوں کی

دشمنی عورتوں کی عورتوں سی
جانے کب پیار میں بدل جائے
اس کو سنجیدگی سے مت لیجو
دل میں کچھ ہے زبان پر کچھ ہے

Monday, November 25, 2013

تجھے گنوا کے میں خوش ہوں اور اس قدر خوش ہوں

تجھے گنوا کے میں خوش ہوں اور اس قدر خوش ہوں
کہ دور ہونے کا دھڑکا نہ قربتوں کی ہوس!!

تم ایسے دیس میں انصاف ڈھوندتے ہو جہاں
دیے کی لو پہ ہی الزام تیرگی کا لگے

میں کور چشموں کی بستی میں رہ رہا ہوں جہاں
شعور و عقل کا معیار بیوقوفی ہے



سفر بھی جاری ہے اور مجھ کو بھی سکون نہیں

کچھ اس لیے بھی ہے یہ ہار جیت سے اچھی
سفر بھی جاری ہے اور  مجھ کو بھی سکون نہیں


خدا کے فیصلے دلچسپ بھی ہیں صائب بھی
شکست جیت سے بڑھ کر مواقع دیتی ہے

Friday, November 22, 2013

اور مٹی کے سب خدا توڑے

فیصلہ جن کا لوگ کرتے تھے
ہم نے وہ سب مقابلے چھوڑے

ڈالی لعنت ہر ایک عہدے پر
اور مٹی کے سب خدا توڑے

Thursday, November 21, 2013

کامیابی کا پیش خیمہ ہیں

یہ جو ناکامیاں ہیں پے در پے
کامیابی کا پیش خیمہ ہیں

Wednesday, November 20, 2013

ہم نے خنجر کو آزمایا ہے

کیا عجب ہے جو زخم آیا ہے
ہم نے خنجر کو آزمایا ہے

جن کو ٹھکرایا سارے لوگوں نے
ہم نے ان کو گلے لگایا ہے

وہ جو اپنا خیال رکھ نہ سکیں
اپنا سب کچھ انہیں تھمایا ہے

زندگی سے مذاق ہم نے کیے
زندگی نے ہمیں ستایا ہے

ہم کو منظور موت اس دل کی

لاکھ لعنت ہو ایسے خوابوں پر
جو مری ماں کو سوگوار کریں
 
ہم کو منظور موت اس دل کی
ہم ہوں کافر جو پھر سے پیار کریں

Tuesday, November 19, 2013

یہ محبت ہے جیت جاتی ہے

تم ذرا آزما کے تو دیکھو
یہ محبت ہے جیت جاتی ہے

حسنِ آدم کی انتہا کیا ہے؟
سارے انسان دیکھنا چاہوں

مجھ کو انسانیت سے عشق ہوا
بس یہی ایک مجھ میں اچھا ہے

لاکھ لعنت ہو ایسے خوابوں پر
جو مری ماں کو سوگوار کریں

تجھ کو چاہیں تو روح کی حد تک
وہ ہیں کافر جو حد کو پار کریں

خواہشوں کے غلام لالچی لوگ
ظاہری حسن سے جو پیار کریں

بھولپن میں گناہ عشق ہوا
مولوی جی بتاو کفارہ







Saturday, November 16, 2013

زندگی اس کو سونپ دی ہم نے

وہ جو خود اپنی جاں کے در پہ ہے
زندگی اس کو سونپ دی ہم نے

Tuesday, November 12, 2013

شادی کرنا ہے خود کشی کرنا

بد زباں بیوقوف عورت سے
شادی کرنا ہے خود کشی کرنا

قابلِ زکر چیز دنیا کی

اس قدر دلکش و حسیں چہرے
رب کی رحمت نہیں تو اور کیا ہے

قابلِ زکر چیز دنیا کی
گر محبت نہیں تو اور کیا ہے

Monday, November 11, 2013

عقب سے وقت مری عمر چرا کر لے گیا

میں ابھی زیست سے دوچار تھا کہ اتنے میں
عقب سے وقت مری عمر چرا کر لے گیا

Thursday, November 7, 2013

موت اتنی ہی پر سکوں ہو گی

زندگی جس قدر کٹھن ہوگی
موت اتنی ہی پر سکوں ہو گی

جب تک وہ پاس بیٹھا رہا بولتا گیا

گرہوں کی طرح دل کو مرے کھولتا گیا
جب تک وہ پاس بیٹھا رہا بولتا گیا

پہلی نظر کی بارشیں اور قرب کے نشے
سب کچھ ہمارے کاسے میں وہ گھولتا گیا

عشق کے دنوں میں تو دل خدا کے جیسا تھا

باوفا مقدر سے، بے وفا مقدر سے
کار عشق کا تو ہر سلسلہ مقدر سے

روٹھ کر چلے جانا سوری کہہ کے لوٹ آنا
حسن کی ادائیں ہیں کیا گلہ مقدر سے

عشق کے دنوں میں تو دل خدا کے جیسا تھا
ہائے دل! کہ دل بھی اب جا ملا مقدر سے

ڈھونڈنےچلے ہو تم، ڈھونڈنے سے کیا ہوگا
رزق و حسن کا تو ہے فیصلہ مقدر سے

Wednesday, November 6, 2013

حسن میں درد کی ملاوٹ ہے

کچھ بھی خالص نہیں ہے دنیا میں
حسن میں درد کی ملاوٹ ہے

Friday, November 1, 2013

بس ذرا پیار کی ضرورت ہے

یہ جو سنسار کی ضرورت ہے
فردِ بے کار کی ضرورت ہے

رنگ بکھرے ہوئے ہیں چاروں طرف
صرف فنکار کی ضرورت ہے

لو جی دوکاں سجا لی انہوں نے!!
اب خریدار کی ضرورت ہے

حسن وافر بھی اور مائل بھی
بس ذرا پیار کی ضرورت ہے

ربّا تیری حسین دنیا میں
پیار ہی پیار کی ضرورت ہے

خواہش کے چند کھوٹے سے سکّے ہیں دل کے پاس

 جو عشق تھا وہ کچی جوانی میںچھن گیا
خواہش کے چند کھوٹے سے سکّے ہیں دل کے پاس

راحتیں اس قدر مزہ دیں گی

دکھ اٹھائے ہیں جس قدر ہم نے
راحتیں اس قدر مزہ دیں گی

Thursday, October 31, 2013

اب سہل ہو گیا جدا ہونا

پردہِ سیمیں پہ جب دیکھا ترا پھول بدن
سارے کمرے میں مہکنے لگی تو روشنی سی


اب ترے پیار سے نکل آئے
اب سہل ہو گیا جدا ہونا



Sunday, October 27, 2013

نفس وہ خون خوار وحشی ہے

نفس وہ خون خوار وحشی ہے
بھوک بڑھتی ہے جس کی کھانے سے
پیٹ تو ریت سے بھی بھر جائے

جسم کو جسم کا وہ چسکا ہے
ایک لمحے کے لمس کی خاطر
موت کی حد پھلانگتے دیکھا


اپنی فطرت سے خوف آتا ہے
یعنی خلوت سے خوف آتا ہے
خواہشیں بے لگام کر دے گی
تیری صورت سے خوف آتا ہے

Saturday, October 26, 2013

دل پہ کچھ اختیار تھوڑی ہے

دل پہ کچھ اختیار تھوڑی ہے
دھکا شاہی ہے پیار تھوڑی ہے

نفع و نقصان کا سوال نہ کر
عشق ہے کاروبار تھوڑی ہے

کس قدر خوش نصیب ہیں وہ لوگ
جوخدا پر یقین رکھتے ہیں

معبدوں میں صبح صبح جا کر
رب سے راز و نیاز کرتے ہیں

کلمہ رد محبت کوئی سکھلائے مجھے

زندگی کیا تھی بیا باں تھا کوئی بے آباد
اپنے ہاتھوں سے ہی تزئین و آرائش کی ہے

راحتیں ایسی کوئی خاص نہیں ہیں تجھ میں
بات اتنی ہے کہ رستے میں کئی صحرا تھے

دل کی نقدی بھرے بازار میں لٹ سکتی ہے
حسن جادوہے کسی وقت بھی چل سکتا ہے

کلمہ رد محبت کوئی سکھلائے مجھے
عمر کے ساتھ ارادے بھی تو کمزور ہوئے


حسن کا بے پناہ سرمایا

خاک تھا خاک سے نمو پایا آیا
خاک کو خاک میں ہی دفنایا

تھا جو مکھی کے پر سے بے توقیر
جانے کس زعم پر ہے اترایا

کچھ ہمیں راستے میں روندھ گئے
کچھ کو ہم نے بھی یونہی ٹھکرایا

ہر کوئی اپنے خواب کے پیچھے
ہر کوئی اپنے پیٹ کا جایا

عشق کے نام پر ہوس نے ہی
ہر جگہ اپنا کاروبار چمکایا

ہم نے بھی ایک بار دیکھا تھا
حسن کا بے پناہ سرمایا

آنکھ برداشت کر سکی نہ اسے
دل دھڑکتے دھڑکتے چکرایا


دیکھا تو آنکھ سے چھلکنے لگا
سوچا تو سوچ میں نہ لا پایا

سر میں جھکڑ چلے بلاوں کے
گویا طوفان دشت میں آیا






Friday, October 25, 2013

سر میں ایسے بھرا ہے عشق ترا

سر میں ایسے بھرا ہے عشق ترا
جیسے صحرا میں آندھی بھرتی ہے
نظر آئے نہ کچھ سمجھ آئے
دھول ہی دھول ہر طرف ہے بس
سچ ہی کہتے تھے  مولوی حضرات
ایک لمحہ لگا قیامت کو!!!!!!!!!!!
سر میں ایسے بھرا ہے عشق ترا

کیا ضروری ہے بس اک سمت میں چلتے جانا؟؟؟



یہ جو دریا ہیں سبھی بہتے ہیں ساگر کی طرف
کیا ضروری ہے بس اک سمت میں چلتے جانا؟؟؟

ہم سے کچھ سر پھرے جھکڑ بھی تو ہوتے ہیں جو
صبح سے شام تلک خاک اڑاتے رہیں یونہی ہر سمت
دل لگی چلتی رہی دشت سے دیوانوں کی

کچھ ندی نالے جو دریا سے الجھ پڑتے ہیں
انو نکل پڑتے ہیں پھر بانجھ زمینوں کی طرف
بانجھ کی گود پری کرتے ہیں مر جاتے ہیں


یہ جو دریا ہیں سبھی بہتے ہیں ساگر کی طرف
کیا ضروری ہے بس اک سمت میں چلتے جانا؟؟؟

Thursday, October 24, 2013

مہمان چاہے جو بھی ہو رحمت خدا کی ہے

آیا ہے درد اٹھیے گلے سے لگائیے
مہمان چاہے جو بھی ہو رحمت خدا کی ہے

جینے کا اہتمام بھی آسان تو نہیں

روٹی بھی دستیاب ہو کپڑا، مکاں بھی ہو
جینے کا اہتمام بھی آسان تو نہیں

Tuesday, October 22, 2013

وقت کا ہاتھ تھامنا کیسا

بس یہی سوچ کے ہر درد سہے جاتے ہیں
زندگی رکتی نہیں رکتی نہیں رکتی نہیں

زندگی! اک دفعہ بتا ہی دے
اور کیا کیا ہے تیرے دامن میں

وقت رکّا ہے اور نہ رکّے گا
ہم کو رکنا پڑے کا بالآخر
وقت کا ہاتھ تھامنا کیسا؟؟؟


Monday, October 21, 2013

مجھے افسوس ہے مگر ہمدم

اس سے پہلے کہ میری آنکھوں میں
تیرے چہرے کا رنگ روپ آئے
اس سے پہلے کہ تیری آنکھوں کو
کوئی پچھتاوا گیلا کر جائے
میری آمد سے تھوڑا پہلے ہی
سر پہ گھونگھٹ نکال لینا تم
اور قرآنِ پاک کے سائے
اپنے پی گھر سدھار جانا تم
مجھے افسوس ہے مگر ہمدم
کچھ فسانے بس ایسے ہوتے ہیں
انہیں جتنا بھی طول دے دیں وہ
نامکمل ادھورے رہتے ہیں

بات کس کی تھی کس سے کر بیٹھے

کچھ بھی ملتا نہیں خیا لوں سا
کوئی ہوتا نہیں مثالوں سا
بات کس کی تھی کس سے کر بیٹھے
عشق اپنا خراب حالوں سا

وہ زباں دفتر و مکتب سے نکالی کس نے

میں یہیں کا مرا والد بھی یہیں کا لیکن
درد ہجرت کا وراثت میں ملا ہے پھر بھی
میرے آبا نے وطن چھوڑا تھا روزی کے لیے
میری اولاد نے تہذیب و ثقافت چھوڑی

اہنی دھرتی کا قرض کیسے چکا پائے گی
یہ نئی نسل جو ماں بولی سے بیگانی ہے

وہ زباں جس نے مجھے بولنا سکھلایا تھا
وہ زباں دفتر و مکتب سے نکالی کس نے

جو اہلِ زر ہیں وہی سب سے معتبر بھی ہیں

بڑے عجیب سے معیار ہے زمانے کے
جو اہلِ زر ہیں وہی سب سے معتبر بھی ہیں

Friday, October 11, 2013

ایک لمحہ بھی سرکتا نہیں پیسوں کے بغیر

وقت! سرکاری دفاتر کا کوئی رشوت خور
ایک لمحہ بھی سرکتا نہیں پیسوں کے بغیر

عمر کی فکر نہ کر عمر کہاں جائے گی
بھوک اور پیاس کا سورج نہیں ڈھلنے والا

Thursday, October 10, 2013

درد کیسا بھی ہو اور کتنی ہی شدت کا ہو

درد کیسا بھی ہو اور کتنی ہی شدت کا ہو
رفتہ رفتہ ہو ہی جاتا ہے موافق دل کے
سیکھ جاتے ہیں ہنر جینے کا وہ بے کس بھی 
کہ جنہیں کچھ بھی نہیں ملتا مطابق دل کے

Wednesday, October 9, 2013

سرخ لب چاند جبیں پھول بدن سب روٹی

ایک سادھو کو میسر نہ ہوئی جب روٹی
تو مجھے کہنے لگا دین دھرم رب روٹی

پیٹ کی بھوک نے خواہش کا گلا گھونٹ دیا
سرخ لب چاند جبیں پھول بدن سب روٹی

جو تیرے ہاتھوں سے دھل جائے میل کی صورت

ضروریات کا چابک کمر ہہ ہے اور ہم
بدکتے جاتے ہیں کولھو کے بیل کی صورت
یہ کس کے واسظے تو خون پانی کرتا ہے
جو تیرے ہاتھوں سے دھل جائے میل کی صورت

Monday, September 30, 2013

پلٹ رہیں شب و روز اس طرح جیسے

پلٹ رہیں شب و روز اس طرح جیسے
کھلی کتاب کے صفحے ہوا کی زد پر ہوں

Tuesday, September 24, 2013

زندگی قیدِ مشقت سے کوئی کم تو نہیں

مفلسی آپ کی فرقت سے کوئی کم تو نہیں
جنگ جینے کی محبت سے کوئی کم تو نہیں

زندہ رہنا بھی ہے اور رزق کمانا بھی ہے
زندگی قیدِ مشقت سے کوئی کم تو نہیں

دوڑ پڑتے ہیں صبح اٹھتے کدالیں لے کر
یہ جو مزدوری ہے آفت سے کوئی کم تو نہیں

اپنے اپنے ہی نوالوں کے تعاقب میں ہیں سب
نفسا نفسی یہ قیامت سے کوئی کم تو نہیں

قافلہ ایک مگر راہی ہیں تنہا تنہا
ساتھ ایسا بھی اذیّت سے کوئی کم تو نہیں

Saturday, September 21, 2013

مگر ضرورتیں پائوں پڑیں تو کیا کیجے

خدا گواہ کبھی مال و زر کی حرص نہ کی
مگر ضرورتیں پائوں پڑیں تو کیا کیجے

میں ایسے لوگوں کو انسان کس طرح مانوں
جو اپنے پیٹ کو بھرتے ہوئے ہی مر جائیں

Tuesday, September 10, 2013

سر پر اضافی بوجھ ہیں سر سے اتار دو

وعدے وفائیں خواہشیں خواب اور الفتیں
جب تک تمہارے ساتھ ہیں تب تک غلام ہو

غصہ ہو نفرتیں ہوں عداوت ہو حسد ہو
سر پر اضافی بوجھ ہیں سر سے اتار دو

نہ بھی آئے مضائقہ کیا ہے

نہ بھی آئے مضائقہ کیا ہے
اک تکلف ہے سانس بھی اب کے

چلنا عادت ہے چلتا رہتا ہوں
کوئی منزل نہیں رہی اب کے

Friday, August 30, 2013

اے خالقِ دوجہاں تیری پیاری دنیا میں

اے خالقِ دوجہاں تیری پیاری دنیا میں
یہ بیوقوف نہ ہوتے تو کیا کمی تھی بھلا!

Tuesday, August 27, 2013

خواب مر جائیں تو دفنا دیے جائیں فورا

خواب مر جائیں تو دفنا دیے جائیں فورا
ورنہ نس نس میں سما جاتی ہے بدبو ان کی

ان میں بدبو و تعفن کے سوا کچھ بھی نہیں
مردہ خوابوں کو کریدو گے تو کیا پائو گے

Friday, August 23, 2013

اپنے بچوں کی طرح درد کو پہچانتے ہیں

دکھ کی میراث  ملی اپنے بزرگوں سے مجھے
کہ مرا سلسلہِ نسب ہے دل تک جاتا

ایک احساس تو سرمایہ ہے اہلِ دل کا
اپنے بچوں کی طرح درد کو پہچانتے ہیں

معذرت

کہیں پر کھولتا پانی، بھڑکتی آگ کے شعلے
کہیں پر سیسہ پگھلا کر بھرا جاتا ہے کانوں میں
کہیں پر ازدہے پھنکارتے اور چیرتے بے بس گنہگاروں کے جسموں کو
کہیں پر ڈوب مرنے کو بھری ہیں خون کی نہریں
کہیں پر پیپ پینے کو
یہ کیسا خوف کا عالم ہے مذہب کی کتابوں میں
ڈرا کر اور دھمکا کر اگر مومن بنانا ہے
تو میری معذرت یارب!

Wednesday, August 21, 2013

فقط کانچ ہے دنیا کیا ہے


دل کے معیار پہ پورا ہی نہیں آتا کچھ
ارے دنیا! تیرے بازار سے کیا لینا ہمیں
طفل ناداں کے کھلونوں سے سجی منیاری
کہیں لذت، کہیں عزت کہیں شہرت تھی پڑی
شہرت و عزت و شوکت تو فقظ کاغذی تھے
ہم نے لذت کو اٹھایا تھا ہمک کر لیکن
ہاتھ میں آتے ہی چٹخی وہ بھی چوڑی کی طرح
کانچ نے خون کیے خواب گلابی ہو گئے!
کانچ ہی کانچ ہے اب آنکھوں میں اور سینے میں
مجھ سے پوچھو تو فقط کانچ ہے دنیا کیا ہے 

تنی ہوئی کسی رسّی پہ چل رہے ہیں ہم

ہر ایک لمحہ توازن بحال رکھنا ہے
تنی ہوئی کسی رسّی پہ چل رہے ہیں ہم

دو چار سال نہیں عمر بھر کا مسئلہ ہے
کہ بھوک پیاس کے سائے میں پل رہے ہیں ہم

اے میری سانسو! مسلسل رسد ضروری ہے
تمہارے چلنے سے چلتی ہے زندگی اپنی


Tuesday, August 13, 2013

عجیب دنیا ہے دیواریں کھینچ کر خوش ہے

سب اپنے اپنے وطن میں اسیر ہیں پھر بھی
بڑے ہی دل سے مناتے ہیں یوم آزادی
کسی بھی سمت چلو رستہ روک دے سرحد
!!!عجیب دنیا ہے دیواریں کھینچ کر خوش ہے

Monday, August 12, 2013

فاختہ سانپ کی سہاگن تھی

گلے لگانے سے ڈرنے لگے ہیں شہر کے لوگ
نماز عید کسی گائوں میں پڑھی جائے

جاں نہ جاتی تو اور کیا ہوتا
فاختہ سانپ کی سہاگن تھی

Thursday, August 8, 2013

یہ ایک دائرہ جو ہاتھ سے حلق تک ہے

یہ ایک دائرہ جو ہاتھ سے حلق تک ہے
اسی پہ چلتے ہوئے عمر کاٹ دی ہم نے

Wednesday, August 7, 2013

بچھڑتے وقت عجب لین دین ہوتا ہے

بچھڑتے وقت عجب لین دین ہوتا ہے
وہ باو فا مرا سینہ ہی کر گیا خالی

بڑی حقیر تھی مٹی کے گگو گھوڑوں سی

سب اپنے اپنے ہی محور کے گرد گھومتے ہیں
پبھیریوں کی نماش ہے لوگ تھوڑی ہیں

میں کس کے ساتھ چلوں کس کا آسرا مانگوں
بقا کی جنگ سے دو چار ہے یہاں ہر شخص

بڑی حقیر تھی مٹی کے گگو گھوڑوں سی
میں ایس دنیا سے کب تک بھلا لگاتا جی

میری تھالی میں حقارت کی ملاوٹ مت کر


کیسے کھائوں کے گلے میں ہی اٹک جاتا ہے
میرے کھانے میں حقارت کی ملاوٹ مت کر
 جان پیاری ہے مگری اتنی بھی پیاری نہیں ہے
اے سخی ایسی سخاوت کو اٹھا لے مجھ سے


کہاں یہ وقت کا پتھر کہاں نحیف سے ہاتھ
یتیم بچے نے خوابوں میں عمر کاٹی ہے


کبھی سانسوں کا کبھی دل کا کبھی لوگوں کا
اس قدر شور ہے ، جیتے ہیں تو کیا جیتے ہیں

اک اذیت ہے ترا پیار مجھے پیار نہ کر
کہ جو بے وقت کی پیتے ہیں وہ کیا پیتے ہیں


یہ جو اک ہونے نہ ہونے کا کوئی کھیل سا ہے
ہم اسی کھیل کے مہرے ہیں سو پٹ جائیں گے

یہ جو ہونے نہ ہونے کا کوئی کھیل سا ہے
ایسے لگتا ہے مرا نام مٹا ڈالے گا

Wednesday, July 31, 2013

زند گی اب رفو نہیں ہو گی

قبر تک آ گئے گٹھڑی سی اٹھائے سر پر
زندگی ہم نے تجھے پھول کے دیکھا ہی نہیں

کچھ خرابی ضرور ہے اس میں
زندگی راس کیوں نہیں آتی

سینکڑوں لاکھوں چھید ہیں اس میں 
زند گی اب رفو نہیں ہو گی

اس قدر غم ہے پھر بھی زندہ ہوں
یہ بھی کچھ معجزے سے کم تو نہیں

Tuesday, July 23, 2013

بعد ازاں رزق اٹھ گیا دل کا

جب تلک آنکھ بے بصیرت تھی
زندگی کافی خوبصورت تھی

عشق اس کا تھا خواہشوں سے اٹا
اور مجھے خواہشوں سے نفرت تھی

بعد ازاں رزق اٹھ گیا دل کا
وہ مری آخری محبت تھی

پیاز کی طرح چھیلتے ہی گئے
زندگی جستجو کی حیرت تھی

Monday, July 22, 2013

ہاں یہی سچ ہے سو کہنے میں تامل کیسا

ہاں یہی سچ ہے سو کہنے میں تامل کیسا
 میں تجھے بھول چکا بھول چکا بھول چکا

سو کہا سنا معاف کر دیا کیجیے

جسم و ذہن کا فاصلہ

جہاں میں ہو تا ہوں
وہاں پہنچنے میں کئی سال سگتے ہیں مجھے
اور جب پہنچتا ہوں تو وہاں  میں ہوتا نہیں
سو کہا سنا معاف کر دیا کیجیے

Friday, July 19, 2013

چاند جاگے ہے رات بھر تنہا

راستے منزلیں سفر تنہا
دھول اور دھوپ اور شجر تنہا

کیسا منظر ہے میرے چاروں طرف
لاکھوں اجسام ہیں مگر تنہا

رات کروٹ بدل کے سوتی رہے
چاند جاگے ہے رات بھر تنہا

روز خوابوں میں دعوتیں بھیجیں
منزلیں بھی ہیں کس قدر تنہا

ریت کے ذرے پاوں سے لپٹیں
"کہیں مت جانا چھوڑ کر تنہا"





Monday, July 15, 2013

درد رہنے لگا ہے اب سر میں

پہلے تیرا خیال رہتا تھا
درد رہنے لگا ہے اب سر میں

Sunday, July 14, 2013

بڑی کوفت ہے جینے میں

خالی خآلی سا 
خالی برتن ہے
کچھ بھی نہیں ہے سینے میں
سانس بھی لگتی 
ہے مشقت اب
بڑی کوفت ہے جینے میں

آج یکسر میں محبت سے نکل آیا ہوں

ایسا لگتا ہے کوئی دشت ہوں بے آب و گیاہ
یا خلائوں کا اندھیرا ہوں خموش اور سیاہ

یا کوئی قبر ہوں بے نام و پتہ لاش لیے
یاکوئی زخمی ہوں تکلیف نہ آرام جسے

یا وہ تارہ ہوں جو لپکا ہو زمیں کی جانب
اور رستے میں ہی رستے کی نذر ہو گیا ہو

یا وہ رہرو ہوں کہ جو شوقِ سفر سے سر شار
اپنی منزل کہیں راہوں میں ہی چھوڑآیا ہو

کبھی لگتا ہے کہ میں ہوں کبھی لگتا ہے نہیں
کوئی سایہ ہوں جو چھپتا پھرے سورج سے سدا

مختصر یہ کہ عجب کشمکشِ زیست ہے آج
آج یکسر میں محبت سے نکل آیا ہوں

وہ بھی اب عام ہوئے تھے جو کبھی خاص الخواص

وہ بھی اب عام ہوئے تھے جو کبھی خاص الخواص
زندگی سے تو بھروسہ ہی مرا اٹھ گیا اب

Thursday, July 11, 2013

تنگ آئے اس قدر کہ محبت ہی چھوڑی دی

چشم و لب و شباب کی چاہت ہی چھوڑ دی
محبوب اور شراب کی عادت ہی چھوڑی دی

اک کشمکش سی رہتی تھی سوچوں میں رات دن 
تنگ آئے اس قدر کہ محبت ہی چھوڑی دی

کل مل کے رو پڑی مجھے تنہائی اور کہا
جائوں کہاں کہ یاروں نے مہلت ہی چھوڑی دی

جنگل میں لاکھ عیب ہوں آزادیاں تو تھیں
تہذیب کے غلاموں نے فطرت ہی چھوڑی دی

بس فیکٹری کے پرزے ہیں گھستے ہیں روزوشب
لوگوں نے زندگی کی حرارت ہی چھوڑ دی

تنگ آئے اس قدر کہ محبت ہی چھوڑ دی

اک کشمکش سی رہتی تھی آٹھوں پہر ہمیں 
تنگ آئے اس قدر کہ محبت ہی چھوڑ دی

Wednesday, July 10, 2013

خود اپنے ہاتھ سے دریا میں پھینک آئو نا!

ہماری ذات بجھی راکھ کے برابر ہے
نہ جس سے ہاتھ جلیں اور نہ روشنی پھیلے

الٹ پلٹ کے ہمیں کچھ نہیں ملے گا تمہیں
خود اپنے ہاتھ سے دریا میں پھینک آئو نا!

Sunday, July 7, 2013

یہ بھی ہو سکتا ہے مذہب خوف کا ہی فلسفہ ہو

یہ بھی ہوسکتا ہے رب ہو اور سب کچھ دیکھتا ہو
یہ بھی ہو سکتا ہے مذہب خوف کا ہی فلسفہ ہو

یہ بھی ہو سکتا ہے دنیا کائیناتی حادثہ ہو
یہ بھی ہو سکتا ہے شاید حادثہ اک تجربہ ہو

یہ بھی ہوسکتا ہے جنت نیک کاموں کی جزا ہو
یہ بھی ہوسکتا ہے جنت حسرتوں کاتخلیہ ہو

یہ بھی ہو سکتا ہے روحیں وقت سے باہر پڑی ہوں
اور وقت اپنے ازل سے اور ابد سے ماورا ہو

یہ بھی ہوسکتا ہے روحیں اینٹ پتھر کی طرح ہوں
سوچنا اور دیکھنا بس جسموں کا ہی مشغلہ ہو

یہ بھی ہو سکتا ہے ہم سب جسم واحد کے حصص ہوں
جینا مرنا انقسامِ اندروں کا سلسلہ ہو

ربا جیت گیا تو اور ہار گیا میں

مظلوم کے حق میں بہت لڑا  میں لیکن آخر
ربا جیت گیا تو اور ہار گیا میں

ہم تو رب سے ہارے

دھوپ ہے شعلوں سی
چھاوں ہے کیکر کی

عشق ہے سودائی

---------

پینگ ست رنگوں کی
آسماں پرجھولے 

حسن ہے پرچھائیں

-----------

کس نے چھو کر دیکھا
پیار اور جذبوں کو

رشتے ہیں مفروضے

---------

قسمتیں ڈوریں  سی
اور ہم پتلی سے

بے ارادہ ناچیں

----------------

زندگی چلتی ہے 
جسموں جسموں پیہم

موت ہے افسانہ

----------------

گھونسلہ چیلوں کا
بچے ہیں بلبل کے

ہم تو رب سے ہارے

دل پہ بوجھ کیا رکھیں ، ہم تو خود پہ بھاری ہیں

خاک سے ملے تھے ہم - خاک میں ملے آخر
آنکھوں کو ہی خوابوں سے ہو گئے گلے آخر

کھودنا پہاڑوں کا عادتِ جنوں پیشہ
مجنووں کو وحشت سے کیا ملے صلے آخر

عشق ہو کہ نفرت ہو، دل پہ بوجھ ہیں دونوں
دل پہ بوجھ کیا رکھیں ، ہم تو خود پہ بھاری ہیں

ہم اپنے ہاتھوں سے خود اپنے پنکھ کاٹ آئے

قفس میں بند کرو یا ہمیں کھلا چھوڑو
ہم اپنے ہاتھوں سے خود اپنے پنکھ کاٹ آئے

نگاہ  وجسم کجا روح تک غلام ہوئی
کچھ ایسی قید ہے اب موت بھی چھڑا نہ سکے


---------------------------


تعمیر ہو سکے نہ ہی مسمار ہو سکے
پہلی ہی اینٹ ٹیڑھی تھی رکھی بھی خود ہی تھی

خوابوں کے پیرہن میں تھی خواہش چھپی ہوئی
دل جس کو کہہ رہے تھے ہوس کا سفیر تھا

Thursday, July 4, 2013

اور اس لڑائی کا خمیازہ عمر بھر بھگتا

بس ایک بار لڑے تھے نصیب سے اپنے
اور اس لڑائی کا خمیازہ عمر بھر بھگتا

گر زندگی یہی ہے تو اس زندگی پہ خاک

سر پٹ بھگائے جاتی ہیں مجبوریاں ہمیں
کچھ پل کو سانس روک لوں اتنی مجال کیا

گر زندگی یہی ہے تو اس زندگی پہ خاک

Tuesday, July 2, 2013

پس اب حوالہ تقدیر کر دیا خود کو

میں بھاگ بھاگ کے اکتا گیا تھا تھک گیا تھا
پس اب حوالہ تقدیر کر دیا خود کو

Monday, July 1, 2013

چاند سورج زمیں ہیں چکرائے


سیدھی رہ سے بھٹک گیا قصدا
میری فطرت میں ہی بغاوت تھی

زندگی انتخاب کم نظراں
مجھ کو بے مائیگی سے نفرت تھی

دل میں اب کچھ نہیں ہے کچھ بھی نہیں
وہ مری آخری محبت تھی


----------------------------------

چاند سورج زمیں ہیں چکرائے
وقت کا راز ان سے باہر ہے

Thursday, June 27, 2013

اے کاش یوں بھی ہو اک بار سب ہی غارت ہو

اے کاش یوں بھی ہو اک بار سب ہی غارت ہو
یہ کائینات نئے طور سے عمارت ہو
میں تنگ آ گیا مصروفیت سے محفل سے
جی چاہتا ہے کہ تنہائی ہو فراغت ہو
کسی کا ساتھ ہو لیکن ہوا سا ہلکا سا
کہ جس میں کوئی عداوت نہ کوئی الفت ہو
تمام عمر چلوں راستہ تمام نہ ہو
نہ کوئی دیر نہ عجلت سفر میں راحت ہو
سکوت ایسا کہ دھڑکن بھی شور لگتی ہو
کنارِ آب کہیں چاند پر سکونت ہو
حسین لوگ ہوں لیکن خموش بیٹھے ہوں
نہ کوئی شکوہ شکایت نہ کوئی حاجت ہو
ہوس پرست ہو عاشق ہو شرط اتنی ہے
تعلقات میں نرمی ہو اور نزاکت ہو
نگاہ ٹھنڈی ہو ایسی سکون آجائے
لبوں میں شہد سے بڑھ کو کوئی حلاوت ہو
ہوا چلے تو بدن ڈولتا پھرے ایسے
کہ جیسے پانی پہ کاغذ کا پھول تیرت ہو

تاروں کے ساتھ رات بسر کرتے تھے کبھی

بجلی نے بند کمروں میں محبوس کر دیا
اتنی گھٹن کہ سوچ بھی محدود ہو گئی

تاروں کے ساتھ رات بسر کرتے تھے کبھی

بالفاظِ دگر نادان تھے ہم

بہت ایماندارانسان تھے ہم
بالفاظِ دگر نادان تھے ہم

!!!!یا سات رنگ بکھرے تھے یا ایک بھی نہیں


غائب ہوئے کہ کہ جیسے ہو قو سِ قزح کوئی
!!!!یا سات رنگ بکھرے تھے یا ایک بھی نہیں

ہے بد نصیبی اگر ہم سفر ملے ایسا

ہے بد نصیبی اگر ہم سفر ملے ایسا
جو چل سکے نہ ہی منزل سے کم پہ راضی ہو

Wednesday, June 26, 2013

!!عرصہ ہوا ہے گائوں کا چکر نہیں لگا

اک فاختہ جو گاتی تھی یوسف کنویں میں ہے
شدت سے یاد آنے لگی جانے کیوں مجھے

!!عرصہ ہوا ہے گائوں کا چکر نہیں لگا

خوابوں میں روز آنے لگے ہیں پپیہے بھی
بیلوں کی سبک چال بھی گڈے کے پہیے بھی
لوسن کے سبز چارے پہ شبنم کی بوندیں بھی

!!عرصہ ہوا ہے گائوں کا چکر نہیں لگا

شیشم کی ٹہنیوں پہ گلہری کا کھیل تھا
پانی پہ جان دیتے تھے، بگلے سفید تھے
اور چاند چاند کرتی تھی، چوکور کالی تھی

!!عرصہ ہوا ہے گائوں کا چکر نہیں لگ



Tuesday, June 25, 2013

سب اہلِ دل بھی یہاں اب نظر کے مارے ہیں

امیر بھی ہے ذہیں بھی زباں کی شیریں بھی
بس ایک حسن کی قلت ہے سو وہ کچھ بھی نہیں

سب اہلِ دل بھی یہاں اب نظر کے مارے ہیں

کہ جستجو ہے ملے آخری کنارہ اب

کوئی نہیں ہے یہاں ہمسفر ہمارا اب
بس ایک راہ گزر ہی ہے سہارا اب
چلے چلو کہ جہاں تک یہ رہ گزر جائے
کہ جستجو ہے ملے آخری کنارہ اب

Monday, June 24, 2013

میں اپنے لوگوں میں ہوں کس قدر پرایا سا

زبان رکھتا ہوں میں بھی، مگر خموش رہوں
کہوں بھی کیا، کہ یہاں کوئی ہم زباں ہی نہیں
میں اپنے لوگوں میں ہوں کس قدر پرایا سا

عجیب قسم کی اک دھونس ہے یہ زندگی بھی

نہ والدین ہی پوچھیں نہ خالقِ مطلق
تھما کے ہاتھ میں جبرا گنی چنی سانسیں
دھکیل دیتے ہیں اک بے کراں سمندر میں

کمر پہ باندھا ہے پٹھو کڑی شرائط کا
 کہیں پہ خوف و گماں اور  کہیں پہ لالچ ہے
ہے دھکا شاہی کا سودا یہ دوزخ  و جنت
-----
عجیب قسم کی اک دھونس ہے یہ زندگی بھی

اے مری جاں مجھے اتوار کی چھٹی دے دے

عمر بھر ساتھ نبھانا بھی تو مزدوری ہے
اے مری جاں مجھے اتوار کی چھٹی دے دے

Thursday, June 20, 2013

نہ جانے کس کا بدن ہے رکھا ہوا مجھ پر
نہ جانے کس کے ارادوں کی پاسداری ہے

مزہ تو تب ہو کہ جب چاہے روک لوں اس کو
گزرتی جائے جو خود ہی وہ میری عمر نہیں

یہ بھوک اور غریبی اتار دیجے گا

حیات چاہیے مجھ کو مگر حیات فقط
یہ بھوک اور غریبی اتار دیجے گا

کہ ہم چلے ہی نہیں وقت چل گیا ہو گا

کمر خمیدہ ہوئی سانس لڑکھڑانے لگی
مگر نگاہ میں اور دل میں بچپنا ہے وہی
کہ ہم چلے ہی نہیں وقت چل گیا ہو گا

گھسا پٹا سا ہے معمول، زندگی کیا ہے

گھڑی نے سوئی سے باندھا ہوا ہے ہم سب کو
گھسیٹے جاتی ہے جو ساتھ ساتھ آٹھوں پہر
گھڑی رکے تو ذرا سانس لے سکیں ہم بھی

صبح کے آٹھ بجے ناشتہ کرو اٹھّو
چلو چلو کہیں دفتر سے دیر ناں ہو جائے
لو ایک بج گیا ظہرانہ بن گیا ہو گا
یہ پیٹ پاپی ہے نیّت کا لالچی ہے بہت
دو چار لقموں سے اس کی زبان بند کرو 

گھڑی نے سات بجائے اٹھو چلو گھر کو
گھر آ کے پھر وہی بیوی کے روز کے شکوے
جسے تسلیاں دیتے گیارہ بارہ بجیں
ذرا جو آنکھ لگے پھر کلاک بجنے لگے
گھسا پٹا سا ہے معمول،  زندگی کیا ہے

گھڑی نے سوئی سے باندھا ہوا ہے ہم سب کو
گھسیٹے جاتی ہے جو ساتھ ساتھ آٹھوں پہر
گھڑی رکے تو ذرا سانس لے سکیں ہم بھی

یہ ایک دائرہ دن رات کا کہاں تک ہے؟


میں بھاگتا تو رہوں پر فرار ہو نہ سکوں
یہ ایک دائرہ دن رات کا کہاں تک ہے؟

Tuesday, June 18, 2013

بس ایک رد عمل ہے برا بھلا کیا ہے

جو سوچ بھی نہیں سکتے تھے ہو رہا ہے وہی
کہ روز ہو ہو کے لگنے لگا ہے ٹھیک وہی
بس ایک رد عمل ہے برا بھلا کیا ہے

عشق اچھا ہے مگر عشق ضروری بھی نہیں

شاعری کرنے کو درکار ہے احساس فقط
عشق اچھا ہے مگر عشق ضروری بھی نہیں

یہ جو شاعر ہیں

پہلے تنہائی کماتے ہیں بڑی محنت سے
اور پھر زندگی بھر کرتے ماتم اس کا

یہ جو شاعر ہیں جھگڑتے ہیں ہمیشہ خود سے

Monday, June 17, 2013

ہے میرے طفل کی آنکھوں میں کائینات مری

گلے میں ڈآل کے باہیں سنائے جب نظمیں
اڑوں ہوائوں میں اور آ سماں کی سیر کروں
ہے میرے طفل کی آنکھوں میں کائینات مری

گر پڑوں کو نہ اٹھانا انہیں مرنے دینا

گر پڑوں کو نہ اٹھانا انہیں مرنے دینا
موت سے جو بھی لڑا مارا گیا بالآ خر
ہم نے اک ڈوبنے والے کو اٹھایا ہوا ہے
اور زندہ ہیں کئی سال سے بس مر مر کر

مگر وہ موتی بضد تھا

اسے کہا تھا کہ میں خاک ہوں مجھے مت مل
مگر وہ موتی بضد تھا سو رل گیا آخر

کہ میں بادل ہوں جہاں چاہوں وہاں برسا کروں

چھوڑ آیا ہوں اسے دشت میں پیاسا تنہا
کہ میں بادل ہوں جہاں چاہوں وہاں برسا کروں

آگ جس دل کو لگے سیک اسی کو جائے

آگ جس دل کو لگے سیک اسی کو جائے
دیدہ ور تیرا ہے کیا روشنی کہتا جائے

زندگی موت کا نوالہ ہے

میں اسے زنگی نہ مانوں جو
آخرش موت میں اتر جائے 
زندگی موت کا نوالہ ہے


----------------

موت ہی ابدیت ہے باقی ہے
زندگی اتفاقی وقتی ہے

گلزار کے نام

خود سے بچھڑ کے خود کو ہی پھر کھوجتے رہے
ہجرت نصیب لوگوں کو چہرے نہ مل سکے

تقسیم کا ملال مجھے اس لیے بھی ہے
گلزار دینہ چھوڑ کے دلی چلے گئے

ستر برس کے بعد جو لوٹے وطن میں وہ
جوتے اتار مٹی سے چھوتے ہوئے چلے

بچپن کا بھولپن تو کہیں یاد رفتگاں
ہر سمت داستاں تھی کہ آنسو چھلک پڑے

قانون زندگی ہے فقط آرزو نہیں
جس دھرتی پہ اگا ہو، اسی دھرتی پہ کٹے

لاکھوں کی شہہ رگوں کو نچوڑا تو پھر بنی
وحشت کا استعارہ ہے سرحد نہ کہہ اسے

Saturday, June 15, 2013

کہ قسط قسط ہمیں آپ تو گزارئیے نا

ادھورے خواب کی مد میں ہمیں لگائیے نا
یہ جھوٹ موٹ کے افسانچے سنائیے نا

دل و نگاہ کجا اب تو جان تک آئی
!خدا کے واسطے سنجیدگی دِکھائیے نا

ہمارے ہاتھ میں گر ہاتھ دے نہیں سکتے
ہماری راہ سے ہٹیے یوں دل دُکھائیے نا

نہ کوئی شرط ملن کی نہ کوئی عہدِ وفا
یہ پنچھیوں سی لگاوٹ ہمیں دکھائیے نا

گزار دے گی ہمیں زندگی بہر صورت
کہ قسط قسط ہمیں آپ تو گزارئیے نا



Friday, June 14, 2013

میں زہر پھانک چکا تھا تمہارے آنے سے قبل


پیالہ شہد کا جھٹکا نہیں بچایا ہے
میں زہر پھانک چکا تھا تمہارے آنے سے قبل

تقسیم

تقسیم کا ملال مجھے اس لیے بھی ہے
گلزار دینہ چھوڑ کے دلّی چلے گئے

کسی کے کھو جانے کا خواب

کسی کے کھو جانے کا خواب

خدا کا شکر ہے وہ خواب تھا فقظ خواب ہی تھا
کہ میری آنکھ نہ کھلتی تو غم سے مر جاتا

Wednesday, June 12, 2013

Full text of Jiah Khan's six-page letter. the feelings leading to suicide

Page 1
"I don't know how to say this to you but I might as well now as I have nothing to lose. I've already lost everything. If you're reading this I might have already left or about to leave. I am broken inside. You may not have known this but you affected me deeply to a point where I lost myself in loving you. Yet you tortured me everyday. These days I see no light I wake up not wanting to wake up. There was a time I saw my life with you, a future with you. But you shattered my dreams. I feel dead inside. I've never given so much of myself to someone or cared so much. You returned my love with cheating and lies. It didn't matter how many gifts I gave you or how beautiful I looked for you. I was scared of getting pregnant but I gave myself completely."
Page 2
The pain you have caused me everyday has destroyed every bit of me, destroyed my soul. I can't eat or sleep or think or function. I am running away from everything. The career is not even worth it anymore. When I first met you I was driven, ambitious and disciplined. Then I fell for you, a love I thought would bring out the best in me. I don't know why destiny brought us together. After all the pain, the rape, the abuse, the torture I have seen previously I didn't deserve this. I didn't see any love or commitment from you. I just became increasingly scared that you would hurt me mentally or physically. Your life was about partying and women. Mine was you and my work. If I stay here I will crave you and miss you.
Page 3
So, I am kissing my 10-year career and dreams goodbye. I never told you but I received a message about you. About you cheating on me. I chose to ignore it, decided to trust you. You embarrassed me. I never went out, I never went with anyone else. I am a loyal person. I never met anyone with Karthik I just wanted you to feel how you make me feel constantly. No other woman will give you as much as I did or love you as much as I did. I can write that in my blood. Things were looking up for me here, but is it worth it when you constantly feel the pain of heartbreak when the person you love wants to abuse you or threatens o hit you or cheats on you telling other girls they are beautiful or throws you out of their house when you have


Page 4
no where to go and you've come to them out of love or when they lie to your face or they make you chase after them in their car. Or disrespects their family. You never even met my sister. I bought your sister presents. You tore my soul. I have no reason to breathe anymore. All I wanted was love. I did everything for you. I was working for us. But you were never my partner. My future is destroyed my happiness snatched away from me. I always wished the best for you, was ready to invest what little money I had in your betterment. You never appreciated my love, Kicked me in the face. I have no confidence or self esteem left, whatever talent whatever ambition you took it all away. You destroyed my life.

Page 5
It hurt me so much that I waited for you for ten days and you didn't bother buying me something. The Goa trip was my birthday present but even after you cheated I still spent on you. I aborted our baby when it hurt me deeply. You destroyed my Christmas and my birthday dinner when I came back. When I tried my hardest to make your birthday special. You chose to be away from me on Valentines Day. You promised me once we made it to one year we would get engaged. All you want in life is partying, your women and your selfish motives. All I wanted was you and my happiness you took both away from me. I spent money on you selflessly
Page 6
you would throw in my face. When I would cry for you. I have nothing left in this world to live for after this. I wish you had loved me like I loved you. I dreamt of our future. I dreamt f our success. I leave this place with nothing but broken dreams and empty promises. All I want now is to go to sleep and never wake up again. I am nothing. I had everything. I felt so alone even while with you. You made me feel alone and vulnerable. I am so much more than this.









تو نے ٹھکرایا تو کچھ وقت چلا میرا بھی

میں کئی سال سے اک لمحے کی تحویل میں تھا
تو نے ٹھکرایا تو کچھ وقت چلا میرا بھی

Monday, June 10, 2013

دیکھ لیجے ہمیں ہم بھی رہے تنہا تنہا


ہاتھ خالی ہی رہے سارا سمند چھانا
ناخدا شام ڈھلے گائوں کو لوٹا تنہا
ہم کہ مشہور بہت دوستی اور عشق میں تھے
دیکھ لیجے ہمیں ہم بھی رہے تنہا تنہا

بعض چہروں پہ بہت سجتا ہے دکھ درد اے دوست

بعض چہروں پہ بہت سجتا ہے دکھ درد اے دوست
غم اگر اوڑھ کے وہ نکلا، قیامت ہوگی

Friday, June 7, 2013

رشتے

زندگی راستہ اور وقت ہےصحرا کوئی
جب تلک سانس چلے پائوں بھی چلتے جائیں
رشتے ملتے ہیں بچھڑ جاتے ہیں ایسے جیسے
کوئی آبادی کسی موڑ پہ آئے یک دم
اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اوجھل ہو جائے

Wednesday, June 5, 2013

کچھ برس نوکری اب دل کی کریں گے ہم تو!

کب تلک پھرتا رہیں ہاتھ میں لے کر اسناد
دو ٹکوں کے لیے یہ زندگی گروی کب تک

کچھ برس نوکری اب دل کی کریں گے ہم تو!

Monday, June 3, 2013

تری صدا نے پکارا جب بھی میں بے زباں تھا

میں تیرے شایانِ شاں نہیں تھا اسی لیے تو
خدا نے تیری سبھی دعائوں کو رد کیا ہے
تری صدا نے پکارا جب بھی میں بے زباں تھا
سو مت سمجھنا کہ میں نے تجھ کو جھٹک دیا ہے

مری جوانی کا سارا ایندھن تمہارے چولھے میں جل بجھا ہے

مری جوانی کا سارا ایندھن تمہارے چولھے میں جل بجھا ہے
وہ شعلگی بھی تمہاری تھی اور یہ راکھ بھی اب تمہاری ہی ہے

Friday, May 31, 2013

میں آسماں کے ستارے پکڑنا چاہتا ہے

میں آسماں کے ستارے پکڑنا چاہتا ہے
مگر میں کیا کرے دنیا ہے پائوں سے لپٹی

Thursday, May 30, 2013

رہے گی روح ہمیشہ ہی گائوں سے لپٹی

کڑکتی دھوپ ہے پیڑوں کی چھائوں سے لپٹی
جنم جنم سے ہے تکلیف مائوں سے لپٹی

دل آسماں کے ستارے پکڑنا چاہتا ہے
مگر یہ کیا کرے دنیا ہے پائوں سے لپٹی

میں شہر آ تو گیا ہوں یہیں مروں گا بھی
رہے گی روح ہمیشہ ہی گائوں سے لپٹی

ہم اہلِ علم ہیں لفظوں سے راستہ پوچھیں
رہیں گی منزلیں مجنوں کے پائوں سے لپٹی

ڈرے ڈرے مرے سب لوگ غیر کے ہیں اسیر
کہ جیسے گرد ہو کوئی ہوائوں سے لپٹی


ہماری پہلی محبت تھی بے مزہ اتنی

ہماری پہلی محبت تھی بے مزہ اتنی
کہ اس کے بعد کسی سے بھی دل لگا نہ سکے
تمہارے بعد محبت نے کھینچا تانی تو کی
تمہارے بعد محبت کے ہاتھ آ نہ سکے
شباب اور جوانی بہار اور ساون
قفس کے سامنے آئے قفس میں آ نہ سکے

Monday, May 20, 2013

بہار ہو کہ خزاں ہو اداس رہنا ہے

قفس میں قید پرندے سے پوچھتے کیا ہو؟
بہار ہو کہ خزاں ہو اداس رہنا ہے

آخری بار ملا تھا وہ یوں

جوان جذبے سلامت رہیں کہ ان کے طفیل
غمِ زمانہ بھی اب سازگار لگتا ہے


ایزدی خواب کی تعبیر میں گزری ہے حیات

یعنی خواہش مری در اصل مری تھی ہی نہیں

ہم وہ کردار اضافی ہیں کسی کھیل میں جو
یونہی آجاتے ہیں منظر کے پسِ منظر میں


آخری بار ملا تھا وہ یوں
جیسے سب عیب مرء جانتا ہو

آس بے وجہ سہی کوششِ ناکام سہی

آس بے وجہ سہی کوششِ ناکام سہی
جب تلک زندہ ہیں مصروف تو رہنا ہو گا

Thursday, May 16, 2013

ہے چار لقموں کی دوری یہ بھوک کچھ بھی نہیں

ہے چار لقموں کی دوری یہ بھوک کچھ بھی نہیں
مگر غریب سے پوچھو جو ساری عمر چلے

Wednesday, May 15, 2013

یہ وقت کہتے ہیں جس کو، کوئی سمندر ہے

یہ وقت کہتے ہیں جس کو، کوئی سمندر ہے
کوئی کنارہ ہے جس کا نہ کوئی پیندہ ہے
سطح پہ تیرتے رہتے ہیں جب تلک دم ہو
قضا جب آتی ہے چپکے سے ڈوب جاتے ہیں

بھلا یہ وقت مرے ساتھ کیوں نہیں چلتا؟

ذرا سا تیز چلوں، ہانپتا پکارتا ہے
ذرا سا سست جو ہوں چھوڑ کر چلا جائے
بھلا یہ وقت مرے ساتھ کیوں نہیں چلتا؟

Tuesday, May 14, 2013

کہ کاش وقت کا گھوڑا نکیل دیتا مجھے


کئی دفعہ یہ خیال آیا دل میں شدت سے
کہ کاش وقت کا گھوڑا نکیل دیتا مجھے
کچھ ایسے پل تھے کہ سالوں ٹھہرنا تھا جن میں
کچھ ایسے سال تھے جو بائی پاس کرنے تھے

Saturday, May 4, 2013

خواب خواہش کے لبادے میں اگر آئے گا

خواب خواہش کے لبادے میں اگر آئے گا
آنکھ کے ساتھ ترا جسم بھی زخمائے گا

بیڑیاں پائوں میں اور طوق گلے میں کس کے
یار کے کوچے کبھی دار پہ کھنچوائے گا

پائوں پڑنا نہ کبھی اور نہ منت کرنا
جس نے جانا ہے بہر طور چلا جائے گا


وہ اگر جان گیا کچھ نہیں دامن میں ترے
سر کو نیچا کیے چپ چاپ بچھڑ جائے

پودا چاہت کا بھی ہر وقت نمی مانگتا ہے
پانی کم دو گے تو کچھ روز میں مرجھائے گا

زندگی جو بھی ترے ساتھ چلے گا دل سے
آخرِ کار وہ ہر حال میں پچھتائے گا

اکیسویں صدی کا روبوٹ

 ایک جنگل ہے مشینوں کا جہاں تک  دیکھوں
اور میں بھولا ہوا بھٹکا ہوا پھرتا ہوں
صنعتی دور کا انسان ہوں روبوٹ ہوں میں
-----------------------------------

کمپیوٹر کی ہی سکرین میں سمٹی ہے حیات
ہاتھ سے باندھی گھڑی سے ہی بندھے ہیں اوقات
میں نے دیکھی ہی نہیں شام کبھی اور نہ رات!!
-------------------------------------

میں تھا خائف بڑا فطرت کے حوادث سے کبھی
موسم اور قدرتی آفات پہ اب قابو ہے
لیکن اس فتح میں خوابوں کو بہت خون ہوا
---------------------------------------

مجھ کو فطرت نے کیا ملک بدر کچھ ایسے
چاندنی رات سے انسانوں سے اور پھولوں سے
اب ملاقات کی تاعمر کوئی آس نہیں
---------------------------------------

ایک بے روح سے ڈھانچے کی ہے نسبت مجھ سے
جس میں احساس ہے جینے کا نہ مرنے کا اب
شکل انسانوں سے ملتی ہے، حقیقت یوں ہے
فیکٹری کے کسی انجن کا ہی اک پرزہ ہوں


Thursday, May 2, 2013

چلے جہاں سے تھے اب بھی وہیں پہ ہیں شاید


جہانِ عشق و وفا آدمی کے بس کا نہیں
ہر ایک سانس پہ دھڑکا ہے زندگی کا جسے
خدا ہمیشہ رہا ہے ہمیشہ ہی ہو گا
سو اس کے ساتھ تعلق بنانا چاہیے تھا
مگر یہ راستہ مشکل تھا اور ہم سیدھے
بھلا یہ کس طرح ممکن تھا سرخرو ہوتے؟
قدم قدم پہ گماں اور بے یقینی تھی
طرح طرح کے مذاہب تھے راہ میں حائل
تمام عمر کسی دائرے میں چلتے رہے
چلے جہاں سے تھے اب بھی وہیں پہ ہیں شاید

مجھے عادت ہی نہیں ہے تری ناراضگی کی

ابل رہی ہیں کہیں آنکھیں ، اس میں حیرت کیا
بچھڑ گیا ہوگا کوئی بدل گیا ہو گا

زمین زادے بھلا کیا نبھائیں گے رشتے
ہر ایک سانس پہ سوچیں جو فائدہ اپنا

چٹخ گیا ہے کوئی آئینہ تو کیا غم ہے
کسی نے سچ ہی کہا "دل کا استعارہ ہے

وہ بد دعائیں مجھے رہا ہے اور میں چپ
یہ سوچتا ہوں کہ دنیا سا ہو گیا وہ بھی

تیرے شکووں کا مرے پاس نہیں کوئی جواب
اس قدر اجنبی لہجے میں تکلم کیا ہو؟
مجھے عادت ہی نہیں ہے تری ناراضگی کی

Monday, April 29, 2013

جب اپنے آپ سے نکلے گا تب یہ جانے گا

وفا کرو گے تو پچھتائو گے یہ لکھ لیجیے
محبتوں میں وفا ہی عذاب ہوتی ہے

/ بنتی ہے


یہ تیرا عشق ترے ذہن کے ہی اندر ہے
جب اپنے آپ سے نکلے گا تب یہ جانے گا

Saturday, April 20, 2013

خود اپنے آپ کو ضائع کیا کتابوں سے

خود اپنے آپ کو ضائع کیا کتابوں سے
جو بچ گیا تھا تلاشِ معاش میں خرچا
محبتیں کہ مرے جسم و جاں کا حصہ تھیں
کبھی کبھی مجھے ملتی ہیں اجنبی کی طرح
تکلفات نے فطرت کو یوں اتار دیا
کہ جیسے سانپ اتارے ہے کینچلی اپنی
ہزار قسم کے رشتے، کہ میری آنکھوں میں
پڑے ہوئے ہیں جلائے ہوئے پتنگوں سے
فریب خوردہ آنکھیں ہیں دے رہی پہرہ
کہ جیسے راکھ میں پھر روح پھونک دے گا کوئی

گزر گئے ہیں زمانے فریب نظری میں


تلاش جس کی تھی دل کو وہ دل کے اندر تھا
تھے جس سے بھاگتے پھرتے وہ سر پہ رکھا تھا
گزر گئے ہیں زمانے فریب نظری میں
-------------------------------------------------

چلا جہاں سے مسافر وہیں پہ لوٹے گا
یہ بھاگ دوڑ تو اک رسم زندگانی ہے

------------------------------------------------------

دھواں نکلتا ہے چھت سے، چراغ جلتا ہے
سلگ رہی ہے کسی گھر میں زندگی یعنی

Friday, April 12, 2013

سوچوں تو کائینات ہے دیکھوں تو کچھ نہیں


انحراف فورم کا طرحی فی البدیہہ مشاعرہ جمعہ 12 اپریل 2013 جناب باصر کاظمی صاحب کے اعزاز میں

سوچوں تو کائینات ہے دیکھوں تو کچھ نہیں
ایسی حقیقتوں سے نہ کر آشنا مجھے

اتننے سوال بکھرے پڑے تھے گلی گلی
رستے بدل بدل کے گزرنا پڑنا مجھے

خواب وخیال   و عشق و جنوں چھوڑ چھاڑ دے
پیر مغاں نے وجد میں آ کر کہامجھے

سپر دگی کو محبت کا نام مت دیجیو


کسی کی گود میں گر جائے گا پرندہ اب
کہ زخم کھا کے بلندی پہ اڑنا مشکل ہے
سپر دگی کو محبت کا نام مت دیجیو

Thursday, April 4, 2013

پاس ہے جب سے ملاقات نہیں ہو پائی


دور تھا، ٹھیک تھا، خوابوں میں تو مل جاتا تھا
پاس ہے جب سے ملاقات نہیں ہو پائی

سوچتا ہوں کہ یہاں جھوٹ کی حد ہوتی کاش


قرب اتنا ہے کہ اک چھت کے تلے رہتے ہیں
دوری اتنی ہے کہ برسوں کی مسافت ہے ابھی
سوچتا ہوں کہ یہاں جھوٹ کی حد ہوتی کاش
لوگ کہتے ہیں مجھے تجھ سے محبت ہے ابھی

Tuesday, April 2, 2013

وضاحتوں میں ہی گزری ہے زندگی ساری


وضاحتوں میں ہی گزری ہے زندگی ساری
تعلقات نبھانا بھی اک مصیبت ہے

Sunday, March 31, 2013

زندگی تھی یہ مری یا کہ کوئی حادثہ تھا


زندگی تھی یہ مری یا کہ کوئی حادثہ تھا
ٹوٹتے تارء کی صورت جلی اور بجھ بھی گئی