Friday, August 30, 2013

اے خالقِ دوجہاں تیری پیاری دنیا میں

اے خالقِ دوجہاں تیری پیاری دنیا میں
یہ بیوقوف نہ ہوتے تو کیا کمی تھی بھلا!

Tuesday, August 27, 2013

خواب مر جائیں تو دفنا دیے جائیں فورا

خواب مر جائیں تو دفنا دیے جائیں فورا
ورنہ نس نس میں سما جاتی ہے بدبو ان کی

ان میں بدبو و تعفن کے سوا کچھ بھی نہیں
مردہ خوابوں کو کریدو گے تو کیا پائو گے

Friday, August 23, 2013

اپنے بچوں کی طرح درد کو پہچانتے ہیں

دکھ کی میراث  ملی اپنے بزرگوں سے مجھے
کہ مرا سلسلہِ نسب ہے دل تک جاتا

ایک احساس تو سرمایہ ہے اہلِ دل کا
اپنے بچوں کی طرح درد کو پہچانتے ہیں

معذرت

کہیں پر کھولتا پانی، بھڑکتی آگ کے شعلے
کہیں پر سیسہ پگھلا کر بھرا جاتا ہے کانوں میں
کہیں پر ازدہے پھنکارتے اور چیرتے بے بس گنہگاروں کے جسموں کو
کہیں پر ڈوب مرنے کو بھری ہیں خون کی نہریں
کہیں پر پیپ پینے کو
یہ کیسا خوف کا عالم ہے مذہب کی کتابوں میں
ڈرا کر اور دھمکا کر اگر مومن بنانا ہے
تو میری معذرت یارب!

Wednesday, August 21, 2013

فقط کانچ ہے دنیا کیا ہے


دل کے معیار پہ پورا ہی نہیں آتا کچھ
ارے دنیا! تیرے بازار سے کیا لینا ہمیں
طفل ناداں کے کھلونوں سے سجی منیاری
کہیں لذت، کہیں عزت کہیں شہرت تھی پڑی
شہرت و عزت و شوکت تو فقظ کاغذی تھے
ہم نے لذت کو اٹھایا تھا ہمک کر لیکن
ہاتھ میں آتے ہی چٹخی وہ بھی چوڑی کی طرح
کانچ نے خون کیے خواب گلابی ہو گئے!
کانچ ہی کانچ ہے اب آنکھوں میں اور سینے میں
مجھ سے پوچھو تو فقط کانچ ہے دنیا کیا ہے 

تنی ہوئی کسی رسّی پہ چل رہے ہیں ہم

ہر ایک لمحہ توازن بحال رکھنا ہے
تنی ہوئی کسی رسّی پہ چل رہے ہیں ہم

دو چار سال نہیں عمر بھر کا مسئلہ ہے
کہ بھوک پیاس کے سائے میں پل رہے ہیں ہم

اے میری سانسو! مسلسل رسد ضروری ہے
تمہارے چلنے سے چلتی ہے زندگی اپنی


Tuesday, August 13, 2013

عجیب دنیا ہے دیواریں کھینچ کر خوش ہے

سب اپنے اپنے وطن میں اسیر ہیں پھر بھی
بڑے ہی دل سے مناتے ہیں یوم آزادی
کسی بھی سمت چلو رستہ روک دے سرحد
!!!عجیب دنیا ہے دیواریں کھینچ کر خوش ہے

Monday, August 12, 2013

فاختہ سانپ کی سہاگن تھی

گلے لگانے سے ڈرنے لگے ہیں شہر کے لوگ
نماز عید کسی گائوں میں پڑھی جائے

جاں نہ جاتی تو اور کیا ہوتا
فاختہ سانپ کی سہاگن تھی

Thursday, August 8, 2013

یہ ایک دائرہ جو ہاتھ سے حلق تک ہے

یہ ایک دائرہ جو ہاتھ سے حلق تک ہے
اسی پہ چلتے ہوئے عمر کاٹ دی ہم نے

Wednesday, August 7, 2013

بچھڑتے وقت عجب لین دین ہوتا ہے

بچھڑتے وقت عجب لین دین ہوتا ہے
وہ باو فا مرا سینہ ہی کر گیا خالی

بڑی حقیر تھی مٹی کے گگو گھوڑوں سی

سب اپنے اپنے ہی محور کے گرد گھومتے ہیں
پبھیریوں کی نماش ہے لوگ تھوڑی ہیں

میں کس کے ساتھ چلوں کس کا آسرا مانگوں
بقا کی جنگ سے دو چار ہے یہاں ہر شخص

بڑی حقیر تھی مٹی کے گگو گھوڑوں سی
میں ایس دنیا سے کب تک بھلا لگاتا جی

میری تھالی میں حقارت کی ملاوٹ مت کر


کیسے کھائوں کے گلے میں ہی اٹک جاتا ہے
میرے کھانے میں حقارت کی ملاوٹ مت کر
 جان پیاری ہے مگری اتنی بھی پیاری نہیں ہے
اے سخی ایسی سخاوت کو اٹھا لے مجھ سے


کہاں یہ وقت کا پتھر کہاں نحیف سے ہاتھ
یتیم بچے نے خوابوں میں عمر کاٹی ہے


کبھی سانسوں کا کبھی دل کا کبھی لوگوں کا
اس قدر شور ہے ، جیتے ہیں تو کیا جیتے ہیں

اک اذیت ہے ترا پیار مجھے پیار نہ کر
کہ جو بے وقت کی پیتے ہیں وہ کیا پیتے ہیں


یہ جو اک ہونے نہ ہونے کا کوئی کھیل سا ہے
ہم اسی کھیل کے مہرے ہیں سو پٹ جائیں گے

یہ جو ہونے نہ ہونے کا کوئی کھیل سا ہے
ایسے لگتا ہے مرا نام مٹا ڈالے گا