Saturday, February 27, 2010

مری آنکھ سے تری آنکھ کا جو حجاب تھا وہی اب بھی ہے

مری آنکھ سے تری آنکھ کا جو حجاب تھا وہی اب بھی ہے
ترے پاس میرے سوال کا جو جواب تھا وہی اب بھی ہے

وہی غیر مرئی دیوار ہے ترے سامنے مری راہ میں
تو جھکا جھکا ، میں رکا رکا ، جو سراب تھا وہی اب بھی ہے

وہی مختصر سا ملن ترا کہ ٹرین جیسے گزر رہی
تری چشمِ تر میں مسافتوں کا عذاب تھا وہی اب بھی ہے

کبھی روبر ہو کے بیٹھنا تو نظر بچا کے ہی دیکھنا
وہی بچپنا ترے پیار کا کہ بیتاب تھا وہی اب بھی ہے

تری آنکھ کے کہیں بیچ میں کئی سال چھپ کے گزرگئے
تری ابرئووں پہ ٹھہر گیا ، کوئی خواب تھا وہی اب بھی ہے



Friday, February 26, 2010

میں بھٹک کے آ گیا بزم میں ، مجھے ضبط ہی نہ سکھا ئے جا

میں بھٹک کے آ گیا بزم میں ، مجھے ضبط ہی نہ سکھا ئے جا
نہ سول کر مرے چارہ گر، میں پیئے جائو ں تو پلائے جا

یہ نگر حصار ہے ذات کا، یہاں ہر قدم پہ ہے دائرہ
یا بنا دے سانس کا راستہ، یا دیوارِ جاں کو گرائے جا

کبھی ریت اور رواج پر، کبھی دیں دھرم کے نام پر
سبھی خواب سولی چڑھا دیے، جو بچے ہیں چند سجائے جا

مرے راستے کی دیوار ہے ، مرے خاندان کی لاج بس
مرے خون میں ہیں بغاوتیں مجھے حوصلہ نہ دلائے جا

بڑی دھوپ ہے ترے دیس میں، کوئی زلف ہے نہ آسیب ہے
مری جلتی بلتی زمین پر ، دو بوند حسن گرائے جا

میری بدنصیبی کدھر چلی، مرے پاس آ ، مرے ساتھ آ
مجھے آگ آگ تو کر دیا، مری راکھ بھی تو اڑائے جا

تری زندگی میں آسودگی، تجھے شاعروں سے غرض ہے کیا
یہ جہاں سے روٹھ کے بیٹھے ہیں، تو قبائے جاں کو بچائے جا

Bahar Pattern: - - = - = / - - = - = / - - = - = / - - = - =
Bahar Name: کامل مثمّن سالم

یہ دنیا میرے مزاج کی نہیں

یہ دنیا میرے مزاج کی نہیں

یہاں سانس لینے کے ضابطے

یہاں عشق کے بھی اصول ہیں

یہاں اپنی اپنی پڑی ہوئی

یہاں جیئے جانے کے مول ہیں

یہاں قال پڑا ہے جذبوں کا

یہاں راج ریت رواج کا ہے

میری فطرت ریت رواج کی نہیں

یہ دنیا میرے مزاج کی نہیں


Monday, February 22, 2010

میرے دل بتا تیرا راستہ مجھے اور کتنا بھگائے گا

میرے دل بتا تیرا راستہ مجھے اور کتنا بھگائے گا
تیری خوا ہشوں کے سراب میں میرا عکس ڈوبتا جائے گا

یہاں پھول سارے ہیں کاغذی یہاں رنگ و بو بھی ہے عارضی
یہ چمن فریب ہے آنکھ کا یہا ں کون جی کو لگائے گا

یہ چرا غ حسن ہے سازشی ،چھپی روشنی میں ہے آگ سی
یہ شرر ہے برق کی پھلجھڑی خس و خاک جاں کو جلائے گا

گھڑی دو گھڑی کی ہے زندگی، وہ بھی فکروغم سے لدی بھری
روزِ حشر تیری جناب میں ، کوئِی کیا حساب گنائے گا

ہے بگولہ خاک کا آدمی ، جو ہوا کے ساتھ سفر میں ہے
اسے کیا خبر کیسے موڑ پر، یہ سفر بھی ہاتھ چھڑائے گا

یہ محبتوں کا فریب بھی کوئی چال ہے ترے جسم کی
دے کے نام روحوں کے میل کا ، تجھے پستیوں میں گرائےگا


Bahar Pattern: - - = - = / - - = - = / - - = - = / - - = - =
Bahar Name: کامل مثمّن سالم

Thursday, February 18, 2010

ہاں مگر یقیں ہے یہ

کب سے سوچ رکھا ہے
نظم ایک لکھنی ہے
زندگی کی گردش میں
رات دن بدلتے ہیں
فکر الجھی رہتی ہے
وقت ہی نہیں ملتا
دو گھڑی توقف کا
یاد تک نہیں رہتا
سانس بھی تو لینی ہے
آج جب کہ بیٹھا ہوں
کب سے سوچ میں گم ہوں
کیا اتا روں کا غذ پر
حد ہے بھولنے کی بھی
بھول گیا یہا ں تک میں
نظم کا موضوع کیا تھا
ہاں مگر یقیں ہے یہ
کچھ ستم کی باتیں تھیں
تجھ سے کچھ شکایتیں تھیں

Monday, February 15, 2010

وہی آنکھ جلتی بلتی ، وہی ہونٹ راکھ سے ہیں

وہی آنکھ جلتی بلتی ، وہی ہونٹ راکھ سے ہیں
وہی لطف جا بجا ہے، وہی ہم کہ چھپ رہے ہیں

وہی آبِ جو ہے دیکھو، کہ لبوں کو چھو رہی ہے
وہی ضبطِ حال اپنا کہ تپش سے جل مرے ہیں

جو سفر کیا تھا برسوں وہ نجانے کیا سفر تھا
کہ چلے تھے ہم جہاں سے اسی موڑ پر کھڑے ہیں

کی محبتوں کی پوجا ، تھے مروتوں کے عادی
ہوئے ایسے ریزہ ریزہ ، کہ نشان ڈھونڈتے ہیں

تو برابری پہ لڑتا تو مقابلہ بھی کرتے
تری بے بسی کے آگے، یونہی قتل ہو گئے ہیں

Bahar Pattern : - - = - / = - = = // - - = - / = - = =
Bahar Name : رمل مثمّن مشکول

رات ہی رات رہی صبح کہاں سے لکھتا

رات ہی رات رہی صبح کہاں سے لکھتا
ملتا سورج جو کبھی میں بھی اجالے لکھتا

میرے منصف نے مرا قتل بھی مجھ پر تھوپا
تیری دنیا کے میں کیا اور قصیدے لکھتا

عمر بھر جھگڑا رہا میرا زمانے بھر سے
کھوکھلی رسموں کو کیسے میں صحیفے لکھتا

درد کے پھول چرا لاتا میں ہر گلشن سے
اور پھر ان کی محبت کے فسانے لکھتا

جان تک لے گئی یہ میری وفا کی عادت
دل بھی کب تک یوں وفائوں کے عقیدے لکھتا


Bahar Pattern : =* - = = / - - = = / - - = = / = =
Bahar Name: رمل مثمّن مخبون محذوف مقطوع

Friday, February 12, 2010

کتنے عجیب آپ ہو، مسئلوں کی اک کتاب ہو

کتنے عجیب آپ ہو، مسئلوں کی اک کتاب ہو
دشمنی کر سکو نہ تم، دوستی میں عذاب ہو

بے دلی سے دیا میں نے، بے دلی سے لیا تو نے
پیار کے نام پر کبھی رسوا نہ یوں گلاب ہو

عشق خمار کے بغیر ، عشق نہیں گمان ہے
عشق اگر نہیں حرام، کیسے بھلا شراب ہو

زندگی عادتا سہی جیسے تیسے گزار لو
سوچ سمجھ سے کیا ملے، سوچ سمجھ خراب ہو

ہم کو بھلا ہے کیا خبر، کیا ہے صراط مستقیم
ناک کی سیدھ میں چلے ، چین ملے عذاب ہو

بہت بسر کیا تجھے زندگی اور لے کے چل
اچھا برا سزا جزا ، کچھ نہ ایسا حساب ہو

پتھرو تم کو پوج پوج، اکتا گیا ہوں آج کل
کوئی سخن شناس ہو، شاعری کی کتاب ہو

عمرِ گزشتہ سوچ کر، ملیے نہ ہاتھ نور جی
وقت نے کھا خرچ لیا، ڈھونڈتے کیا شباب ہو

Bahar Pattern: = - - = / - = - = // = - - = / - = - =
Bahar Name: رجز مثمّن مطوی مخبون

Saturday, February 6, 2010

نہ منزلوں کا پتہ ہے نہ راستوں کی خبر ہے

نہ منزلوں کا پتہ ہے نہ راستوں کی خبر ہے
ہوا کے زانو پہ رکھا ترے بیمار نے سر ہے

یہی جواب ملا ہے مجھے حرم سے ہمیشہ
ترا یقین ہے ناقص ترا ایمان کفر ہے

تجھے سنبھال نہ پائے یہ تیرے چاہنے والے
سمجھ لے وقت ہے اب بھی، کہ پیار ریت کا گھر ہے

اٹھا کے پھینک دیا ہے فلک نے چاند بھی دیکھو
معیار کچھ نہیں ہوتا فقط یہ ذوقِ نظر ہے

یہ اشک تیرے مقدر میں لکھ دیے ہیں قضا نے
بہار ہو کہ خزاں تو بے برگ و بار شجر ہے

یہ عورتوں کی محبت سمجھ سکو گے نہ ریحا ں
زبان دشمنِ جاں اور آنکھ پیار سے تر ہے

Bahar Pattern: - = - = / - - = = / - = - = / - - = =
Bahar Name: مجتث مثمّن مخبون

بھاگنا سایوں کے پیچھے عادتیں دل والوں کی

بھاگنا سایوں کے پیچھے عادتیں دل والوں کی
دل کے صدقے جاں پہ گزریں آفتیں دل والوں کی

پہروں پہروں بیٹھے رہنا خواب کے بہلاوے میں
زندگی جوئے میں ہرنا فطرتیں دل والوں کی

رات کے کالے ماتھے پر چاند پنسل کی طرح
جانے کیا کیا لکھتا رہتا قسمتیں دل والوں کی

دن کا سورج جلتا رہتا اپنے دکھ کی آگ میں
غور سے دیکھو کبھی تم صورتیں دل والوں کی

ساقیا اب آ کبھی ویران ہے یہ میکدہ
اب نہ دیکھی جائیں ہم سے حالتیں دل والوں کی

توبہ توبہ کرتے آئیں جب بھی اس کوچے سے آئیں
اگلے ہی دن پھر سے جاگیں حسرتیں دل والوں کی

Bahar Pattern : = - = = / = - = = / = - = = / = - =
Bahar Name: رمل مثمّن محذوف

Thursday, February 4, 2010

ہم کو دیوا نہ بنا ڈالا چمن والوں نے

ہم کو دیوا نہ بنا ڈالا چمن والوں نے
رنگ اور مے سے بھرے پھول کےان پیالوں نے

ہم کو فرصت ہی کہاں دی کہ جھپکتے آنکھیں
گیلی گیلی سی ہنسی ہستے ہو ئے گالوں نے

ہر طرف راستہ روکا ہے مرا خوشبو نے
پائوں کو باندھ دیا زلف کےان جالوں نے

زندگی جانے کدھر لے کے چلے گی ہم کو
سوچنا چھوڑ دیا ہے ترے متوالوں نے

وقت کی نبض بھی بے جان سی کر دی ریحاں
اس کی پرکیف جوانی کے حسیں سالوں نے

 
Bahar Pattern : =* - = = / - - = = / - - = = / = =
Bahar Name: رمل مثمّن مخبون محذوف مقطوع

Wednesday, February 3, 2010

سوال کر سکے نہ ہم ، جواب ڈھونڈتے رہے

سوال کر سکے نہ ہم ، جواب ڈھونڈتے رہے
نظر میں خواب لےکے ہم ، عذاب ڈھونڈتے رہے

یہ درد تھم سکا کبھی، نہ وہ سمجھ سکا کبھی
علاجِ دل سے ہار کے، شراب ڈھونڈتے رہے

چلے تھے خود کو بانٹنے، جنون تھا بکھرنے کا
حرف حرف ادھیڑ کر کتاب ڈھونڈتے رہے

وہ پا کے ہم کو پیار میں، نیلام کرنے چل پڑا
تو ہم بھی پھر فریب کا نقاب ڈھونڈتے رہے

ہمیں یہاں تھا جو ملا ، دھواں سمجھ اڑا دیا
حقیقتوں سے بھاگ کر ، سراب ڈھونڈ تے رہے


Bahar Pattern: - = - = / - = - = / - = - = / - = - =
Bahar Name: ہزج مثمّن مزبوض

Monday, February 1, 2010

ایسے کھوئے ہو تم خدا کی قسم

ایسے کھوئے ہو تم خدا کی قسم
جیسے ملحد سے وہ خدا کھوئے

چین کھوئے ہے جیسے عاشق کا
حسن والوں سے جوں وفا کھوئے

ہر ادا کھوئے جیسے سادھو کی
اور طوائف سے جوں حیا کھوئے

نیند ٹوٹے ہے جیسے دستک سے
اور نشہ سارا خواب کا کھوئے

قطرہ کھوئے ہے جوں سمندر سے
اور قطرے میں ناخدا کھوئے

جیسے کھوئے ہو تم خدا کی قسم
یوں کسی سے نہ آپ سا کھوئے

Bahar Name: خفیف مسدّس مخبون محذوف مقطوع
Bahar Pattern:  =* - = = / - = - = / = =



وقت کے پائوں کب رکے ہیں

مجھ کو سو چنا اچھا لگتا ہے
چند لمحوں کی مختصر باتیں
جو تیری آنکھوں سے
میری آنکھوں میں کھب گئیں ہیں
جو میری سانسوں سے
تیری سانسوں میں
بے وجہ ہی گھس گئیں ہیں
وہ ساری باتیں
جنہیں لفظ نہ مل سکے
وہ سارے لفظ
جوسماعت کے زینوں پہ نہ چڑھ سکے
یوں لگے ہے دل کا شیشہ
تیری مسکان کی پتیوں سے
کچی مٹی سا بھرنے لگے ہے
یوں لگے ہے کچھ پل اور تجھ کو سوچ لوں تو
کائنا ت ساری
عجب نشے میں، عجب سرور میں
جھوم جھوم مرنے چلے ہے
وہ چند لمحے
وہ چند منظر
یادیں ان کی کھو رہی ہیں
مگر ذائقہ اب بھی ہے تازہ تازہ
خستہ خستہ سا دل ہوا ہے
مرچی مرچی سے لب ہوئے ہیں
حیا کی لالی چھلک رہی ہے
ادا کی بالی لٹک رہی ہے
نظر پیروں سے لپٹ رہی ہے
پائوں مگر کب رکے ہیں
وقت کے پائوں کب رکے ہیں

فرصت ہو تو بتانا

فرصت ہو تو بتانا
کچھ دیر بیٹھیں گے
بے نام ہی سہی
بے کلام ہی سہی
آنکھوں کو آنکھوں کی عادت ہے
ان کی عادت کو ہی
میری عیادت کو ہی
کسی روز چلے آنا
تھو ڑا وقت بانٹیں گے
اک بوجھ ہے درد کا
جو جینے نہیں دیتا
وہ بوجھ اٹھا جانا
کچھ آنسو ہیں قرض جیسے
وہ قرض چکا جانا
کسی روز چلے آنا
فرصت ہو تو بتانا

مجھ سے رونے کی بات نہ کر

میرے دوست
مجھ سے رونے کی بات نہ کر
ہم درد مزاج لوگ ہیں
درد ڈھونڈ لیتے ہیں
کوئی رت ہو کوئی موسم
کسی مرگ کا ہو عالم
اشک مانگ لیتے ہیں
زخم بانٹ دیتے ہیں
پھولوں کی آستینوں میں چھپے
کانٹے بو جھ لیتے ہیں
سرخ سنہری شاموں سے
اندھیروں کا پتہ پوچھ لیتے ہیں
شادی کے شادیانوں میں
گھر کے کونوں میں
چھپ چھپ کے روتی دلہنوں سے
ناکام محبتوں کا ذکر چھیڑ دیتے ہیں
ہم کم ظرف سے آدمی،
بے کام کاج لوگ ہیں
درد بیچ دیتے ہیں!
میرے دوست
مجھ سے رونے کی بات نہ کر!