مری آنکھ سے تری آنکھ کا جو حجاب تھا وہی اب بھی ہے
ترے پاس میرے سوال کا جو جواب تھا وہی اب بھی ہے
وہی غیر مرئی دیوار ہے ترے سامنے مری راہ میں
تو جھکا جھکا ، میں رکا رکا ، جو سراب تھا وہی اب بھی ہے
وہی مختصر سا ملن ترا کہ ٹرین جیسے گزر رہی
تری چشمِ تر میں مسافتوں کا عذاب تھا وہی اب بھی ہے
کبھی روبر ہو کے بیٹھنا تو نظر بچا کے ہی دیکھنا
وہی بچپنا ترے پیار کا کہ بیتاب تھا وہی اب بھی ہے
تری آنکھ کے کہیں بیچ میں کئی سال چھپ کے گزرگئے
تری ابرئووں پہ ٹھہر گیا ، کوئی خواب تھا وہی اب بھی ہے