Saturday, February 27, 2010

مری آنکھ سے تری آنکھ کا جو حجاب تھا وہی اب بھی ہے

مری آنکھ سے تری آنکھ کا جو حجاب تھا وہی اب بھی ہے
ترے پاس میرے سوال کا جو جواب تھا وہی اب بھی ہے

وہی غیر مرئی دیوار ہے ترے سامنے مری راہ میں
تو جھکا جھکا ، میں رکا رکا ، جو سراب تھا وہی اب بھی ہے

وہی مختصر سا ملن ترا کہ ٹرین جیسے گزر رہی
تری چشمِ تر میں مسافتوں کا عذاب تھا وہی اب بھی ہے

کبھی روبر ہو کے بیٹھنا تو نظر بچا کے ہی دیکھنا
وہی بچپنا ترے پیار کا کہ بیتاب تھا وہی اب بھی ہے

تری آنکھ کے کہیں بیچ میں کئی سال چھپ کے گزرگئے
تری ابرئووں پہ ٹھہر گیا ، کوئی خواب تھا وہی اب بھی ہے



No comments:

Post a Comment