Monday, April 30, 2012

مان لیتے ہیں ترے ہجر میں زندہ ہیں ہم

سانس لینے کو اگر زندگی کہتا ہے تو
مان لیتے ہیں ترے ہجر میں زندہ ہیں ہم

فشارِ خون

فشارِ خون میں سستی کبھی یہ دردِ سر!
جدائیوں کے ہیں آثار اور کچھ بھی نہیں

Sunday, April 29, 2012

تجھ سے پہلے میں زمانے کا ہوا ہی کب تھا

کائینات اپنی فقط تیرے ہی ہونے سے ہے
تجھ سے پہلے میں زمانے کا ہوا ہی کب تھا

کتنے بے بس ہیں ترے ہجر میں جینے والے

کتنے بے بس ہیں ترے ہجر میں جینے والے
آہ بھر لیتے ہیں دم سادھ کے سوجاتے ہیں

آج تو چاند بھی میں توڑ کے لے آیا ہوں

آج کی شب تو مرے ساتھ گزارو ہمدم
آج تو چاند بھی میں توڑ کے لے آیا ہوں
تیرے ہستے ہوئے چہرے پہ ہو سب کچھ قرباں
سو ترےواسطے سب کچھ ہی اٹھا لایا ہوں

مری نمود تری شاخ پر ہی ممکن ہے

مری نمود تری شاخ پر ہی ممکن ہے
مگر خزاں کی ہوا مجھ کو توڑنا چاہے
زمانہ بانٹ گیا مجھ کو لاکھ حصوں میں
یہ عشق تیرا مجھے پھر سے جوڑنا چاہے

جنگ دنیا سے جیت لی تم نے

جنگ دنیا سے جیت لی تم نے
اب تو چھوڑو جہان کی باتیں
آئو چھپ جائو میرے سینے میں!

زیست کا حاصل

 جو مری زیست کا حاصل ہے وہی ایک شخص
میری تعمیر میں خود نیست ہواجاتاہے

وہ ہے تعمیر کرتا جاتا ہے

مجھ کو تسخیر کرتا جاتا ہے
اپنی جاگیر کرتا جاتا ہے

میں تھا ٹوٹی لڑی مگر وہ شخص
مجھ کو زنجیر کرتا جاتا ہے

وہ مقدر سے ہارتا ہی نہیں
روز تدبیر کرتا جاتا ہے

لوگ مسمار کرتے رہتے ہیں
وہ ہے تعمیر کرتا جاتا ہے

میں اسے خواب دیتا رہتا ہوں
اور وہ تعبیر کرتا جاتا ہے

جنت

چمن کے پھول ہو یا آسماں کے تارے ہوں
لغت کے لفظ ہوں یا زیست کے نظارے ہوں
کوئی بھی شے تری چاہت کا استعارہ نہیں
سنا نہ دیکھا نہ سوچا تھا ہم نے ایسا کہیں
اسی لیے تجھے "جنت" کا نام دیتے ہیں

مجھے سمیٹ کے یکتا بنا دیا تو نے

بکھرتی راکھ تھا شعلہ بنا دیا تو نے
مجھے سمیٹ کے یکتا بنا دیا تو نے

میں گر گیا تھا مقدر کی جنگ لڑتے ہوئے
پکڑ کے ہاتھ مجھے پھر اٹھا دیا تونے

مرا وجود کہ مٹی میں مل کے مٹی تھا
چھوا جو مجھ کو تو سونا بنا دیا تو نے

یہ تیرا قرب مری جان لے نہ جائے کہیں
کہ میرے جسم کو بت سا بنا دیا تو نے

یہ تیری باتوں کی لوری میں موت جیسا سکوں
مجھے خمار کا رسیا بنا دیا تو

نگاہِ ناز میں کوئی مسیحا رہتا ہے
کہ مردہ جسم کوزندہ بنا دیا تو نے

Wednesday, April 25, 2012

یہ تم آئے ہو کہ میں دیکھ رہا ہوں سپنا

گھاس کا فرش ہے ، ہم ساتھ ہیں ،چلتے جائیں
گدگداتی ہوئی پر کیف ہوا کے جھونکے
پاس سے گزریں تو سرگوشی میں ہستے جائیں
جیسے ان کو بھی پتہ ہو کہ مرا پیار ہو تم
رات خاموش ہے اتنی کی تری پلکیں بھی
شور کرتی ہوئی گرتی ہیں تری آنکھوں پر
ہونٹ کھلتے ہیں کہ کلیاں سی چٹکتی ہیں کہیںں
دل کی دھڑکن بھی مجھے صاف سنائی دے ہے
چاند بھی دور سے چھپ چھپ کے ہمیں دیکھتا ہے
جیسے بچہ ہو شرارت کرے شرمائے بھی
آسماں تھال ستاروں کا لیے جشن میں ہے
میں بڑی دیر سے چپ چاپ یہی سوچتا ہوں
یہ تم آئے ہو کہ میں دیکھ رہا ہوں سپنا

Tuesday, April 24, 2012

میں ہوں خاموش مجھ سے کچھ نہ کہو
مجھ کو رہنے دو کیف کے اندر
آج آہا ہوں یار سے مل کر

تیرے پہلو میں جنتیں ساری

تیرے پہلو میں جنتیں ساری
تجھ پہ مر کر بڑے سکون میں ہوں
تمہارے پیار سے بڑھ کر کوئی مٹھا س نہیں
مجھے طلب ہے تمہاری کوئی بھی پیاس نہیں

تم آنکھ ہی سے پلا دو تو سیر ہو جائوں
کہ اس جہاں کی شرابیں مجھے تو راس نہیں

تم اپنی انگلی ڈبو ددینا چائے کے اندر
جو خاص اس میں ہے چینی میں وہ مٹھا س نہیں

تو میرے دشتِ محبت کا آخری ہے شجر
سو تیرے بعد زمانے سے کوئی آس نہیں

سیاہ رنگ بھی تجھ ہر دھنک سا سجتا ہے
کہ تیرے حسن سے بہتر کوئی لباس نہیں

ترے بغیر بھی زندہ ہیں معجزہ دیکھو

کبھی تو آ کے جدائی کا حادثہ دیکھو
ترے بغیر بھی زندہ ہیں معجزہ دیکھو
ہوس کی تھاپ پہ جسموں کا رقص جھوٹا ہے
دلوں کے بیچ کراہت کو چیختا دیکھو
اپنی آغوش میں رکھ لو گا چھپا کر تجھ کو
پیار کا خواب اگر پھر سے ڈرانے آیا

Friday, April 20, 2012

نہ میںخدا نہ پیمبر نہ بادشاہ تھا کوئی
سو تھک گیا محبت کی جنگ لڑتے ہوئے

بساطِ ذات سے بڑھ کر ترا خیال کیا
کہ خود ہی ڈوب چلا تجھ کو پار کرتے ہوئے

مرے وجود کے مالک ترے علاوہ بھی ہیں
وگرنہ عذر تو کوئی نہیں تھا مرتے ہوئے

وہ ہو رہا ہے جدا مجھ سے کتنا پاگل ہے
جواور الجھے مجھ سے کنارہ کرتے ہوئے
تم جسے علم کہ رہے ہو میاں
چند ہندسے حساب کے ہیں فقط
علم کاریگری نہیں ہے کوئی
ساری کاوش ہے رزق کی خاطر
یعنی زندہ ہیں موت کے ڈر سے

Thursday, April 19, 2012

میں اپنی کاشت کی کھیتی اجاڑ ایا ہوں

ہزار حیلے سہی جی لگے نہ جیون میں
میں وہ زمین جو پیاسی رہی ہے ساون میں
میں اپنی کاشت کی کھیتی اجاڑ ایا ہوں
نہ میرے ہاتھ میں کچھ ہے نہ میرے دامن میں
نظر اٹھائوں جدھر راکھ ہی نظر آئے
یہ کس نے اگ لگا دی مرے نشیمن میں
گلاب بھی ہے وہی اور وپی کلی بھی ہے
بس ایک آنکھیں ہی میری نہیں ہیں گلشن میں
یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں ہی جانا تھا
ستارے دھونڈ رہا تھا میں دستِ رہزن میں

خفگی

ایک لمحے کی بھی خفگی نہیں دیکھی جاتی
تیری ناراضگی سے جان چلی جائے گی

اتنی جلدی تجھے ناراض نہ ہونے دوں گا

اتنی جلدی تجھے ناراض نہ ہونے دوں گا
یوں خفا ہونے سے پہلے مجھے قائل تو کر

تم کو شکوہ ہی سہی مجھ سے مگر جانِ حیات ب

تم کو شکوہ ہی سہی مجھ سے مگر جانِ حیات
بات تو کر لے کہ شاید یہ ترا وہم ہی ہو

ایک لمحے نے اسے رات میں یوں دفن کیا

نادمِ حرص پے ٹھکرایا ہوا رہتا ہے
اپنی اولاد سے شرمایا ہوا رہتا ہے
ایک لمحے نے اسے رات میں یوں دفن کیا
دن نکلتا ہے تو گھبرایا ہوا رہتا ہے

ایک بس قحط ہے چاہت کا مکینوں کے بیچ

زندگی سہمی ہوئی بیٹھی دفینوں کے بیچ
ڈوبتا جائے کوئی شخص سفینوں کے بیچ

گھر میں دولت بھی ہے آسائشِ دنیا بھی ہے
ایک بس قحط ہے چاہت کا مکینوں کے بیچ

لڑجھگڑ کر ہی چلا آتا ہوں گھر سے ہر روز
آگ ہروقت سلگتی رہے سینوں کے بیچ

کتنے کمزور ارادے دلِ بے کس کے ہیں
کہ بہک جاتا پی زاہد بھی حسینوں کے بیچ

ہم جسے سمجھے تھے طاقت کا حوالہ وہ شخص
روگ نے چاٹ لیا کچھ ہی مہینوں کے بیچ

Wednesday, April 18, 2012

ایک بیوی ہے مرے گھر میں جہنم کی طرح

مسئلے ملتے ہیں چوکھٹ پہ قدم رکھتے ہی
ایک بیوی ہے مرے گھر میں جہنم کی طرح
مار کھاتے ہوئے معصوم پکاریں مجھ کو
میں کبھی ایک کو دیکھوں تو کبھی دوجے کو
کھانا اپنے لیے بازار سے لے آتا ہوں
اور کونے میں کہیں بیٹھ کے کھا جاتا ہوں
رات کٹ جاتی ہے فیڈر ہی بناتے میری
----------
صبح دم دفتری اوقات میں جا کر دفتر
سر کھپاتا ہوں مشینوں کے مسائل سے پھر
لوگ کہتے ہیں کہ گھر والا بنا ہوں جب سے
میں کسی دوست سے ملتا ہی نہیں موڈ میں ہوں
کون جانے کہ مری عمر کا چلتا پہیہ
کسی دلدل میں بھٹک آیا ہے کھا کر چکر
میں نے بھی جنتِ عرضی کا سجا کر سپنا
گھر بسایا تھا بہت سوچ کے شادی کی تھی

مجھ میں آجائو کبھی سانس کی ڈوری کی طرح

مجھ میں آجائو کبھی سانس کی ڈوری کی طرح
اور بندھ جائو مری جاں سے ہمیشہ کے لیے

Monday, April 16, 2012

ایک لمحے کی لغزش

سفید ریش، نمازی،وہ عزتوں کا امیں
جو اپنے آپ کو عصمت کا پاسباں سمجھے
کل ایک لمحے کی لغزش سے داغ داغ ہوا

اظہارِ تشکر

نہ پارسائی کا دعوی نہ افتخار کوئی
عطائِ ربّی ہے جو عزتوں کا مالک ہے
میں ہاتھ جوڑ کے کرتا ہوں شکر مالک کا

شرمسار

یہ چند رشتے کمائی تمام عمر کی ہیں
میں شرمسار ہوں ان سے کدھر کو جائوں اب

Sunday, April 15, 2012

میں کیسے مان لوں اس کو نسیب کی سختی

میں کیسے مان لوں اس کو نصیب کی سختی
مرے عزیز ہی کرتے ہیں فیصلہ میرا
خدا کے نام پہ رسمیں سماج والوں کی
بہت الجھ ساگیا دوست مسئلہ میرا
یہ اونٹ چلتے نہیں خوف سے بدکتے ہیں
کہ جیسے بھول گیا سمت قافلہ میرا

رات کے پچھلے پہر آکے جگا دیتی ہیں

رات کے پچھلے پہر آکے جگا دیتی ہیں
تیری یادیں بھی تہجد کی اذاں ہوں جیسے

تو جا رہا ہے مگر اتنا دھیان میں رکھ

تو جا رہا ہے مگر اتنا دھیان میں رکھ
کہ تیرے ساتھ ہی دنیا مری سفر میں
 تو میرے عشق کی بندش سے ماورا ہی سہی
مگر مرا تو سبھی کچھ تری نظر میں ہے

تیری خودغرضی گوارا ہے مگر دھیان میں رکھ

تیری خودغرضی گوارا ہے مگر دھیان میں رکھ
آخرانسان ہوں تھک جائوں گا میں بھی اک دن

زندگی قبر کی طرح محبوس

زندگی قبر کی طرح محبوس!
تو ہے جنت کے نرم جھونکے سا

نور لگتا ہوں مگر آگ بھری ہے اندر

نور لگتا ہوں مگر آگ بھری ہے اندر
مجھ سے ملتے ہوئے دامن کو بچا کر رکھنا

زندگی سے تو بگڑ بیٹھے جوانی سے ہی

زندگی سے تو بگڑ بیٹھے جوانی سے ہی
عمر مجرم کی طرح ہم کو گھسیٹے جائے

ہم تری آنکھ کا منشور اٹھا لائے ہیں

یو ای ٹی ایل ایس گرہ

ہم تری آنکھ کا منشور اٹھا لائے ہیں
زندگی دیکھیے کیا رنگ دکھاتی ہے ہمیں" = مصرع طرح

عشق جب سے پڑا ہے رسموں میں

عشق جب سے پڑا ہے رسموں میں
دل بڑا غمزدہ سا رہتا ہے

ایک تاوان محبت کا

ایک تاوان محبت کا ابھی باقی ہے
اور تو سارے گناہوں کی سزا کاٹ چکے

نامعتبر

اب اس سے بڑھ کے بھی نامعتبر کوئی ہوگا؟
تو ایک سایہ ہے بادل کاریت کے اوپر
تو کوئی سایہ ہے بادل کاریت کے اوپر

تو میری سوچ سے بڑھ کر مرے مزاج کا ہے

تو میری سوچ سے بڑھ کر مرے مزاج کا ہے
بس ایک فرق مقدر کے زائیچے میں ملا

چاند

سو گیا چاند صبح ہوتے ہی
رات نے خوب جگایا اس کو
رات بھر چلتا رہا بچ بچ کر
ایک بدلی نے چھپایا اس کو

Saturday, April 14, 2012

میں بھاگ بھاگ کے ملتا ہوں ساتھ لوگوں کے

میں بھاگ بھاگ کے ملتا ہوں ساتھ لوگوں کے
مگر یہ لوگ بتائے بغیر مڑتے ہیں
ابھی تو راہ نہیں ملتی منزلیں کیسی
میں تیز تیز چلوں گا سفر شروع تو ہو

عشق کے جال میں صیاد بھی آخر

عشق کے جال میں صیاد بھی آیا آخر
میں تو پاگل تھا اسے خود سے بھی بڑھ کر پایا

نہ قسمتیں ہیں کشادہ نہ میرا دامن ہی

تمہارے پیار کی حسرت رہے گی حسرت ہی
نہ قسمتیں ہیں کشادہ نہ میرا دامن ہی!!

مجھ پر ترا فراق مکمل نہ ہو سکا

بادِ صبا نے تیری مہک لا کے مجھ کو دی
سورج اٹھا کے لایا ہے چہرے کی دھوپ کو
راتوں میں تیری زلف کے سائے پڑے ہوئے
صبحیں چرا کے لائی ہیں تیرے ہی روپ کو
باتوں میں تیرے لفظ ہی لپٹے رہے سدا
آنکھوں میں تیرے خواب ہیں خوابوں میں تو ہی تو
مجھ پر ترا فراق مکمل نہ ہو سکا

تو کوئی جسم نہیں

تو کوئی جسم نہیں شخصیت ہے میرے لیے
گزرتی عمر ترا روپ چھین سکتی نہیں

میں تیرا دل ہوں

میں تیرا دل ہوں دھڑکتا ہوں تیرے سینے میں
تو مجھ کو ڈھونڈنے نکلا ہے دشت میں کیوں کر

ایسے سنسان ہوا شہر ترے جانے سے

ایسے سنسان ہوا شہر ترے جانے سے
جیسے عنبر سے کوئی چاند ستارے لےلے

میں سکھا دوں گا تجھے ہجر میں جینے کا گر

میں سکھا دوں گا تجھے ہجر میں جینے کا گر
اب کی بار آئو گے تو یاد دلانا مجھ کو

تم تو ساری ہی زندگانی تھے

تم تو ساری ہی زندگانی تھے
تیرے جانے کے بعد جانا ہے

یہ شاعری کی فضا ہے

یہ شاعری کی فضا ہے کہ کوئی سرخوشی
میں مست رہتا ہوں دن رات اپنی سوچوں میں

جیب میں سکے نہیں دل میں ہیں ارمان بہت

ایسے للچا کے تجھے دیکھوں کہ جیسے عید کے روز
ایسے للچا(حسرت سے) کے تجھے دیکھوں کہ جیسے روزِ عید
کسی مفلس کا کوئی بچہ ہو بازاروں میں
جیب میں سکے نہیں دل میں ہیں ارمان بہت

گزرتے وقت کا کوئی بھی اعتبار نہیں

گزرتے وقت کا کوئی بھی اعتبار نہیں
یہ چند لمحے محبت کے جیب میں رکھ لے

Monday, April 9, 2012

آنکھ کھلتے ہی تری یاد چلی آتی ہے

نیند میں خواب میں رہتا ہے ترا ہی چہرہ
آنکھ کھلتے ہی تری یاد چلی آتی ہے

کبھی سوچا ہی نہیں مانگنا کیا ہے رب سے
ہاتھ اٹھتے ہی تری یاد چلی آتی ہے

مرے نصیب کی اوقات جانتے ہوتم

ہیں دل کو خواب کی جھوٹی تسلیاں ورنہ
مرے نصیب کی اوقات جانتے ہوتم!
نہ چاند جھیل کے اندر نہ جھیل آنکھوں میں
کہ شاعروں کے خیالات جانتے ہوتم
میں اپنے آپ میں اک کائینات ہوتا تھا
بچے ہیں اب تو خرابات جانتے ہو تم

عشق میں اور ہوس میں کوئی تفریق نہیں

عشق میں اور ہوس میں کوئی تفریق نہیں
ایک ہی شخص کے دو نام ہیں بچ کو رہیو
محفلِ یاراں میں تفسیر دھڑکتے دل کی
اور تنہائی میں تشریحِ تمنائے دل

میں اپنے کردہ گناہوں کے احتساب میں ہوں

میں اپنے کردہ گناہوں کے احتساب میں ہوں
ترے وجود کی جنت مرا نصیب نہیں

یہ ممکنات کی دنیا یہ معجزات کا دور
مگر یہ تیری محبت میرا نصیب نہیں

مجھے ہوا کے مخالف محاذ رکھنا ہے
مجھے ہوا کے مخالف اڑان بھرنی ہے
یہ بادبانوں کی راحت  میرا نصیب نہیں

اگر میں چاہوں تو آرام سے جی سکتا ہوں
مگر یوں جینے کی عادت  میرا نصیب نہیں

تو مجھ کو اپنے مقدر کا مسئلہ نہ بنا

تو مجھ کو اپنے مقدر کا مسئلہ نہ بنا
میں تیرے حصے میں آیا ہوں اتفاقا ہی
گریز پا ہی سہی چند پل ملے تو ہیں
یہ چند پل بھی میں لایا ہوں اتفاقا ہی

مرے وجود پہ قابض ہیں دعویدار کئی

مرے وجود پہ قابض ہیں دعویدار کئی
بس ایک دل ہے جو تیرے لیے دھڑکتا ہے

یہ فیصلہ ہے سنایا سماج والوں نے

یہ فیصلہ ہے سنایا سماج والوں نے
کہ عزت اور محبت سے ایک ہی کو چن!

سانسیں خرید لایا ہوں

میں خود کو بیچ کے سانسیں خرید لایا ہوں
کہ جان میری مگر زندگی کسی کی ہے

توصرف عشق نہیں میرا بانکپن بھی ہے

توصرف عشق نہیں میرا بانکپن بھی ہے
میں لڑکھڑاتا رہوں گا ترے ملن کے بغیر

بارشیں درد سے منسوب رہیں گی کب تک؟

کتنے برسوں سے مری آنکھیں تھیں صحرا صحرا
اور پلکوں پہ فقط ریت جمی رہتی تھی
ذات ایسی تھی کہ جیسے کوئی چٹیل میداں
-----------------
آج اک ہمدمِ دیرینہ سے ملنے آیا
اس کی آنکھوں میں تھے ساون کے وہ گہرے بادل
جو گلے ملتے ہی گھن گرج سے برسے ہم پر
ایسی بوچھاڑ کے یک دم ہوئے دونوں جل تھل
-----------------
اس کی بیوی نے کسی چاند کو جنما تھا مگر
چاند بے جان تھا مٹی کے کھلونے کی طرح
بارشیں درد سے منسوب رہیں گی کب تک؟

/ گھن گرج - غیر موزوں ہے
بے دردی بھی ٹھیک ہے

Saturday, April 7, 2012

تھام لوں ایسے کہ ہاتھوں میں پگھل جائے وہ

تھام لوں ایسے کہ ہاتھوں میں پگھل جائے وہ
اور دنیا کے مناظر سے نکل جائے وہ‬

نہ کوئی رسم نہ بندش ہو زمانے کی پھر
   کہ مرے جسم کے لوہو میں ہی ڈھل جائے وہ‬

اس کو پی لوں میں کسی آب مبارک کی طرح
سو مری ذات کو جنت میں بدل جائے وہ

اس سے بڑھ کر بھی گلستاں کا حوالہ ہوگا
جب کبھی بات کرے بھول سا کھل جائے وہ


اپنی ساننسوں میں اسے ایسے اتاروں اک دن
کہ مرے سینہ بے تاب میں گل جائے وہ
کہ میری سانس کی گرمی میں ہی گل جائے وہ
کہ میری سینے کی گرمی میں ہی گل جائے وہ

آسمانوں کی طرف ایسے اچھالوں اس کو
اس زمانے کے حوادث سے نکل جائے وہ

Thursday, April 5, 2012

خواب کی جھیل میں اک چاند رہا کرتا تھا

 خواب کی جھیل میں اک چاند رہا کرتا تھا
اوک میں بھر کے جو لائے تو فقط ریت ملی

بازو پھیلا کے اسے روکنا چاہوں گا مگر

بازو پھیلا کے اسے روکنا چاہوں گا مگر
وہ مرے بیچ سے گزرے گا ہوائوں کی طرح

سامنے بیٹھا ہے کچھ دیر میں اٹھ جائے گا

سامنے بیٹھا ہے کچھ دیر میں اٹھ جائے گا
یار بھی وقت ہے روکے سے کہاں رکتا ہے

Monday, April 2, 2012

نظروں کی طرح لوگ نظارے کی طرح ہم




پھٹ جائیں گے کچھ پل میں غبارے کی طرح ہم
آئے ہیں ترے حق میں خسارے کی طرح ہم

رو رو کے بلائے گا وہ اک پھول کنول کا
بہتے ہوئے بہہ جائیں گے دھارے کی طرح ہم

جینا ہے کوئی ہنر تو ہم کو بھی سکھا دو
ٹوٹے ہیں مقدر کے ستارے کی طرح ہم

مجمع سا لگایا ہے تماشائے وفا نے
نظروں کی طرح لوگ نظارے کی طرح ہم

چلتے ہیں ترے شانوں پہ رکھے ہوئے بازو
کہنے کو تو ہیں ساتھ سہارے کی طرح ہم

پتھر کے مجسم میں لہو ڈھونڈ رہے تھے
مسمار ہوئے ریت کے گارے کی طرح ہم

میرے غم خانے سے خوشیوں کی تلاشی لے لے

وقت ہاتھوں سے گرے جائے ہیے پانی کی طرح
ابھی کچھ دن میں مجھے چھوڑ کے چل دے گا وہ

چند خوابوں نے مری آنکھ پہ دستک دی ہے
لوٹ جائیں گے دلِ زار کو جب دیکھیں گے

میں نئے خواب بھلا کیسے سجا سکتا ہوں
پچھلے خوابوں کے ہیں لاشے ابھی بے گووکفن

میرے غم خانے سے خوشیوں کی تلاشی لے لے
ایک بھی لمحہ مسرت کا نہ مل پائے گا

تو نے دیکھا ہے چمکتے ہوئے سورج کو بس
تجھ کو معلوم نہیں نور کی تخلیق کا دکھ

کتنا ناداں ہے مراچاہنے والا ریحان
جو مری ذات سے امید لگا بیٹھا ہے

یہ پہرے دار سی دنیا

یہ پہرے دار سی دنیا جو ہم پہ قابض ہے
ہمارے دل کے خزانوں کو دیکھ سکتی نہیں

یادیں

تمہاری یادیں اثاثہ ہیں زندگانی کا
میں ان کے ساتھ زمانے گزار سکتا ہوں