Friday, June 24, 2011

خواب کے مکینوں کا

خواب کے مکینوں کا
ہم سے بے زمینوں کا
نظریہ عقیدہ کا
اپنی کیا دلیلیں ہیں
ریت کی فصیلیں ہیں
ہم تو زرد پتوں سے
خواہشوں کے جھونکوں پر
رقص کرتے رہتے ہیں
جس طرف بھی لے جائے
موج جذبہ دل کی
بے لگام چلتے ہیں
عقل بھیگی بلی سی
بعد میں بلاوجہ
اپنا بھرم رکھنے کو
بحث کرتی رہتی ہے

غرور ٹوٹا ہے عاشقی کا غمِ زمانہ کا اثر دیکھو

غرور ٹوٹا ہے عاشقی کا غمِ زمانہ کا اثر دیکھو
جو سورما تھے وہ زیرِ پا ہیں گزرتے سالوں کا جبر  دیکھو

پوچھے کوئی تو کیا کہیں کیسی تھی زندگی

 پوچھے کوئی تو کیا کہیں کیسی تھی زندگی
دن رات اک مدار میں چلتی تھی زندگی

یہ کیا کہ صرف پیٹ کو بھرتے گزر گئی
ہم نے تو کوئی اور ہی سوچی تھی زندگی

اک حسنِ یار تھا کہ جچا چند روز تک
ورنہ تو بے سواد تھی پھیکی تھی زندگی

تقدیر پہ وفا پہ محبت پہ عشق پہ
تھا جن کو ناز ان کی ہی  بگڑی تھی زندگی

خوابوں کی سرزمیں پہ بھٹکتی رہی حیات
سایوں کا ہاتھ تھام کے چلتی تھی زندگی