Monday, August 24, 2015

واہگہ باڑدر تے

پانی نہر دا وگدا بن ویزے
پرا دکھن وی چلدا بن ویزے
پنچھی چگدا پھردا بن ویزے
 کتا بلا وی لنگدا بن ویزے

بس کوڑھ ہے بندیاں دے دلاں اندر
بندا لنگ نئیں سکدا بن ویزے

Saturday, August 22, 2015

اک نسل مر گئی ہے اسی انتطار میں


بارڈر کھلے گا جائیں گے، سرحد کے پار ہم
اپنے پرانے گاوں کی مٹی کو چومیں گے
مٹی کہ جس میں دفن بزرگوں کی ہڈیاں
مٹی کہ جس سے پھوٹا مرا لہجہ اور زباں
بارڈر کھلا نہ مٹ سکیں صدیوں کی دوریاں
سب خواب چھلنی ہو گئے، آہن کی تار میں
بارڈر کھلے گا جائیں گے، سرحد کے پار ہم
اک نسل مر گئی ہے اسی انتطار میں

Friday, August 21, 2015

بچا ہی کچھ نہیں اس جسم و جاں کے گاوں میں

سفید روشنی پھونکی، ملا گھٹاوں میں
فلک سے ٹوٹ گیا چاند،  آیا پاوں میں

 زمیں نے پکڑا نہ آکاش نے بڑھایا ہاتھ
دوانہ وار بھٹکتا گیا خلاوں میں

نہ کوئی جانے نہ بوجھے، نہ حال تک پوچھے
بے چہرہ ہو کے جیے گا وہ سب سزاوں میں

 بس اک ضمیر کی آوازوہ بھی ہلکی سی
بچا ہی کچھ نہیں اس جسم و جاں کے گاوں میں

یہ کیسے وار کیا میں نے اپنے دشمن پر
کہ میرا سر ہی گرا کٹ کے اُس کے پاوں میں


  میں اپنے اپ تلک کس کے آسرے آتا
مرا خدا بھی تو گم ہو گیا خداوں میں

----------------------------------------------


گرے گی جا کے کہیں تو پتنگ ڈھیلی ہے
سو ڈور کھینچ لے، مت چھوڑ یوں ہواوں میں





Wednesday, August 19, 2015

یہ مرد

روح کے نغمہ ِ شیریں سے رہی بہلاتی
سالہا سال یہ منتر کیا اس نے مجھے پر
سن لیا ہو گا کہیں، مرد کی منزل کیا ہے
اس دفعہ جسم نچھاور کیا اس نے مجھ پر

وہ نہیں جانتی کتنے ہیں کمینے یہ مرد
آ کے منزل پہ بدل لیتے ہیں رستے یہ مرد

Monday, August 17, 2015

جو اختلاف ہے سوچوں کا پیدا کردہ ہے

تمام لوگ مقدس ہیں آدمیت میں
جو اختلاف ہے سوچوں کا پیدا کردہ ہے
جو بانٹے نفرتیں، اس سے گریز کرتے رہو
بس ایک نکتہ بزرگوں سے میں نے سمجھا ہے


तमाम लोग मुक़द्दस हैं एक जैसे हैं
जो इख़तिलाफ़ है सोचों का पैदा-कर्दा है
जो बाँटे नफ़रतें, इस से गुरेज़ करते रहो
बस एक नुक्ता बुज़ुर्गों से मैंने समझा है




Saturday, August 15, 2015

دو قومی نظریہ


 !جب اجاڑے پڑے تھے
وہ بتا رہی اور رو رہی تھی
کبھی روتے روتے بتانے لگتی
کبھی بتاتے بتاتے رونے لگتی
"
میرے دادا کا نام بوٹا تھا
اس کے سامنے جب بھی
"کوئی کسی "گُڈو"
نام کی لڑکی کا ذکر کرتا تو وہ دھاڑیں مار کر روتا
کہہ رہی تھی
!جب اجاڑے پڑے تھے
میرے داد کے گیارہ بچے تھے
کل ملا کے کتنے ہوئے؟؟
تیرہ ہوئے نا!
تو وہ تیرہ تھے
بس ایک میرا ابا اور داد
سرحد کے پار آپائے
جب دھاوا بولا گیا تھا ہمارے گاوں پر
ابا اور داد باہر تھے
وہ گھر آئے تو سب کی لاشیں بکھری پڑی تھیں
 گھنٹوں وہ لاشیں گنتے رہے
میرے چھوٹے چاچے کی
"سر کٹی لاش "پاتھیوں
کی گہوڑی سے ٹیک لگاَئےہوئے تھی
تازہ کٹی گردن سے اب تک خون کا فوارہ چھوٹ رہا تھا
 (اس کا سر شاید وہ ساتھ لے گئے تھے)
سارہ گوبر سرخ ہو چکا تھا
کوئی کھرلی میں،
کوئی چھت پہ،
کوئی دروازے پہ کوئی نالی میں
وہ دس لاشیں تھیں!
گھر کا کونہ کونہ چھان مارا
 لیکن میری پوا
(پھوپھی)
گڈو کی لاش نہیں تھی
مایوں بیٹھی
پوا کی بارات
بینڈ باجوں والوں  کی بجائے
نیزوں، اور بھالوں والے لائے  تھے
اجاڑوں کے دو سال بعد
داد تو چل بسا
بارہ سال بعد
کسی نے سرحد پار ہماری پوا کی خبر تھی
وہ زندہ تھی
اور پانچ بچوں کی ماں تھی
گاوں کے نمبردار نے
پریا پنچایت اور پولیس کے ساتھ
سرحد پار چھاپہ مار
اور پوا کو ڈھونڈ نکالا
وہی پوا
جسے اجاڑوں میں
افراد نے آغوا برائے عصمت دری کیا
اسے اب حکومت
اغوا برائے غیرت کرنے جا رہی تھی
وہ چیخی چلائی،
روئی، پیٹی
پلہ اڈ آد رب کو پکارتی رہی
نہ آسمان سے کوئ معجزہ اترا
نہ زمیں سے کسی ولی نے کرامت دکھائِی
پانچوں بچے سرحد پار چھوڑ،
جس میں ایک شیر خواد بھی
اسے سرحد پار کھینچ لایا گیا
اور اس کا ویاہ
 پھر سے اسی سے ہوا
اجاڑوں سے پہلے
جس کی وہ منگ تھی

 وہ کہہ رہی تھی
!!!!!ہائے یہ اجاڑے
اس کرماں جلی عورت نے
پہلے کئی سال اپنے میکے کو روتے روتے
گزار دیے
اسے آہنی زنجیر
اور تالوں، کنڈیوں سے قید کیا گیا
اولاد کی
زنجیر پاوں پڑی
تو دوسری زنجیریں کھول دی گئیں
اور اب چھڑوانے والے اسے
اولاد کی زنجیروں سے بھی چھڑوا کر لے گئے

وہ بتا رہی تھی
کہ ادھر ا کر
کہ پوا راتوں کو اٹھ اٹھ کر
بھاگتی تھی
اسے پاگل پن کے دورے پڑتے
اور گاوں والے تف تف کرتے
اور ایک پاگل پن کا دورہ ایسا پڑا
"کہ وہ دوبارہ ہوش میں نہ آسکی


میں نے لمبی سی آہ بھری اور کہا
آپ کے خاندان نے جتنی قیمت دی ہے
آپ سے زیادہ کون جانتا ہو گا دو قومی نظریہ کو ؟؟
تو اس  نے حیرت سے پوچھا
!!! یہ دو قومی نظریہ کیا ہوتا ہے









Tuesday, August 11, 2015

کوئی تو ہو جو محبت کی بات کرتا ہو

فصیلیں توڑتا، چاہت کی بات کرتا ہو
دلوں کو جوڑتا، الفت کی بات کرتا ہو
ہر اک خبر میں ہیں دنگے فساد اور جنگیں
کوئی تو ہو جو محبت کی بات کرتا ہو


اپنے لوگوں میں اجنبی ہوں اور÷
اجنبی لوگوں میں پرایا ہو
میں کہ جنگل کو کوئی تھوہر تھا
خواہ مخواہ میں گملے میں لگا یا ہوں

Saturday, August 8, 2015

گیت

ایہہ فصلاں لہو نال سینجیاں
کنہاں بیجیاں کنہاں گھر جانیاں
ایہہ چڑیاں بنیریوں اڑیاں
مڑ ویہڑے نئیں آنیاں
ہائے اوئے میریا ڈاہڈیا ربّا
کنہاں جمیاں کنہاں لے جانیاں

اوہ ---- اوہ دھیاں
اوہ اے دھیاں دھیانیاں نمانیاں

میکے دی لجن نو پالدے پالدے
ویراں دی پگ نوں سانبدے سانبدے
اپنا تن تے من وارنیاں


اوہ ---- اوہ دھیاں
اوہ اے دھیاں دھیانیاں نمانیاں

Monday, August 3, 2015

یہ جو سرحد ہے

اک ندی خون کی ہے
یہ جو سرحد ہے
کتنے بے نام سے تیراک تھے جو کودے تو بلبلہ تک بھی نظر نہ آیا
اور جب قافلے چلے تھے ندی کے پار جانے کو
توسب برہنہ سر تھے
 ہم نے دیکھا تھا
شملوں ، پگڑیوں اور دستاروں کو پیروں تلے
سب برہنہ سر تھے
 ہم نے دیکھا تھا
چادروں کو, چنریوں کو، برقعوں کو
کیکروں میں، کھیتوں میں، گندے نالوں میں بازاروں میں،
 ہاری ہوٗی سپاہ کے پھٹے ہوٗے پرچموں کی طرح پاٗمال
ہم نے دیکھا تھا
شیر خوار شورمچاتے بچوں کو جھاڑیوں، بھوجھوں اور کما دوں میں پھینکے ہوٗے
(نادان نہیں جانتے تھے کہ رات گٗئے اور چوری چھپے کی ہجرت میں رو رو کے دودھ نہین مانگتے، انہیں پھینکنا ہی بہتر تھا)
ہم نے دیکھا تھا بزرگوں بیماروں , معذوروں کوسفر سے تھک ہار کے، راستوں میں بےآ سرا لیٹے ہوٗے
جنہیں ان کے عزیز نفسا نفسی کے عالم میں ، چھوڑ بھاگ گٗے تھے
(وہی نفسا نفسی جن کی بابت علما بتاتے ہیں
حشر کا دیہاڑا ہوگا
نہ ماں بیٹے کی، نہ بیٹا باپ کا، نہ بھاٗی بھاٗی کو پہچانتا ہوگا)

بہت سے کٹ مرے تھے رستوں میں،
جو بچ نکلے وہ بھی
خالی کھوکھلے تن تھے
جو دفن تو اُس پار ہوئے
لیکن زندہ اِس پار رہے

ہم کو معلوم ہے،
اجاڑے کی تفصیل
بھٹوارے کا دکھ
ہجرت کا کرب
اور
!!!!نفرت زدہ آزادی کے معانی
اک ندی خون کی ہے
یہ جو سرحد ہے

نظر رکی بھی رہے تو نظارہ چلتا رہے

ہر ایک رت کے نئے پھول ہیں نئی خوشبو
نظر رکی بھی رہے تو نظارہ چلتا رہے
کمال وقت ہے لمحے میں پھیرتا ہے برش
پرانے نقش مٹاتا نئے بناتا رہے

بارش و بادل و مہتاب و مہر سا میں بھی
ایک بے کار سے معمول میں مصروف بہت ہوں