Tuesday, January 28, 2014

دماغ کم ہو تو!!

یہ بات کھیلتے بچوں سے میں نے سیکھی ہے
دماغ کم ہو تو چوٹیں زیادہ آتی ہیں -
ابھی ابھی یہ خبر ریڈیو پہ آئی ہے-
"ملیشیا کے مسلمان پھر سے جھگڑے ہیں - 
کہیں پہ آگ لگی اور کہیں پہ خون بہا
خدا سبھی کا سہی نام اپنے اپنے ہوں
کلیسا والوں نے گرجے پہ کیوں لکھا اللہ"
یہ کیسی خلق خدا ہے، خدا کے نام پہ ہی
خدا کے بندوں کو شعلوں میں جھونک دیتی ہے
یہ بات کھیلتے بچوں سے میں نے سیکھی ہے
دماغ کم ہو تو چوٹیں زیادہ آتی ہیں

Sunday, January 26, 2014

حویلی دل کی

ایک وہ دور تھا میلہ سا لگا رہتا تھا
ایک یہ دور ہے ویراں ہے حویلی دل کی

تم سمجھتے تھے بہت خاص ہو تم دنیا میں
اس سمجھنے نے بہت دھوکے دیے ہیں تم کو!!

نہ شروعات کا معلوم نہ انجام پتہ
گھومتے وقت کے مرکز میں گرائے گئے ہم

یہ کائنات ذرا دیر رک سکے تو جانیں
مشاہدے کے تسلسل کو وقت کہتے ہیں

Thursday, January 23, 2014

شاعری

شاعری

 سست رو سانس چلے نبض بھی خوابیدہ ہو
اور بے کاری کہ بیٹھے ہیں تو بس بیٹھے رہیں
ایسے عالم میں کسی علت و حجت کے بغیر
صفر کوشش سے ترے ذہن کی بالائی پر
جو نتر آئے اچانک سے وہی شاعری ہے

Tuesday, January 21, 2014

وہ ہاسٹل کے شب و روز جن میں زندگی تھی

ہماری مرضی سے چلتا تھا وقت کا پہیہ
گھمائیں سیدھا کہ الٹا ہماری مرضی تھی
کبھی کبھی تو اسے ہفتوں روک بھی رکھتے
  !!وہ ہاسٹل کے شب و روز  جن میں زندگی تھی

ہمارے ماپ کا

بہت سے کپڑوں کو پہنا اتارا اور پہنا
کسی بھی کپڑے میں پورا نہ آسکا یہ بدن
نتیجتا ہمیں یونہی گزارا کرنا پڑا
جو زیبِ تن ہے اسے انتخاب مت سمجھو
ستر چھپانے کی مجبوریاں تھیں کیا کرتے
!!ہمارے ماپ کا کوئی ہمیں ملا ہی نہیں

Sunday, January 19, 2014

جو جو پڑھا وہ لوگوں کو تقسیم کر گیا

کوئی تو ہو گھڑی کو جو الٹا گھما سکے
دو چار صدیاں پیچھے پلٹ کر ہے دیکھنا
ہے دیکھنا کہ کس نے لکھا تھا نصابِ ہند
جو جو پڑھا وہ لوگوں کو تقسیم کر گیا
شہروں سے دور اب بھی محبت ہے لوگوں میں
شہروں سے دور اب بھی شرحِ خواندگی ہے کم

Saturday, January 18, 2014

مزدور

مزدور

کر رہا ہے معاونت رب کی
اس کی مخلوق پالتا ہے جو
بیوی بچوں کے رزق کی خاطر
جان جوکھوں میں ڈالتا  ہے جو

Thursday, January 16, 2014

کوئی مصرع دو کہ اس سوچ کا تن ڈھانپ سکوں

مفلسی آن پڑی قحط کا موسم چھایا
کھوٹی کوڑی بھی نہیں ذہن تجوری میں اب
جتنے الفاظ تھے اظہار میں سب خرچ ہوئے
بے لباس سوچ ہے اک مجھ میں کئی ہفتوں سے
 مجھ میں اک سوچ بھٹکتی ہے کئی ہفتوں سے
کوئی مصرع دو کہ اس سوچ کا تن ڈھانپ سکوں

سوچ کا قرض چکاتے ہیں سو لکھ دیتے ہیں

مذہب پہ حرف آنے نہیں دیتے میرے لوگ
نازک معاملہ ہے ذرا احتیاط سے

یہ کوئی پیشہ نہیں ہے کہ کمائی کھائیں
سوچ کا قرض چکاتے ہیں سو لکھ دیتے ہیں

تہوار

قمقمے پھول اگر بتیاں جشن اور پکوان
ایک سے لگتے ہیں تہوار سبھی قوموں کے
فرق اتنا ہے کہ تاریخ ہے اپنی اپنی

رقص کرتے ہوئے تہوار میں سوچا میں نے
روح مرجاتی ہے اور نظریہ مر جاتا ہے

جو بھی چاہے وہ دل سے ہو جائے

عادتا ترچھا دیکھتا ہوں میں
تیری جانب جھکائو تھوڑی ہے
جو بھی چاہے وہ دل سے ہو جائے
رہ گزر ہے پڑاو تھوڑی ہے

Monday, January 13, 2014

تیری شادی نے تجھ کو چھیل دیا

پیاز کی طرح تجھ پہ پرتیں تھیں
بھائی بہنوں کی اور دوستوں کی
تیری شادی نے تجھ کو چھیل دیا
تو کہ اب رہ گیا ہے تھوڑا سا
!!!مونڈھ دیں دیسی مرغ کو جیسے

عورت کے لیے - یہ بہت ہے تم ایک عورت ہو

پر کشش اور خوبصورت ہو
یعنی تم رب کی خاص رحمت ہو
آنکھ کا رزق تم سے وابستہ
آنکھ کی جستجو کی اجرت ہو
روح کا ہلکا پن ہو تازگی ہو
جسم کی صحت ہو حرارت ہو
حسن بے پرہن تھا ازلوں سے
حسن کا پیرہن ہو زینت ہو
عشق کی نسل تم سے چلتی ہے
عشق کی جان ہو ضرورت ہو
نام اور نسب کوئی کیا پوچھے
یہ بہت ہے تم ایک عورت ہو

ان پڑھ بھائی

ان پڑھ بھائی

ہوتے ہوتے وہ ہو گیا تنہا
جیسے لنگڑا مویشی ریوڑ کا
رشتوں کے بے امان جنگل میں

Thursday, January 9, 2014

وہ جو یوں ہیں کہ جیسے ہیں ہی نہیں

دیکھ سکتے ہیں سن بھی سکتے ہیں 
بولتے ہیں مگر وہ ہکلا کر
جن کی اپنی کوئی زباں ہی نہیں
نیم گونگے غلام قوم کے لوگ
وہ جو یوں ہیں کہ جیسے ہیں ہی نہیں

ان کتابوں سے علم ملتا نہیں


اسی اسکول کے ذرا اندر
کاغذوں میں لپیٹ کر استاد

بیچتے ہیں تعصب و نفرت

اسی اسکول کے ذرا باہر
اسی اسکول کی کتابوں کے
کاغذوں میں لپیٹ کر افغانی
!!!بیچتے جائیں گرما گرم چنے

چل رہا کاروبار ماشااللہ
!!!رزق دیتا رہے خدا سب کو
ان کتابوں سے علم ملتا نہیں

گلزار کے نام
بڑھتے جاتے ہیں چاہنے والے
وہ اکیلا کدھر کدھر ہو لے
!!!!اس لیے تم جواب ہی سمجھو


سن تو سکتے ہیں بول سکتے نہیں
جن کی اپنی کوئی زباں ہی نہیں
غلام قوم 

ٹرین چھوٹتی ہے اور پھر نہیں آتی

کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے عین موقع پر
ٹرین چھوٹتی ہے اور پھر نہیں آتی

Wednesday, January 8, 2014

زندگی کو الٹ پلٹ کے نہ دیکھ


دردو غم کی شکایتیں مت کر

!!!!زندگی ہے لگان لیتی ہے

ساری تصویر ہو گئی دھندلی
میں نے جب غور سے ذرا دیکھا
زندگی کو الٹ پلٹ کے نہ دیکھ



یہ جو بیٹھا ہے اونچے مسند پر
پست قامت کڑوڑوں لوگوں نے
اس کا مسند اٹھایا ہے سر پر


Monday, January 6, 2014

سورج بھی ہانپتا ہے ستارے بھی تھک گئے

دھرتی کی کھال ادھڑنے لگی گھوم گھوم کے
سورج بھی ہانپتا ہے ستارے بھی تھک گئے
منہ زور گھوڑا وقت کا سرپٹ ہے موج میں
کچھ دیر کائینات کو اس سے اتاریئے

پرانے ساتھ کی تدفین تو کیے جاو

نئے سفر پہ چلے ہم سفر مبارک ہو
پرانے ساتھ کی تدفین تو کیے جاو

Friday, January 3, 2014

یہ جو دنیا ہے گول چکر ہے


بھاگنے دوڑنے سے کیا ہو گا
انتہا ابتدا سے ملتی ہے

یہ جو دنیا ہے گول چکر ہے

کہ مختصر ہیں بہت اس زمیں کے دن اور رات

میں کوئی کام تسلی سے کر نہیں پاتا
کہ مختصر ہیں بہت اس زمیں کے دن اور رات

جنم سے پہلے ہی مر جاتا ہے خیال مرا
کہ عین وقت پہ الفاظ ہی نہیں ملتے!!!