Tuesday, August 31, 2010

مجھے سمیٹو کسی روز پیار میں ایسے


زمیں پہ بیٹھ کے اپنی قمیص کا پلو 
اٹھا کے خاک سے رکھتے ہو گود میں جیسے
مجھے سمیٹو کسی روز پیار میں ایسے



لیکن اس زمانے نے

روشنی محبت کی
آنکھ کے دریچوں میں
آفتاب جیسی ہے
جس طرف بھی کھلتے ہیں
صبح ہونے لگتی ہے
قد کا بانکپن دیکھو
جب بھی اٹھنے لگتا ہوں
آسماں کو چھوتا ہوں
بازووں کے حلقوں میں
کہکشائیں چھپتی ہیں
سوچنے کی عادت ہے
سوچتے ہی گزری ہے
بادلوں کے ٹکڑوں پر
تیرے خواب لکھتا ہوں
بے حساب لکھتا ہوں
لوٹ کو ستاروں کو
شب کی کالی چادر پر
روشنی کے دھاگوں سا
تیرا نام لکھتا ہوں
صبح شام لکھتا ہوں
لیکن اس زمانے نے
پائٔوں میرے جکڑے ہیں
ضبط کی زمینوں میں

تم نے کیسا دیکھا ہے، زاویے کے اوپر ہے

زندگی کے ہیرے کی ، سو ہزار کنیاں ہیں
تم نے کیسا دیکھا ہے، زاویے کے اوپر ہے

Friday, August 27, 2010

کیا کریں سرابوں کا

میری تیری قسمت میں
لفظ ہی محبت تھے
لفظ ہی محبت ہیں
میری تیری چاہت میں
خواب ہی حقیقت تھے
خواب ہی حقیقت ہیں
کیا کریں سرابوں کا
کیا کہیں فسانے ہیں
کیوں مجھے سمجھتے ہو
چاند اپنے آنگن کا
ہم خلا نوردوں کا
گھومنا مقدر تھا
گھومنا مقدر ہے
ہم نے چلتے جانا ہے
اپنےاپنے رستوں پر
کوئی میرا محور ہے
کوئی تیرا محور ہے

Tuesday, August 24, 2010

اس وحشی کو زنجیر ڈلے

ماتھے پر جسم کے دام لکھے
کیوں قریہ قریہ پھرتے ہو
ہاتھوں میں فن کی کتاب لیے
تم کس کو  ڈھونڈتے رہتے ہو
یہ دنیا چور بازاروں کی
 یہ دنیا حرص کےماروں کی
یاں ذرا ذرا سی باتوں پر
 سرتن سے جدا ہو جاتے ہیں
یاں کھود کے پچھلی قبروں کو
لاشوں کو پیٹا کرتے ہیں
تم پاگل ہو دیوانے ہو
کیا باتیں بکتے پھرتے ہو
انسان جسے تم کہتے ہو
جنگل سے بھاگ کے آیا ہے
اور شہر شہر دندناتا ہے
یہ خونی ہے ، یہ وحشی ہے
اس وحشی کو زنجیر ڈلے
اس وحشی کو زنجیر ڈلے

Written on Sialkot Incident........................

Sunday, August 22, 2010

گزرے سالوں کو تو آواز لگاتا کیوں ہے

لوٹ کر کیسے بھلا آئے گا جانے والا
یاد بن بن کے ہی رہ جائے گا جانے والا
گزرے سالوں کو تو آواز لگاتا کیوں ہے
اب وہ انداز نہ دوہرائے گا جانے والا

Monday, August 16, 2010

جنہیں زندگی نے اماں نہ دی وہ ترے نشے میں بہک گئے

میرے ساقیا تو گماں نہ کر کہ تری نظر سے بھٹک گئے
جنہیں زندگی نے اماں نہ دی وہ ترے نشے میں بہک گئے

جنہیں قربتوں کا جنون تھا، انہیں ان کی طلب نے ڈبو دیا
جو ریاضتوں میں لگے رہے وہ بنا پیے ہی مہک گئے

یہ جو خواہشوں کی چمک دمک ترے خال و خد پہ سجی ہوئی
یہ تو رسیاں ہیں صلیب کی جنہیں ہم پہن کے لٹک گئے

ہمیں زندگی تو ملی مگر ہمیں زندگی کی سمجھ نہ تھی
کوئی چاند بن کے گہن گیا کئی راکھ رہ کے چمک گئے

وہی بے خبر وہی با خبر ، بھلا خاکیوں کی بساط کیا
انہیں جس طرف سے صدا ملی یہ اسی طرف کو لپک گئے

یہ جو اونچ نیچ کا کھیل ہےیہ تو بس نظر کا فریب ہے
کبھی کھلکھلا کے بکھر گئے، کبھی رو رلا کے چٹک گئے

Thursday, August 12, 2010

کون کب کہاں ڈوبے

زندگی کے ساگر میں
لہریں ہیں مقدر کی
شور ہے ہوائوں کا
اور جوار بھاٹا ہے
چاند کی ادائوں کا
کون کب کہاں ڈوبے
کون جان سکتا ہے
کون جان پائے گا

Sunday, August 8, 2010

ہر کسی سے طریقہ پوچھتا ہوں

کس طرح لوگ جیتے جا رہے ہیں
ہر کسی سے طریقہ پوچھتا ہوں

اپنے حق سے زیادہ مانگتا ہوں

اپنے حق سے زیادہ مانگتا ہوں
کہ میں تیرا سہارا مانگتا ہو ں

خرچ بیٹھا ہوں اپنا حصہ کب سے
اب پرایا اثاثہ مانگتا ہو ں

چاند بے نور ہوتا جا رہا ہے
چاندنی سے لبادہ مانگتا ہوں

تھا رواجوں کا بزدل سا میں باغی
ڈر گیا ہوں ازالہ مانگتا ہوں

پہلے تو قربتوں کی خواہشیں تھیں
اب فقط غائبانہ مانگتا ہو ں

Thursday, August 5, 2010

آنکھ کو راز بتانے کی اجازت نہ ملی

آنکھ کو راز بتانے کی اجازت نہ ملی
راز کو بات میں آنے کی اجازت نہ ملی

دیکھتے دیکھتے بوڑھا ہو گیا ہے وہ شخص
حال دل اس کو سنانے کی اجازت نہ ملی

سامنے میرے وہ ہوتا رہا پتی پتی
راہ سے پھول اٹھانے کی اجازت نہ ملی

اب تو بس گزرے زمانوں کا خیال آتا ہے
جب ہمیں خواب سجانے کی اجازت نہ ملی

وہ تو جھکتا ہی گیا میری طلب میں ریحان
مجھ کو ہی ہوش میں آنے کی اجازت نہ ملی

Monday, August 2, 2010

کسی ٹوٹے شجر کی صورت تھی

کسی ٹوٹے شجر کی صورت تھی
اس کی الفت فقط ضرورت تھی
ہم جسے چاہ سمجھا کرتے تھے
جسم کی ہوس تھی کدورت تھی
جیت کر ہم نے راز پایا ہے
ہار اس سے بھی خوبصورت تھی
دیکھنے میں چٹان  جیسی تھی
بھربھری ریت کی جو مورت تھی
ساری دنیا کا کیا قصور اس میں
ایک سادہ، بھلی سی صورت تھی