Thursday, August 5, 2010

آنکھ کو راز بتانے کی اجازت نہ ملی

آنکھ کو راز بتانے کی اجازت نہ ملی
راز کو بات میں آنے کی اجازت نہ ملی

دیکھتے دیکھتے بوڑھا ہو گیا ہے وہ شخص
حال دل اس کو سنانے کی اجازت نہ ملی

سامنے میرے وہ ہوتا رہا پتی پتی
راہ سے پھول اٹھانے کی اجازت نہ ملی

اب تو بس گزرے زمانوں کا خیال آتا ہے
جب ہمیں خواب سجانے کی اجازت نہ ملی

وہ تو جھکتا ہی گیا میری طلب میں ریحان
مجھ کو ہی ہوش میں آنے کی اجازت نہ ملی

No comments:

Post a Comment