Saturday, November 30, 2013

ہم تو بس آلو لینے بازار گئے تھے

ہم آلو لینے بازار گئے تھے
وہ کہہ رہی تھی کہ علی آلووں والے پراٹھوں کا شوقین ہے
وہ کہہ رہی تھی کہ صبح علی کے لنچ بکس میں آلووں والے پراٹھے رکھنے ہیں
ہم آلو لینے بازار گئے تھے
میں نے آلو خریدے، 
دکان دار کو پیسے دیے
تو وہ بولی آلو مجھے پکڑا دو
میں نے آلو پکڑانے کے لیے ہاتھ بڑھایا
"پکڑو"
میں پھر بولا
"پکڑ بھی لو"

اس نے جواب نہ دیا
جب میں نے پچھے مڑ کر دیکھا تو وہ بائک سے نیچے گری ہوئی تھی 

دور کہیں گولیوں کی آواز آرہی تھے
ڈاکووں کا پولیس مقابلہ تھا شاید
پر ہم تو آلو لینے بازار گئے
میں بوکھلاہٹ میں آلو اور بائک گرا کر اس کی طرف بھاگا
سرخ خون کا دھارا اس کے سر سے پھوٹ رہا تھا اور  گلی کی گندی نالی میں جاکر گر رہا تھا

"میں نے چیخ کر کہا
تم آلو لانے کے لیے مجھے بازار لائی تھی

" تم نے آلو پکڑے کیوں نہیں
وہ خموش تھی 

بھائی صاحب قسم لے لو، ہماری تو کسی سے کوئی دشمنی نہیں
ہم تو بس آلو لینے بازار گئے تھے

علم تہذیب سے عاری تو چنگھاڑتا ہے

علم تہذیب سے عاری تو چنگھاڑتا ہے
بات سچّی ہے کہ انسان بھی اک وحشی ہے

Friday, November 29, 2013

اب تیرا فیصلہ ہے کہ جس راہ تو چلے

عزت بھی دستیاب ہے ذلت بھی عام ہے
اب تیرا فیصلہ ہے کہ جس راہ تو چلے

Thursday, November 28, 2013

دشمنی عورتوں کی

دشمنی عورتوں کی عورتوں سی
جانے کب پیار میں بدل جائے
اس کو سنجیدگی سے مت لیجو
دل میں کچھ ہے زبان پر کچھ ہے

Monday, November 25, 2013

تجھے گنوا کے میں خوش ہوں اور اس قدر خوش ہوں

تجھے گنوا کے میں خوش ہوں اور اس قدر خوش ہوں
کہ دور ہونے کا دھڑکا نہ قربتوں کی ہوس!!

تم ایسے دیس میں انصاف ڈھوندتے ہو جہاں
دیے کی لو پہ ہی الزام تیرگی کا لگے

میں کور چشموں کی بستی میں رہ رہا ہوں جہاں
شعور و عقل کا معیار بیوقوفی ہے



سفر بھی جاری ہے اور مجھ کو بھی سکون نہیں

کچھ اس لیے بھی ہے یہ ہار جیت سے اچھی
سفر بھی جاری ہے اور  مجھ کو بھی سکون نہیں


خدا کے فیصلے دلچسپ بھی ہیں صائب بھی
شکست جیت سے بڑھ کر مواقع دیتی ہے

Friday, November 22, 2013

اور مٹی کے سب خدا توڑے

فیصلہ جن کا لوگ کرتے تھے
ہم نے وہ سب مقابلے چھوڑے

ڈالی لعنت ہر ایک عہدے پر
اور مٹی کے سب خدا توڑے

Thursday, November 21, 2013

کامیابی کا پیش خیمہ ہیں

یہ جو ناکامیاں ہیں پے در پے
کامیابی کا پیش خیمہ ہیں

Wednesday, November 20, 2013

ہم نے خنجر کو آزمایا ہے

کیا عجب ہے جو زخم آیا ہے
ہم نے خنجر کو آزمایا ہے

جن کو ٹھکرایا سارے لوگوں نے
ہم نے ان کو گلے لگایا ہے

وہ جو اپنا خیال رکھ نہ سکیں
اپنا سب کچھ انہیں تھمایا ہے

زندگی سے مذاق ہم نے کیے
زندگی نے ہمیں ستایا ہے

ہم کو منظور موت اس دل کی

لاکھ لعنت ہو ایسے خوابوں پر
جو مری ماں کو سوگوار کریں
 
ہم کو منظور موت اس دل کی
ہم ہوں کافر جو پھر سے پیار کریں

Tuesday, November 19, 2013

یہ محبت ہے جیت جاتی ہے

تم ذرا آزما کے تو دیکھو
یہ محبت ہے جیت جاتی ہے

حسنِ آدم کی انتہا کیا ہے؟
سارے انسان دیکھنا چاہوں

مجھ کو انسانیت سے عشق ہوا
بس یہی ایک مجھ میں اچھا ہے

لاکھ لعنت ہو ایسے خوابوں پر
جو مری ماں کو سوگوار کریں

تجھ کو چاہیں تو روح کی حد تک
وہ ہیں کافر جو حد کو پار کریں

خواہشوں کے غلام لالچی لوگ
ظاہری حسن سے جو پیار کریں

بھولپن میں گناہ عشق ہوا
مولوی جی بتاو کفارہ







Saturday, November 16, 2013

زندگی اس کو سونپ دی ہم نے

وہ جو خود اپنی جاں کے در پہ ہے
زندگی اس کو سونپ دی ہم نے

Tuesday, November 12, 2013

شادی کرنا ہے خود کشی کرنا

بد زباں بیوقوف عورت سے
شادی کرنا ہے خود کشی کرنا

قابلِ زکر چیز دنیا کی

اس قدر دلکش و حسیں چہرے
رب کی رحمت نہیں تو اور کیا ہے

قابلِ زکر چیز دنیا کی
گر محبت نہیں تو اور کیا ہے

Monday, November 11, 2013

عقب سے وقت مری عمر چرا کر لے گیا

میں ابھی زیست سے دوچار تھا کہ اتنے میں
عقب سے وقت مری عمر چرا کر لے گیا

Thursday, November 7, 2013

موت اتنی ہی پر سکوں ہو گی

زندگی جس قدر کٹھن ہوگی
موت اتنی ہی پر سکوں ہو گی

جب تک وہ پاس بیٹھا رہا بولتا گیا

گرہوں کی طرح دل کو مرے کھولتا گیا
جب تک وہ پاس بیٹھا رہا بولتا گیا

پہلی نظر کی بارشیں اور قرب کے نشے
سب کچھ ہمارے کاسے میں وہ گھولتا گیا

عشق کے دنوں میں تو دل خدا کے جیسا تھا

باوفا مقدر سے، بے وفا مقدر سے
کار عشق کا تو ہر سلسلہ مقدر سے

روٹھ کر چلے جانا سوری کہہ کے لوٹ آنا
حسن کی ادائیں ہیں کیا گلہ مقدر سے

عشق کے دنوں میں تو دل خدا کے جیسا تھا
ہائے دل! کہ دل بھی اب جا ملا مقدر سے

ڈھونڈنےچلے ہو تم، ڈھونڈنے سے کیا ہوگا
رزق و حسن کا تو ہے فیصلہ مقدر سے

Wednesday, November 6, 2013

حسن میں درد کی ملاوٹ ہے

کچھ بھی خالص نہیں ہے دنیا میں
حسن میں درد کی ملاوٹ ہے

Friday, November 1, 2013

بس ذرا پیار کی ضرورت ہے

یہ جو سنسار کی ضرورت ہے
فردِ بے کار کی ضرورت ہے

رنگ بکھرے ہوئے ہیں چاروں طرف
صرف فنکار کی ضرورت ہے

لو جی دوکاں سجا لی انہوں نے!!
اب خریدار کی ضرورت ہے

حسن وافر بھی اور مائل بھی
بس ذرا پیار کی ضرورت ہے

ربّا تیری حسین دنیا میں
پیار ہی پیار کی ضرورت ہے

خواہش کے چند کھوٹے سے سکّے ہیں دل کے پاس

 جو عشق تھا وہ کچی جوانی میںچھن گیا
خواہش کے چند کھوٹے سے سکّے ہیں دل کے پاس

راحتیں اس قدر مزہ دیں گی

دکھ اٹھائے ہیں جس قدر ہم نے
راحتیں اس قدر مزہ دیں گی