Saturday, March 31, 2012

یہ کیسا حالِ تمنا یہ کیسا دورِ جنوں

یہ کیسا حالِ تمنا یہ کیسا دورِ جنوں
 وہ خود کو ہار گیا میری خواہشوں سے قبل

Friday, March 30, 2012

سماج

میری محبتوں کا اجی کچھ نہ پوچھیے
میں جس بھی راہ سے گئی آگے سماج تھا

زندگی رقص میں ہے تجھے پانے کے بعد

زندگی رقص میں ہے تجھے پانے کے بعد!

میں محبت ہوں بس محبت ہوں

میں محبت ہوں بس محبت ہوں
مجھ کو اتنا کرید کر نہ دیکھ
تو  بھٹک جائے نہ کہیں مجھ میں

Thursday, March 29, 2012

تو کتنا خاص ہے

ابھی تو باتیں سنیں ہیں ابھی تو کیا جانے
تو کتنا خاص ہے اک بار میرے دل سے پوچھ

گفتگو

آخر اک دن تو لوٹنا ہوگا
ہو گی پتھر سے گفتگو کب تک

سانس لینے میں اب سہولت ہے

تیری یادوں نے بڑھ کے تھام لیا
سانس لینے میں اب سہولت ہے

Wednesday, March 28, 2012

تو شاد باد رہے

تجھے اجڑنے نہ دوں گا، یہ میرا وعدہ ہے
میں تجھ کو کھو کے بھی خوش ہوں، تو شاد باد رہے

میں پچھلے وقتوں کا کوئی شاعر

مری ضرورت کو کون سمجھے
مری طبیعت کو کون جانے
نہ مال و ذر کی ذر ا ہوہس ہے
نہ جسم و جاں کا مطالبہ ہے
نہ مجھ کو شہرت سے کچھ غرض ہے
نہ دل کو چاہت سے واسطہ ہے
میں پچھلے وقتوں کا کوئی شاعر
جو اس زمانے میں آگیا یے
چند اپنے جیسوں کو ڈھونڈتا ہوں
میں پچھلی قدروں کو دھونڈتا ہوں
چراغ ہاتھوں میں لے کے کب سے
خلوص والوں کو ڈھونڈتا ہوں

میں تار تار ہوں مفلس کے پیرہن کی طرح

وہ کتنے ظرف کا مالک ہے سوچتا ہوں میں
جو میرے عیب کو مجھ سے چھپا کے ملتا ہے

میں تار تار ہوں مفلس کے پیرہن کی طرح
وہ خوش لباس مگر سر جھکا کے ملتا ہے

Tuesday, March 27, 2012

تمہارے لفظ جو بامِ زبان سے اتریں

 زار درد سہے دل نے راحتوں سے قبل
کہ ہو کہ آیا ہوں دوزخ سے جنتوں سے قبل

تمہارے لفظ جو بامِ زبان سے اتریں
میں بڑھ کے تھام لوں ان کو سماعتوں سے قبل

یہ کیسا حالِ تمنا یہ کیسا دورِ جنوں
 وہ خود کو ہار گیا میری خواہشوں سے قبل

کوئی بتائے بھلا ایسے بھی کہں ہوتا ہے
کہ جاں نثار کرے کوئی چاہتوں سے قبل

مرے علاوہ بتا کون تجھ کو سمجھے گا
میں بوجھ لیتا ہوں تجھ کو وضاحتوں سے قبل

میں جس کو چاند سمجھتا تھا آسمانوں کا

میں جس کو چاند سمجھتا تھا آسمانوں کا
وہ راستے میں زمیں  پر پڑا ملا ہے مجھے

Monday, March 26, 2012

ہمارے بیچ میں رشتہ

یہ عشق وشق کی باتیں بڑی پرانی ہیں
ہمارے بیچ میں رشتہ کوئی نیا سا ہے

چراغ

میں جس کو ہاتھ پکڑ کر دکھا رہا تھا سفر
وہی چراغ بنا میری رہگزارکا آج

یہ کیسے موڑ پہ آ کر مجھے ملے ہو تم

یہ کیسے موڑ پہ آ کر مجھے ملا ہے تو
کہ میرے پائوں میں بیڑی، تجھے ہے اذنِ خرام

Sunday, March 25, 2012

تو اپنے بارے میں مجھ سے کبھی سوال تو کر

تو اپنے بارے میں مجھ سے کبھی سوال تو کر
میں عمر بھر تیرے بارے جواب لکھتا رہوں

تیری نظر کو لکھوں حرفِ جاں فزا ہے کوئی
ترے کلام کو دل کی کتاب لکھتا رہوں


سمیٹ لے مجھے آنچل میں باندھ کر رکھ لے

گرزرتے وقت کو بوتل میں باندھ کر رکھ لے
تر میری زیست ہی اس پل میں باندھ کر رکھ لے

میں جابجا ہوں کوئی بکھری ریزگاری ہوں
سمیٹ لے مجھے آنچل میں باندھ کر رکھ لے

میں کام کا تو نہیں پھر بھی احتیاطا ہی
اضافی خواب کو کاجل میں باندھ کر رکھ لے

تو میری زیست کا حاصل، تو میری جان کی لو
مجھے سنبھال لے اور دل میں باندھ کر رکھ لے

تو ایک سیپ کہ قسمت سے جو ملی مجھو
سو میری موج کو ساحل میں باندھ کر رکھ لے

میں تجھ میں ایسے ملوں پانی میں چینی جیسے
سو مجھ کو ذات کے منحل میں باندھ کر رکھ لے

Saturday, March 24, 2012

گفتگو تھی کہ نیند کا بستر

نیند میں چاند کی سواری ہے
آنکھ میں خواب کی خماری ہے

کوئی جادو ہے تیری باتوں میں
کیف ہی کیف مجھ پہ طاری ہے

گفتگو تھی کہ نیند کا بستر
عمر بھر کی تھکن اتاری ہے

میں ہوائوں سا ہو گیا ہلکا
بوجھ دل کا نہ سانس بھاری ہے

پیر کانٹوں کی باڑھ کے اوپر
آنکھ میں پھول کی کیاری ہے

ایک پہلو میں طرب کے لمحے
ایک پہلو میں سوگواری ہے

جو بنایا ہے سو نبھایا ہے
زندگی شرطِ استواری ہے

بانٹ کر دیکھ لے اگر چاہے

بانٹ کر دیکھ لے اگر چاہے
میں کہ پہلے سے جابجا ہوں بہت

اس سے پہلے تو اس قدر بھی نہ تھ

اس سے پہلے تو اس قدر بھی نہ تھا
دل کو کچھ حوصلہ دیا تو نے

میں بھی جنوں خیز ہوا تو بھی ہوا پاگل

اس شخص کی باتوں میں مرے ذہن کی ہلچل
اس شخص کی آنکھوں میں مرے درد کا ساحل

کیوں کہتے ہو کہ صحرا میں سدا ریت رہے گی
دیکھا ہے کبھی موج میں آیا ہوا بادل؟

چھپتے ہیں چھپانے سے بھلا درد کے آنسو؟
بھیگا ہے کبھی پلو کبھی پھیلا ہے کاجل

تم لاکھ چھپا لو غمِ   ہستی نہ چھپے گا
چہرہ ہی بتا دیتا ہے کس کرب میں ہے دل

اس دشت محبت سے قبل اچھے بھلے
میں بھی جنوں خیز ہوا تو بھی ہوا پاگل

میں نے جذبوں کا ہاتھ تھاما تھا

لوگ ہستے تھے پہلے پاگل پر
اب وہ ہر روز مجھ پہ ہنستے ہیں 
میں نے پاگل پہ ترس کھایا تھا
موت سے بڑھ کے بے مزہ نکلی
زندگی کی دوا جو لایا تھا
--------------------
روز چلتا ہوں تھوڑی دور مگر
روز واپس ہی لوٹ آتا ہوں
ایک خواہش پکارتی ہے مجھے
ایک خواہش نے قید کر ڈالا
-------------------------
رونے والوں کے اشک دھوئے تھا
درد مندوں کے پاس بیٹھا تھا
زندگی نے تھکا دیا مجھ کو
میں نے جذبوں کا ہاتھ تھاما تھا


مجھ کو جنت کی عادتیں نہ ڈال

مجھ کو جنت کی عادتیں نہ ڈال
میں نے دوذخ کو لوٹنا ہے ابھی

دوائی

زندگی کی دوائی لایا تھا
موت سے بچ گیا مگر رویا

اتفاقا نہیں ملے مجھ کو

تم تو انعام ہو مرے رب کا
اتفاقا نہیں ملے تجھ سے
زیست کا نکتہ عروج ہو تم
زندگی! اب نہیں گلہ تجھ سے

خدا نہیں ہو مگر پھر بھی آرزو تو ہے

خدا نہیں ہو مگر پھر بھی آرزو تو ہے
کہ تیری زندگی خوشیوں کی داستاں کر دوں

تو میرے واسطے اک خواب ہے حقیقت سا
میں اپنی آنکھ میں رکھ لوں؟ کہ جسم و جاں کر دوں؟

اشعار کا موسم

آیا ہے ترے ہجر کے آزار کا موسم
پھر اترا مرے ذہن پہ اشعار کا موسم

تفسیر زندگی

اس ایک بات میں تفسیر زندگی کی تھی
جو اس نے جاتے ہوئے آنکھ سے کہی ہمدم

Thursday, March 22, 2012

رخِ ہوا

رخِ ہوا لیے جاتا ہے دور مجھ سے تمہیں
تمہیں جہاں کے حوالے میں کس طرح کر دوں


نہ تیرے ہاتھ کی شمع، نہ تیری آنکھ کی لو
اندھیری رہ میں اجالے میں کس طرح کر دوں



جسے تلاشتے صدیوں کا راستہ کاٹا
اسے یوں رب کے حوالے میں کس طرح کردوں



وہ میرے ذہن پہ چھایا ہے آسماں کی طرح
یہ کام بھولنے والے میں کس طرح کر دوں

تمہارے واسطے کوئی فلک سے اترے گا

ہمارے جیسے تو پھرتے ہیں اس زمیں پہ بہت
تمہارے واسطے کوئی فلک سے اترے گا

سچ پوچھ مجھے آج بلاغت کا نشہ ہے

بے لوث محبت کہ عقیدت کا نشہ ہے؟
یادوں میں تری آج قیامت کا نشہ ہے

 باتیں ہیں کہ آیات صحیفہِ وفا کی
آنکھوں میں تری عین عبادت کا نشہ ہے

آتا ہے مرے جی میں کہ لکھ کر تجھے رکھ لوں
تجھ میں کسی دلچسپ عبارت کا نشہ ہے

معلوم ہی کیا تجھ کو کہ کیا ہے تو ہمارا
اس زیست کی تو آخری چاہت کا نشہ ہے

خاموش رہوں پھر بھی مری سوچ وہ سمجھے
سچ پوچھ مجھے آج بلاغت کا نشہ ہے

Wednesday, March 21, 2012

ہم ماضی کے ایام ہیں آئیں گے نہ مڑ کر

ہم اجڑے ہوئے لوگوں کی تم فکر نہ کرنا
بھولے سے بھی اب میرا کہیں ذکر نہ کرنا

ہم ماضی کے ایام ہیں آئیں گے نہ مڑ کر
تم خوابِ گریزاں پہ کبھی جبر نہ کرنا

Tuesday, March 20, 2012

تو مکمل ہے


تجھ سے ملنا تو موت ہے میری
تو مکمل ہے اس قدر جاناں

گو مل رہا ہے مزاج اپنا

گو مل رہا ہے مزاج اپنا، مگر ستارے نہ مل سکیں گے
کہ اپنی کشتی ہے بادبانی، ہمیں کنارے نہ مل سکیں گے

میں ریت ہاتھوں میں لے کے بیٹھا نہ جانے کب سے یہ سوچتا ہوں
اٹھے گی جب بھی یہ لال آندھی، مجھے اشارے نہ مل سکیں گے

وہ جلد بازی وہ بے نیازی، مری جوانی کا کچھ نہ پوچھو
میں بانٹ آیا ہوں خود کو ایسے کہ اب سہارے نہ مل سکیں گے

تمہاری آنکھوں میں جب سے دیکھا، میں اپنے ماضی میں آگیا ہوں
بہت سے خوابوں کو پا گیا ہوں مگر وہ سارے نہ مل سکیں گے

تلاش جن کی تھی مدتوں سے، وہ سارے گوہر  ہیں تیرے اندر
مگر میں آیا بھنور کی زد پر، مجھے کنارے نہ مل سکیں گے

گردِ زمانہ

تو آیہ تطہیر کی صورت ہے مقدس
تو گردِ زمانہ سے پریشان نہ ہونا
توایک ہے لاکھوں میں کوئی تجھ سا نہیں ہے
اس درجہ پذیرائی پہ حیران نہ ہونا

Monday, March 19, 2012

دھوپ میں ایسے ملے پانی میں پانی جیسے

اس قدر گوری کلائی نظر آئے کیسے
دھوپ میں ایسے ملے پانی میں پانی جیسے

کھڑکی

بہت گھٹن تھی مرے جسم و جان کے اندر
کہ ایک کھڑکی کھلی تیری یاد کی جانب!

مشکل

جام بھر لیتا ہوں کچھ سوچ کے رکھ دیتا ہوں
پیاس کا زور بھی ہے اور گنہ کا ڈر بھی

تنگ دامنی

تو نے بخشا ہے بہت کچھ میں سمیٹوں کیسے
کر گیا چھید مری جھولی میں جانے والا

Sunday, March 18, 2012

جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے



زمین اور ہفت آسماں چھوڑآئے
کہ بخشے ہوئے سب جہاں چھوڑائے

ارے جسم اور روح کی بات کیا اب
کہ وحشت میں نام و نشاں چھوڑآئے

محبت ہمارا حوالہ رہی ہے
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے

یہ بے جان لاشے بھلا کیا کرو گے
مسافر تو رستے میں جاں چھوڑآئے

جو خوشبو کی خواہش سنبھالے چلے تھے
وہ رنگوں میں دل کا جہاں چھوڑ آئے

لفافہ مروت کا جب ہم نے کھولا
تو ہچکی بھری خاکداں چھوڑ آئے

تہی دست بیٹھے ہو منزل پہ آکر
دل و جاں کی دولت کہاں چھوڑ آئے


وہ جو تندور جلاتی تھی محلے بھر کا

وہ جو تندور جلاتی تھی محلے بھر کا
پھونک ڈالا ہے اسے بھوک نے ایندھن کی طرح

مسئلہ موت نہیں جینے کے انداز کا ہے
لوگ زندہ ہے مگر جسم ہےمدفن کی برح

کچھ حسیں ہوتے ہیں بس دور سے تکنے کے لے

ہیرا کتنا ہی حسیں ہو، ہے تو اک پتھر ہی
منہ میں ڈالو گے تو پچھتائو گے جاناں سن لو
کچھ حسیں ہوتے ہیں بس دور سے تکنے کے لے

محرم

چند افکار لیے پھرتا ہوں گلیوں گلیوں
کوئی محرم ہی نہیں کوئی شناسا ہی نہیں

آئینہ بن کے مرے سامنے آجاتے ہو

تم سے مل کر بھی تمہیں مل نہیں پاتا ہوں میں
آئینہ بن کے مرے سامنے آجاتے ہو

ایک رونق سی لگی رہتی ہے یادوں میں اب
کبھی آہٹ کبھی لہجہ ، کبھی خود آتے ہو

Friday, March 16, 2012

کہ ایک شخص

نہ جانے کون سی نیکی ہے میرے کام آئی
کہ ایک شخص مجھے جنتوں میں لے آیا

Thursday, March 15, 2012

جا مرے دوست تجھے میں نے خدا کو سونپا

کون ایسا ہے کروں تجھ کو حوالے جس کے
جا مرے دوست تجھے میں نے خدا کو سونپا

زندگی ایک تھی تقسیم ہوئی لاکھوں میں
حوصلہ باقی ہے وہ تیری جفا کو سونپا

تفریق

 علی اصغر عباس کے لیے
میں بھی کبھی جوان تھا اور خوبرو بھی تھا
کچھ سال میری عمر سے تفریق کرکے دیکھ

Monday, March 12, 2012

تم دل کو چھو گئے ہو عقیدت کی آڑ میں

عادت سی ہو گئی ہے محبت کی آڑ میں
تم دل کو چھو گئے ہو عقیدت کی آڑ میں

تم کوجو ہو پسند وہی نام دیجیے
اک رشتہ مجھ کو چاہیے الفت کی آڑ میں

میں جانتا ہوں آپ کو پانا محال ہے
خوش فہم دل مگر ہے مروت کی آڑ میں

تم کتنے قیمتی تھے یہ مجھ سے تو پوچھتے
کیوں خود کو بانٹ آئے ہو قسمت کی آڑ میں

اک لطفِ بے مثال تری جستجو میں ہے
اک ربطِ لاجواب ہے فرقت کی  آڑ میں

Saturday, March 10, 2012

رفتہ رفتہ

پہلے پہلے تو وہ پہچان بنا تھا میری
رفتہ رفتہ لے گیا نام و نشاں تک میرا

خلوص

مرا خلوص ہی قاتل مری حیات کا تھا
میں لڑجھگڑ کے سبھی عہد توڑآیا ہوں

Friday, March 9, 2012

میں اپنے آپ سے بھی جھوٹ بولتا ہوں اب

تجھے یہ کیسے بتائوں مری حقیقت کیا
میں اپنے آپ سے بھی جھوٹ بولتا ہوں اب

تم تو ہر رنگ میں لگتے تھے بکھرنے والے

جدید ادبی تنقیدی فورم کے پندرہ روزہ فی البدیہہ طرحی مشاعرہ منعقدہ 9 مارچ 2012 میں کہی گئی  غزل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہائے کیا لوگ تھے اس دل میں اترنے والے
حجلہِ یاد میں دن رات سنورنے والے

آگ سے راکھ ہوئے عشق میں جلنے والے
اب وہ جذبے ہی کہاں جاں سے گزرنے والے

ہائے اب خاک کی ڈھیری میں سمٹ آئے ہو
تم تو ہر رنگ میں لگتے تھے بکھرنے والے

ہم سے کچھ آس نہ رکھو کہ نبھا پائیں گے
ہم تو ہیں کانچ کے برتن وہ بھی گرنے والے

ہم ڈسے ہوئے محبت کے وفا کے سچ کے
اب ہیں اخلاص بھری آنکھ سے ڈرنے والے

پہچان

پہلے پہلے تو وہ پہچان بنا تھا میری
رفتہ رفتہ لے گیا نام و  نشاں تک میرا

میں چند سال بڑا ہوں

میں چند سال بڑا ہوں سو اتنا حق دے مجھے
جہاں جہاں میں گرا تھا وہاں سے روکوں تجھے

کہیں سے آنا ہے ان کا، کہیں کو جانا ہے

محبتوں میں گرا ہوں میں ایک پل کی طرح
کہیں سے آنا ہے ان کا، کہیں کو جانا ہے

پل = brigde

Thursday, March 8, 2012

لوگ

زندگی ظلم کرے کتنا ہی مارے پیٹے
لوگ بچے ہیں کھلونوں سے بہل جاتے ہیں

درد سے جھولی بھرے لفظوں کو منہ میں ڈالے
لوگ بازار میں آجاتے ہیں اشیا کی چرح

چند ملزوم سے رشتے ہیں تعارف کے لیے
ورنہ ہر شخص ہی تنہا ہے ازل سے اب تک

سب تگ و دو ہے فقط پیٹ ہی بھرنے کےلیے
پھر بھی کہتے ہیں کہ دنیا میں بہت کام کیا

Monday, March 5, 2012

متفرق خیا لات- آ کبھی دل میں مرے اور یہ ویرانی دیکھ

تو نے دیکھی ہے مرے چہرے کی رعنائی بہت
آ کبھی دل میں مرے اور یہ ویرانی دیکھ

نہ کوئی پیڑ نہ بادل نہ کوئی محرمِ دل
ایسی تنہائی کہ سایہ بھی لگے اجنبی سا

میں وہ خوش بخت کہ رہتا ہوں سدا یاروں میں
دل وہ بدبخت کے مدت سے ہے تنہا تنہا

تو مری زیست کا حاصل ہے مرے اچھے دوست
لیکن افسوس کہ اب آ کے ملا ہے مجھ کو

میں بہت خوش ہوں ترے ساتھ مرے ہمراہی
ہے یہی خوف کہ اب موڑ نہ آجائے کہیں

اب زمانہ نہیں ہے وحشت کا

اردو انجمن کے لیے طرحی غزل
مصرع طرح = اب زمانہ نہیں ہے وحشت کا

یوں تو امکاں نہیں محبت کا
کوئی کیا کر لے دل کی عادت کا

زخمِ جاں کا علاج مت کیجیو
میں تو رسیا ہوں اس اذیت کا

کاش تو دل میں جھانک کر دیکھے
لفظ کافی نہیں محبت کا

اب تو دھڑکن بھی سوچ کر بولے
اب زمانہ نہیں ہے وحشت کا

دل بھی کھوٹا زبان بھی پھیکی
رابطہ ہے فقط مروت کا

ایک خالی مکان میرا وجود
منتظر ہے تری سکونت کا

کل کی کس کو خبر کہاں ہوں ہم
ہے غنیمت یہ وقت قربت کا

خرید پایا ہوں روٹی کے چند ہی لقمے

میں اپنی زیست کے سب خواب بیچ کر ریحان
خرید پایا ہوں روٹی کے چند ہی لقمے

سبب

تمہارے ساتھ تعلق کا ایک ہی ہے سبب
تمہاری آنکھ میں جو خواب ہیں وہ میرے تھے

Friday, March 2, 2012

تساہل

وہ کئی سال سے ہے ساتھ مگر کچھ ایسے
ایک مدت سے وہ پے ساتھ مگر کچھ ایسے
جیسے الماری میں ہوں پچھلے مہینوں کے رسالے
جیسے الماری میں ہوں پچھلے برس کے اخبار
اک تساہل ہے کہ اب تک ہیں پڑے کمرے میں

Thursday, March 1, 2012

ستم ظریف تھا ساقی

علی اور ادریس بھائی کے لیے

میں اوک لے کے جو آیا کہ چند گھونٹ پیوں
ستم ظریف تھا ساقی، انڈیل دی ہے سبو

بیٹھ جائو ذرا دیر کو تم

سب بھلائو ذرا دیر کو تم
گنگنائو ذرا دیر کو تم

ہم زمانے سے اٹھنے لگے ہیں
بیٹھ جائو ذرا دیر کو تم

پھر بلانے کی ضد نہ کریں گے
آج آئو ذرا دیر کو تم

اپنی دنیا میں رہتے سدا ہو
دل میں آئو ذرا دیر کو تم

آسماں سے ملا ہے یہ رشتہ
گر نبھائو ذرا دیر کو تم

روٹھ کر تم چلے جانا بے شک
پر ستائو ذرا دیر کو تم