Tuesday, March 27, 2012

تمہارے لفظ جو بامِ زبان سے اتریں

 زار درد سہے دل نے راحتوں سے قبل
کہ ہو کہ آیا ہوں دوزخ سے جنتوں سے قبل

تمہارے لفظ جو بامِ زبان سے اتریں
میں بڑھ کے تھام لوں ان کو سماعتوں سے قبل

یہ کیسا حالِ تمنا یہ کیسا دورِ جنوں
 وہ خود کو ہار گیا میری خواہشوں سے قبل

کوئی بتائے بھلا ایسے بھی کہں ہوتا ہے
کہ جاں نثار کرے کوئی چاہتوں سے قبل

مرے علاوہ بتا کون تجھ کو سمجھے گا
میں بوجھ لیتا ہوں تجھ کو وضاحتوں سے قبل

No comments:

Post a Comment