نیند میں چاند کی سواری ہے
آنکھ میں خواب کی خماری ہے
کوئی جادو ہے تیری باتوں میں
کیف ہی کیف مجھ پہ طاری ہے
کوئی جادو ہے تیری باتوں میں
کیف ہی کیف مجھ پہ طاری ہے
گفتگو تھی کہ نیند کا بستر
عمر بھر کی تھکن اتاری ہے
میں ہوائوں سا ہو گیا ہلکا
بوجھ دل کا نہ سانس بھاری ہے
پیر کانٹوں کی باڑھ کے اوپر
آنکھ میں پھول کی کیاری ہے
ایک پہلو میں طرب کے لمحے
ایک پہلو میں سوگواری ہے
آنکھ میں پھول کی کیاری ہے
ایک پہلو میں طرب کے لمحے
ایک پہلو میں سوگواری ہے
جو بنایا ہے سو نبھایا ہے
زندگی شرطِ استواری ہے
زندگی شرطِ استواری ہے
No comments:
Post a Comment