Friday, December 12, 2014

دیکھوں اسے تو سوچوں، رکھ لوں حنوط کر کے

بے مثل چہرہ ایسا دنیا میں پھر نہ ہوگا
دیکھوں اسے تو سوچوں، رکھ لوں حنوط کر کے

Wednesday, December 10, 2014

عشق بس سے نکلتا جاتا ہے

ایسا لگتا ہے جان جائے گی
عشق بس سے نکلتا جاتا ہے

آج دیکھا  ہےاس کو برسوں میں
آج کی شب چلے گی برسوں تک

اتنا بھی وقت میسر نہیں اس عہد میں اب


اتنا بھی وقت میسر نہیں اس عہد میں اب!!!
یاد ہی کرلے کسی شخص کو جی بھرکے کوئی

یہ مہ و سال ترے پاس سے بھی گزرے نہیں

آنکھ کا رعب وہی قتل کا انداز وہی
ہم سے بدلے ہیں بہت آپ ذرا بدلے نہیں
نرم آواز وہی دائرہ سے ہونٹ وہی
یہ مہ و سال ترے پاس سے بھی گزرے نہیں


یہ زمانہ گو ترا نام تلک بھول چکا
ایک شخص آج بھی سمجھے ہے زمانہ تجھ کو

آس پاس اس کے جو رہتے ہیں سبھی اندھے
کیسے ممکن ہے اسے دیکھ کے بھی عشق نہ ہو


کس قدر سستا و ارزاں ہے زمانے کے لیے
ہائے وہ شخص جسے یاد بھی صرفے سے کروں


میری آنکھوں سے کبھی خود کو اگر دیکھ لے وہ
قسم لے لیجیے آئینہ تلک توڑدے وہ
!اتنا نایاب ہے کم یاب ہے وہ حسن کہ بس
 آنکھ  جھپکائیے !!!  کہتا ہے نظر باندھ کے وہ




Thursday, December 4, 2014

زندگی فرض نہ ہوتی تو قضا کر لیتے

مرتی ہوئی زبان کا اک لفظ ناتواں
ہر روز پوچھتا ہے ابھی کتنی سانسیں ہیں؟؟

عشق ہیجان کی شدت سے بھلے مر جائے
حسن ظالم ہے اداوں سے نہ باز آئے گا

ایسے حالات میں تو عمر ہی ضائع ہو گی
زندگی فرض نہ ہوتی تو قضا کر لیتے

Tuesday, November 25, 2014

!!!تجھ پہ آیا بہار کا موسم



ہر شعبہ کاروبار تھا ہر رشتہ لین دین
آخر ہم اپنے آپ میں محدود ہو گئے



ایک دوست کے ہاں بچے کی پیدائش پر

تیری شاخوں پہ پھول آنے لگے
!!!تجھ پہ آیا بہار کا موسم

Thursday, November 13, 2014

یہاں تو درد کبھی مستقل نہیں رہتے

تخت و تاج جھوٹے ہیں
کام کاج جھوٹے ہیں 
زندگی سے وابستہ
جو بھی کچھ ہمارا ہے
عارضی خسارہ ہے
عارضی خسارے کو
منتقل کرنے میں
دیر کتنی لگتی ہے
پھول کے بکھرنے میں
آدمی کے مرنے میں
دیر کتنی لگتی ہے؟؟؟


یہاں تو درد کبھی مستقل نہیں رہتے
عجیب شخص ہو خوشیوں پہ پہرے دیتے ہو

انسانیت کا یہ بھی تو اک المیہ رہا
زندہ کو پوچھنا نہیں مردہ کو پوجنا

Tuesday, November 4, 2014

زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں

ساری باتیں ہیں زندگی کے ساتھ
زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں

Thursday, October 9, 2014

تپے موسم میں عمر چنتے لوگ

تپے موسم میں عمر چنتے لوگ
لمحہ لمحہ اکٹھا کرتے ہیں
کتنے ناداں ہیں کتنے سادہ ہیں
سانس لینے کو زندگی سمجھیں

Wednesday, October 1, 2014

ڈھول کی تھاپ پہ بے ساختہ ہلتے کندھے

ڈھول کی تھاپ پہ بے ساختہ ہلتے کندھے
یہ بتاتے ہیں کہ پنجاب وطن ہے میرا

ہم آپ جیسے تو دھرنوں پہ پھبتیاں ہی کسیں
سلام ان کو کو مقصد پہ زندہ رہتے ہیں


Thursday, September 18, 2014

جن کو فطرت معاف کر دے انہیں

تم بے مثال و واحد و یکتا و طاق ہو
تم سا کوئی زمانے میں ہوگا نہ کہیں ہے

دیکھتے بھرتا گیا مٹی کا وجود
سرو قامت سہی وہ وقت پہ بھاری تو نہ تھا


سیلاب
جن کو فطرت معاف کر دے انہیں
حاکم وقت مار دیتا ہے



Friday, September 12, 2014

یہ حکمران قوم کو منگتا بنائیں گے

پہلے ڈبو دو ماردو پھر بھیک بانٹ دو
یہ حکمران قوم کو منگتا بنائیں گے!!!

Thursday, September 11, 2014

گاوں کا ڈوب جانا تو معمولی بات ہے!!

کیڑے مکوڑے خاک سے نکلے ہیں ، کیا ہوا
سیلاب کا یوں آنا تو معمولی بات ہے!!!
شہروں سے پانی موڑ کے گاوں ڈبوئیے
گاوں کا ڈوب جانا تو معمولی بات ہے!!

Tuesday, September 9, 2014

ہر ایک عشق کا لیکن ہوس سے رشہ ہے

ابھی اچھال ہے مہتاب جھک کے ملتا
یہ خواہشوں کا سمندر اتر بھی سکتا ہے
ہوس میں عشق بھی شامل ہو عین ممکن ہے
ہر ایک عشق کا لیکن ہوس سے رشہ ہے
سب اپنی اپنی بجھاتے ہیں پیاس سب پیاسے
جو بے نیاز ہے وہ کب کسی سے ملتا ہے
ہمارے جیسوں کا لگتا نہیں کہیں بھی جی
دھرم بھی دوزخ و جنت کے سودے کرتا ہے
یہ کیسا میلہ ہے ہر شخص جس میں تنہا ہے
اسی کا درد ہے سردرد جس کو ہوتا ہے

Sunday, September 7, 2014

بیٹے کے لیے

میں ساتھ تمہارے ہوں کناروں کی طرح بس
دریا میں تجھے تیرکے جانا ہے اکیلے

Wednesday, September 3, 2014

Tuesday, September 2, 2014

جوا کھیلیے جوا کھیلیے جوا کھیلیے جوا کھیلیے

یہ جو زندگی ہے یہ اک جوا، یہاں جیت ہار نہ دیکھیے
جوا کھیلیے جوا کھیلیے جوا کھیلیے جوا کھیلیے

میں اینٹ اینٹ سے واقف ہوں پھر بھی اجنبی ہوں
مکین بدلے تو پل میں بدل گیا سب کچھ

پی ٹی آئی کے لیے


اب ایک بند گلی میں ہے کارواں لیکن
جنوں ہو سر میں تو دیواریں بھی ہیں دروازے!!!

بنام چوہدری نثار

بنام چوہدری نثار
جس دیس میں بھیڑوں کی طرح لوگ ذبح ہوں
اس دیس کے حاکم کو "کمینہ" ہی کہیں گے
جس جھنڈے کے سائے تلے انصاف نہیں ہے
اس جھنڈے کو ہم سولی کا پھندہ ہی لکھیں گے
آئین کو پھونکیں گے جلا ڈالیں گے پرچم
ہاں! ایسی ریاست سے بغاوت ہی کریں گے!!!
ریاست = موجودہ حکمرانوں کی  قائم کردہ نام نہاد ریاست، آئین = ایسا آئین جو انصاف نہ دے سکا، پرچم= حکمران جماعت کاجنگلی درندے والا پر چم



Sunday, August 31, 2014

کچھ غلاموں نے سلاسل سے بغاوت کی تھی



شاہراوں پہ ہیں بکھرے ہوئے خوں کے چھینٹے
کچھ غلاموں نے سلاسل سے بغاوت کی تھی
خونِ آدم کا تقدس ہے حرم سے بڑھ کر
پارلیمنٹ حرم سے بھی مقدس ٹھہری؟؟
--------------------
خون کا ایک بھی قطرہ نہیں ضائع ہوگا
ظلم کا راج ہمیشہ نہیں رہتا لوگو
تخت و ایواں خس و خاشاک سے بہہ جاتے ہیں
خون بہتا ہے تو یوں ہی نہیں بہتا لوگو

Saturday, August 30, 2014

سول نا فرمانی


جو اپنے باغباں کو ہی چھاوں نہ دے سکے
جڑ سے اکھاڑ دیجیے ایسے درخت کو !!!!!

Saturday, August 23, 2014

پیٹ خالی ہو تو بڑھ جاتا ہے کھانے کا مول


پیٹ خالی ہو تو ہوتی ہے قدر کھانے کی
ذائقہ بھوک میں ہوتا ہے غذاووں میں نہیں

قدر کے د پر جزم ہے جو شعر کو بے وزن کر رہی ہے - اسے ہندی یا پنجابی تلفظ میں لکھا ہے

پیٹ خالی ہو تو بڑھ جاتا ہے کھانے کا مول
ذائقہ بھوک میں ہوتا ہے غذاووں میں نہیں

عشق اک فسفہ ہے فلسفی جانیں اس کو
عام انسان ہوں میں بھوک کو پہچانتا ہوں

بھوکے کے رنگ کئی بھوک کے بہروپ ہزار



Thursday, August 21, 2014

حصول رزق سے آزاد ہو سکیں تو جییں

ماں کے سوا زمانے میں کچھ کام کا نہیں
سب رشتے کھوکھلے سبھی مطلب پرست ہیں

صبح سے شام تلک پیٹ پالتے ہم لوگ
 حصول رزق سے آزاد ہو سکیں تو جییں


عمران مصلحت میں بھی گھٹنے نہ ٹیکے گا

یہ مک مکا تو اہلِ سیاست کا کھیل ہے
قائد کبھی بھی بیچ کا رستہ نہ ڈھونڈے گا
حق اور سچ پہ ڈٹ کے کھڑا ہے وہ مردِ حر
عمران مصلحت میں بھی گھٹنے نہ ٹیکے گا

Tuesday, August 19, 2014

وہ ایک دور تھا چاہت کا آیا اور گیا

ابال دودھ میں آتا ہے جس طرح ایسے
وہ ایک دور تھا چاہت کا آیا اور گیا
نظر کے پاس ہے جب سے، نہیں رہا دل میں
وہ میرے دل میں تھا جب تک نظر سے دور رہا
جن کی بنیادوں  میں بے جرم نہتوں کا لہو ہے
ان محلات کے شاہوں کو اماں دو گے تم؟؟؟؟

خون کا رنگ بہت گہرا ہے اترے گا نہیں!

Monday, August 18, 2014

عظیم رشتہ ہے ماں کا، بدل نہیں کوئی


ہر اک نگاہ میں لاکھوں دعاوں کی ٹھنڈک
عظیم رشتہ ہے ماں کا، بدل نہیں کوئی
بنجر ہے کوکھ دھرتی کی صدیاں گزر گئیں
اس بد نصیب خطے میں قحط الرجال ہے
ترسے ہوئے ہیں لوگ کسی رہنما کو یوں
جو بھی ہو دستیاب وہی بے مثال ہے!!!!!

------------------------------

Saturday, August 16, 2014

پھر یوں ہوا کہ وقت جو ٹھہرا تھا چل پڑا

پھر یوں ہوا کہ وقت جو ٹھہرا تھا چل پڑا
 نکل آئے تیرے عشق سے دنیا میں آگئے!!

Tuesday, August 12, 2014

اونچا کھینچو گے تو تکلیف زیادہ ہوگی

زندگی ایک محل ہے جو بہر حال اک دن
اپنے معمار پہ گر جائے گا  ملبہ بن کر
اونچا کھینچو گے تو تکلیف زیادہ ہوگی

وقت بے انت سمندر ہے جہاں تک دیکھو
مذہبی پیشوا دیتے ہیں جزیروں کی خبر
سادہ دل ہم سے ہر اک موج کے ہمراہ بہیں


Saturday, August 9, 2014

زندگی ٹھہر جا کچھ دیر ذرا سوچنے دے

زندگی ٹھہر جا کچھ دیر ذرا سوچنے دے
! میں کسی اور طرح سے تجھے جینا چاہوں


Wednesday, August 6, 2014

خدا حافظ اے محبت گزشتہ خدا حافظ

ایک ہزار اٹھانوے محبت نامے تھے اس کے مرے نام
جگہ  کم پڑ گئی تھی گھر میں اور دل میں
بے ترتیبی سے ہاتھ ڈالا
جتنے ہاتھ آئے رکھ لیے
- باقی سارے ہوا برد کر دیے
جو رہ گئے ہیں وہ بھی!!
 کھو جائیں گے دو چار سالوں میں
یاد داشت اچھی نہ ہو تو ماضی کس کام کا؟؟
کل جب اس کی  شکل تک بھول جائگی
تو کاغذ کے ان ٹکڑوں کو کس کے نام کر وں گا
خدا حافظ اے محبت گزشتہ خدا حافظ

Tuesday, August 5, 2014

بولتا جائے خود ہی خود بوڑھا

سارے کردار مر گئے جس کے
کون سنتا ہے اس کہانی کو
بولتا جائے خود ہی خود بوڑھا
------------------------------------
ایک لمحہ لگے بچھڑنے کو
اور پھر ساری زندگی نہ ملے
بھیڑ میں ہاتھ تھامے چلتے ہیں

Sunday, August 3, 2014

صدق نیت کی وفا کی نہیں قیمت کوئی

عمر کی آخری سیڑھی پہ پڑے اونگھتے لوگ
نظر آتے ہیں ادھر پائے ادھر جاتے ہیں
---------------------------------
زندگی شہر میں سستی بھی بکثرت بھی ہے
زندگی شہر میں محسوس نہیں ہوتی مگر

گاوں زادے ہیں محبت کو دھرم مانتے ہیں
----------------------------------

اے مری بدصورت اے میری چاہنے والی

صدق نیت کی وفا کی نہیں قیمت کوئی
حسن بیوپار ہے عشاق نفع ڈھونڈتے ہیں

Monday, July 28, 2014

کچھ ملاقاتیں ذائقہ چھوڑیں

بحث و تکرار چوں چناں نہ کریں
وقت جو بھی عطا کرے لے لیں

بھول جائوں گا ساری باتیں مگر
کچھ ملاقاتیں ذائقہ چھوڑیں

وقت آگے نکل تو جاتا ہے
راستوں کے نشان مٹ نہ سکیں

داد و تحسیں کے شوق میں شاعر
مانگے تانگے کا پیرہن پہنیں

ہم بہر حال مرنے آئے ہیں
جتنا بھی جی لیں جیسے بھی جی لیں


اپنے ماضی کو پیٹتے ہیں جب
رونا آتا ہے مسلمانوں پر
چھوڑ دو صاحب آگے دیکھو کب


زیادہ دور نہ جاو زیادہ مت سوچو
بس ارد گرد کے لوگوں سے پیار کرتے رہو
یہ کانٹ چھانٹ خدائی نہیں زمینی ہے
سب آدمی ہیں یہاں آدمی ہی بن کے رہو


------------------------

گھپ اندھیرا ہے آگے اور پیچھے
صرف پیروں میں روشنی ہے کچھ
کون جانے سفر کہاں کا ہے
-------------------------


کام سارے رہے ادھورے ہی
جی لگا ہی نہیں کسی شے میں
نا مکمل تھا عارضی تھا سب
-----------------
زندگی جتنی ملے جیسی ملے پیتے رہو
سانس بھی جتنی چلے جیسی چلے جیتے رہو
--------------







Thursday, July 24, 2014

پیٹ کی چاکری ہوتی ہے نہ پاگل دل کی


پیٹ کی چاکری ہوتی ہے نہ پاگل دل کی
ہم سے خود داروں کو جینے میں بڑی مشکل ہے

کھلے کھلے سے بظاہر یہ پھول سے چہرے
چھپیائے پھرتے ہیں کتنے ہی داغ سینوں میں


Tuesday, July 22, 2014

فلسطین

علم نے اتنا کیا طور طریقے بدلے
ظلم بدلا ہے نہ ظالم کی طبیعت بدلی

اب بھی کمزور سرِ راہ کھڑا ہے بے بس
بے حسی لوگوں کی فطرت کی مشیت ہے وہی

خوں میں لتھڑے ہوئے اجسام وہ پرزہ پرزہ
نسل انسانی کی اوقات ہے بس اتنی سی

Monday, July 21, 2014

ڈھا کے تعمیر کرو پھر سے یہ دنیا ساری


نفرت و دشمنی مذہب کا فساد اور جھگڑے
خوں خرابہ ہے کہیں اور کہیں بے زاری
اس کی بنیادوں میں بنیادی خرابی ہے کوئی
ڈھا کے تعمیر کرو پھر سے یہ دنیا ساری

ان مذاہب نے تعصب کے سوا کچھ نہ دیا

قسطوں قسطوں میں ہی جی زندگی جتنی جی ہے
نقد کی پونجی نہ تھی سانس ادھاری لی ہے
کارِ بے کار کی تکرار میں دن خرچ ہوئے
اور ہر رات کوئی موت سی نیند آئی ہے
پیٹ کی چاکری اور جبرِ بقا کے آگے 
سر اٹھا یا نہ کبھی کوئی رعایت لی ہے
ہم سے مت لیجیے بیتے ہوئے سالوں کا حساب
ہم نے یہ عمر گزاری نہیں ضائع کیا ہے
ہم وہ خود کار کھلونے ہیں جنہیں مالک نے

ذوق تفریح کی تسکین کو چابی دی ہے

----------------

بدن کی صحت بتاتی ہے آرزو کا سراغ
تو جانتی ہے کہ روحیں تو مردہ ہوتی ہیں 

!!!تیرے شباب کی خیر اور بانکپن کی خیر
-----------------------


عیش وعشرت میں دن گزرتے ہیں
اپنے بچوں کے ساتھ ہوتا ہے
دو بغل میں اور ایک سینے پر
کیف و مست کی نیند سوتا ہوں
---------------------


سب کا پیغام محبت ہے مگر حیرت ہے
ان مذاہب نے تعصب کے سوا کچھ نہ دیا
خود کو محبوب خدا کہتی ہے جو قوم اسے نے
رب کے کس حکم کی تعمیل میں یہ ظلم کیا
عورتوں بوڑھوں کو معذوروں کو مفلوجوں کو
بے گنہ قتل کیا پھول سے معصوموں کو


جس کی بنیادوں میں معصوموں کا ناحق خوں ہو
ایسی دیوار مقدس کہاں رہتی ہے بھلا
شیر خواروں کے لہو سے وہ سنے ہوئے ہاتھ
خود کو جب غازی کہں سوچتا تو ہوگا خدا






Thursday, July 17, 2014

وہ جو بارش تھی روح تک آئی

ساری گرمی نکال دی واللہ
وہ جو بارش تھی روح تک آئی

ہاتھ باندھے ہیں پاوں جکڑے ہیں
روزگاری بھی قید ہے سچ مچ


Saturday, July 12, 2014

کس کے باندھو گے تو بڑھتی ہی رہیں گی گرہیں

جسم کا شور نہیں روح کی موسیقی ہے 
زندگی جینی ہے تو شہر سے ہجرت کیجے

رات ہو چاند ہو خاموشی ہو تنہائی ہو
ایسی آسائشیں پانی ہیں تو گائوں رہیے

صرف احساس ہے احساس پہ تکیہ کیسا
رشتہ بنتا نہیں کوئی بھی ہمیشہ کے لیے

حبس بڑھ جائے تو مسکن سے نکلنا اچھا
ذات تو ذات ہے افکار بھی بے حد رکھیے

کس کے باندھو گے تو بڑھتی ہی رہیں گی گرہیں
رشتوں کی ڈور میں کچھ جھول بھی رکھا کیجے



جڑ سے اکھڑے ہوئے پودے ہیں ہمارا کیا ہے
آب و گِل کوئی بھی ہو ہم نے نمو کرنا ہے
ہم کو معلوم نہیں مطلبِ قوم و ملت
ہانک دے  کوئی جدھر کو بھی ادھر چلنا ہے


  وقت سے تیز بھی بھاگیں گے تو تھک جائیں گے
آخرش عمر گھسیٹے گی پکڑ کر کالر

بوڑھا ہوتے ہوئے دیکھو گے سبھی کو اک دن



jism ka shore nahi rooh ki moseeqi hai
zindagi jeeny hai to shehar se hijrat kije

raat ho chaand ho khamoshi ho tanhai ho
aisi asaishen pani hain to gouwn rahiye

sirf ehsas hai ehsas pay takiya kaisa
rishta bantaa nahi koi bhi hamesha ke liye

habs barh jaye to maskan se niklana acha
zaat to zaat hai afkaar bhi be had rakhiye

kis ke ge to barhti hi rahen gi ghirhein
rishton ki dor mein kuch jhool bhi rakha kije



jarr se hue pouday hain hamara kya hai
aabb o gِl koi bhi ho hum ne numoo karna hai
hum ko maloom nahi مطلبِ qoum o millat
haank day koi jidhar ko bhi idhar chalna hai


waqt se taiz bhi bhagain ge to thak jayen ge
Umar ghsite gi pakar kar caller

boorha hotay hue dekho ge sabhi ko ik din







Wednesday, July 9, 2014

شعر بے اختیار ہوتا ہے

شاعری قافیہ ردیف نہیں
شعر بے اختیار ہوتا ہے
سوجھتا ہے اچھوتا سا مصرع
دفعتا ََ جیسے پیار ہوتا ہے

Monday, July 7, 2014

سعی ِ ناکام

میں جانتا ہوں کہ وہ ایک خالی برتن ہے
اور پھر عین وسط میں اس کے
ایک سوراخ ہے پوشیدہ سا اور گہرا سا
وہ بھرا اور نہ اس نے بھرنا ہے
اس کو خوش کرنے کی سب کوششیں ناکام ہیں جو
تم بھی کرتے رہو اور میں بھی کیے جاتا ہوں


Sunday, July 6, 2014

پانی رک جائے تو دریا نہیں کہتے اس کو

میرے شعروں میں وہ پہلے سا بہاو نہیں اب
اب میں شاعر نہیں بس قافیہ پیما ہوں کوئی

پانی رک جائے تو دریا نہیں کہتے اس کو


نیکی دریا میں ڈال دو اچھا
کوئی احسان جانتا ہی نہیں

ڈوبتے ڈوبتے بچا پھر بھی
نا خدا کو وہ مانتا ہی نہیں







ہمارے گاوں میں اسکول کھول کر کس نے

ہمارے گاوں میں اسکول کھول کر کس نے
ہمیں ہماری ہی نظروں میں نیچا کر ڈالا
ہمیں بتایا "کہ اسکول آنے سے پہلے
نیا لباس نئی بولی پہن کر آنا
تمہارے طور طریقے تمہارے رسم و رواج
پرانے کپڑے ہیں گھر میں اتار کر آنا
تمہیں سکھائیں گے دنیا کی باقی قوموں سے
تمہاری قوم حقیر اور کتنی کم تر ہے
تمہیں بتائیں گے ساری ترقیوں کا راز
 بدیسی وردی بدیسی  زباں میں مضمر ہے
ہمارے گاوں میں اسکول کھول کر کس نے
ہمیں ہماری ہی نظروں میں نیچا کر ڈالا
ہماری سوچوں کو احساس کمتری دے کر
ہماری قوم کو ذہنی غلام کر ڈالا


Friday, July 4, 2014

یہ بات چھوڑیے کہ کتنے بچے ہیں میرے

یہ بات چھوڑیے کہ کتنے بچے ہیں میرے
وہ کہہ رہی تھی مجھے اب بھی پیار ہے تجھ سے

عجب تضاد میں جیتے ہیں چاہنے والے
چہرے کی گرد بتاتی ہے صعوبت رہ کی
چہرے کی گرد ضمانت نہیں منزل کی کبھی




Thursday, July 3, 2014

ہم شرمسار ہوتے رہے اپنے آپ سے

ہم شرمسار ہوتے رہے اپنے آپ سے
نسلیں ہماری غیر سے مرعوب ہو گئیں


Tuesday, July 1, 2014

چاند کے آسمان پر اپنے بھی واجبات ہے

چاند کے آسمان پر اپنے بھی واجبات ہے
خاک نشین کب تلک چاند کے خواب دیکھیں

Monday, June 30, 2014

میں مجاور ہوں فقط آہ و فغاں کرتا ہوں

میں دیکھتا ہوں تو لگتی ہے اگ سینے میں
کہ کتنے نادرو نایاب گہر سے الفاظ
جنہیں بزرگوں نے صدیوں سجایا ہونٹوں پر
!!!کسی کتاب کسی لغت میں کہیں بھی نہیں

وہ سارے نادر و نایاب گہر سے الفاظ
سمے کے دشت میں سینہ بہ سینہ پلتے رہے
امانتوں کی طرح نسل نسل چلتے رہے

مگر یہ دور نیا کیسا آ گیا جس میں
وہ تار سینہ بہ سینہ کا کٹتا جاتا ہے
ہر ایک گاوں کا نقشہ بدلتا جاتا ہے
مری زبان مرا لہجہ مرتا جاتا ہے

!!!میں سوچتا ہوں تو لگتی ہے اگ سینے میں



قریب مرگ ہے بے آسرا وہ لاوارث
مری زبان مری مادری زبان اے دل


مجھ سے مت پوچھیے تہزیب و زباں کے بارے
میں مجاور ہوں فقط آہ و فغاں کرتا ہوں

پوچھیے ان سے جو متولی ہے قاتل بھی ہیں


Saturday, June 28, 2014

بھوک ظالم ہے سبھی زعم بھلا دیتی ہے

پیٹ خالی ہو تو ہر جرم روا لگتا ہے
بھوک ظالم ہے سبھی زعم بھلا دیتی ہے

پارسائی بھی نبھاتے ہیں فقط اہلِ زر
مفلسی جبر ہے بدکار بنا دیتی ہے

!!!!زندگی تیرے تقاضوں کے سلاسل کی خیر
جب تلک قید ہیں ہر سانس سزا دیتی ہے



Friday, June 27, 2014

یہ بھوک پیاس کی مجبوری مار دے گی تجھے

گر اپنی زندگی جینی ہے رزق پیدا کر
یہ بھوک پیاس کی محتاجی مار دے گی تجھے

لالچ کبھی بقا کا کھی خوف موت کا

  تھی روٹی  آگے آگے تو پیچھے لگی تھی بھوک
اس دوڑ میں ہی گزری ہےاپنی تمام عمر

لالچ کبھی بقا کا کھی خوف موت کا
اپنا ہی سوچتے رہے یعنی تمام عمر

Tuesday, June 24, 2014

نام نہاد جمہوریت

صرف عنواں ہے نیا باقی کہانی ہے وہی
اس کی سلطانی وہی تیری غلامی ہے وہی

یہ جو جمہور ہے ریوڑ ہے کوئی بھیڑوں کا
اندھی تقلید وہی خوف کی لاٹھی ہے وہی

بھیڑوں کے روپ میں کچھ بھیڑیے سرگرداں وہی
 ہانکتا مارتا ہے اک گڈریا پاپی ہے وہی

Thursday, June 19, 2014

کالی وردی والوں کے کرتوت بھی کالے ہوتے ہیں

وہ جو ظلم کماتے تھے شاہ کے پالے نکلے ہیں
کالی وردی والوں کے کرتوت بھی کالے نکلے ہیں

مشورہ


بہتر ہے یو نیفارم بدل ڈالیے کہ اب
نفرت کا استعارہ بنی کالی وردیاں

کل شیر دل جوانوں نے تاریخ رقم کی

کل شیر دل جوانوں نے تاریخ رقم کی
اپنی ہی ماوں بہنوں کی عزت اچھال کے
اب جلیانوالا باغ کو رونا اضآفی ہے
اب ہم بھی خٔد کفیل ہیں اپنی مثال دے

Wednesday, June 18, 2014

وقت سے دور کہیں چلتے ہیں آو صاحب

رات ہو چاند ہو خاموشی ہو تنہائی ہو
اس بھری دنیا میں اتنا بھی میسر نہیں اب
---------------------------------------

 گردشِ شام و سحر کی  یہ غلامی کی ہے
وقت سے دور کہیں چلتے ہیں آو صاحب
چاند کو ساتھ لیے چاندنی خاموشی لیے

خواہش و خواب کے ملبوس نے چھیلا تن کو
بھوک اور پیاس کی تکرار نے مارا من کو
ذمہ داری کبھی آداب کبھی خوفِ خدا
آج سب بار الٹ دیتے ہیں آو صاحب
وقت سے دور کہیں چلتے ہیں آو صاحب
چاند کو ساتھ لیے چاندنی خاموشی لیے


مرے لگان پہ پلتے یہ کوتوال اگر


مرے لگان پہ پلتے یہ کوتوال اگر
مجھے ہی بھونکیں تو لعنت ہے حکمرانِ وقت




نمک حرامی کی تعزیر قاضیو بتلاو

کہ میرے گھر کے محافظ ہی پل پڑے مجھ پر

علم کے نام پہ چلتے ہیں بہت سے دھندے

یقین مانیے انسان خود میں کامل تھا
یوں ہی ذلیل ہوا خواہشات کے ہاتھوں

لباس اور زباں بدلوں جب بھی گھر سے چلوں
میں اپنے ملک میں رہتا ہوں اجنبی کی طرح


علم کے نام پہ چلتے ہیں بہت سے دھندے

ایک کڑوی سی دوائی ہے جسے بیچارے
لوگ ان دیکھے جراثیموں سے ڈر کے مارے
بس نگل جاتے ہیں اور پانی چڑھا جاتے ہیں

ایک شیرینیِ الفت ہے کہ جس کے اندر
نفرت و دشمنی در پردہ ملا دی جائے

ایک اندازِ معیشت ہے کہ جس کے اندر
لالچ و خوف کے حربوں سے کمائیں پیسا

!!!علم کے نام پہ چلتے ہیں بہت سے دھندے



کس کو مجرم کہیں یہ جنگ غلاموں کی تھی

وحشیوں کی طرح لڑتے ہیں خدا کے بندے
ہر کسی کا یہی دعوی ہے خدا اس کا ہے
اور خدا صدیوں سے خاموش تماشائی ہے
فیصلہ کون کرے اس کا، خدا کس کا ہے؟

باندھ اور کھینچ کے لائے تھے عقیدے سب کو
!!!کس کو مجرم کہیں یہ جنگ غلاموں کی تھی

Wednesday, June 11, 2014

بس ایک بار چلے تھے خلاف حکمِ دل

بس ایک بار چلے تھے خلاف حکمِ دل
پھر اس کے بعد کبھی زندگی نہ مل پائی

یہ رکھ رکھاو  یہ رسم و رواج قاتل ہیں

جو اپنے آپ پہ بھاری تھا ایسے بے بس کے
سپرد کر دی مرے دل نے زندگی ساری

اب ایسے اندھے جنوں کا علاج کون کرے


میں چاہتا ہوں صحرا میں چلتا جاوں میں
میں چاہتا ہوں صحرا کبھی بھی ختم نہ ہو

جیو اور جنگ گروپ کی "امن کی آشا" کے نام

 اپنے آنگن میں تیرے آنگن کی
میں نے مٹی ملائی اور اس میں
ایک پودا اگایا چاہت کا
روز انچ انچ قد بڑھا جس کا

دیکھو اب اس پہ پھول آنے لگے
!!!مٹی سانجھی تو پھول بھی سانجھے
انہی پھولوں کی خوشبووں میں بسی
!!!امن کی آشا پھیلتی جائے

کون کس قوم کا ہے وہ جانیں
ہم تو انساں سے پیار کرتے ہیں
ان کو بارود پہ بھروسہ ہے
ہم محبت کا وار کرتے ہیں



جن کی نفرت پہ روزی روٹی ہے
وہ محبت بات کیسے کریں!!!

Monday, June 9, 2014

جینا برائے جینا


جینا برائے جینا

کتنی بے معانی ہے میکانی سی وہ عمر کہ جو
صرف روٹی ہی کمانے میں گزر جاتی ہے

وقعتِ خون بھی ایندھن سے زیادہ نہیں ہے
سانس جتنی ہے جلانے میں گزر جاتی ہے


Saturday, June 7, 2014

بھوک اور ظلم کا مذہب نہ وطن ہے کوئی

بھوک اور ظلم پہ ہی آو اکٹھے ہو لیں
بھوک اور ظلم کا مذہب نہ وطن ہے کوئی

گزر جاتی ہے

کتنی بے معنی ہے میکانی سے وہ عمر کہ جو
صرف روٹی ہی کمانے میں جزر جاتی ہے
خون ایندھن کی طرح بہتا ہے شریانوں میں اور
سانس جتنی ہے جلانے میں گزر جاتی ہے

Friday, June 6, 2014

بند کر دیجیے دروازے بدن کے سارے

بند کر دیجیے دروازے بدن کے سارے
اور کچھ دیر ذرا خود سے شناسا ہوئیے

آنکھ اور کان کی آلودگی پھیلاتی ہوئی
باہری دنیا سے کچھ لمحوں کی رخصت لیجے


ڈوبتے ڈوبتے بچ جاتے کوئی اور کبھی
پار ہوتی ہوئی کشتی کو لہر لے جائے
اب نکل آئے محبت کے علاقوں سے مگر
کون جانے کہ کہاں پھر سے سفر لے جائے

Thursday, June 5, 2014

دیکھنے سے جسے عزت پہ حرف آتا تھا


جون کے نام

پیاس کے مارے ہوئے پھرتے تھے دریا دریا

کیسا پیاسا تھا وہ صحرا کی طرف جاتا تھا

اک نظر دیکھ لیا چلتے ہوئے اس کو بھی
دیکھنے سے جسے عزت پہ حرف آتا تھا

منطق
پیاس کے مارے ہوئے پھرتے تھے دریا دریا
کیسا پیاسا تھا وہ صحرا کی طرف جاتا تھا

درد سانجھا ہوتو مل بیٹھ کے ہلکا کیجے


عشق پہ تکیہ نہ کیجے جو بدن پرور ہو
ظاہری حسن تو پتھر پہ دیکھا ہم نے


Thursday, May 29, 2014

دولتِ درد میں تخفیف نہیں ہو سکتی

اک تسلی ہے مرے دل کو ترے ہوتے ہوئے
دولتِ درد میں تخفیف نہیں ہو سکتی

غم بھی کھاتاہوں  اذیت کا بھی رسیا ہوں بہت
یعنی تکلیف کی تکلیف نہیں ہو سکتی

عہد نامہِ محبت ہے ازل سے محفوظ 
دل کے الہام میں تحریف نہیں ہو سکتی


Wednesday, May 28, 2014

خواہش کا بوجھ ڈھوتے ہوئے گر گئے اگر

خواہش کا بوجھ ڈھوتے ہوئے گر گئے اگر
 پستی کی سب سے آخری حد تک گرو  گے پھر

Tuesday, May 27, 2014

لمحے لمحے کا رس نکالا جائے

عمر جتنی بھی ہو بہت ہے اگر
لمحے لمحے کا رس نکالا جائے

Monday, May 26, 2014

جیسے کوئی کتاب کو کھولے

جی میں آتا ہے ایسے کھولوں تجھے
جیسے کوئی کتاب کو کھولے
رکھ کے زانو پہ اور ذرا جھک کر
حرف در حرف پوروں میں گھولے

Saturday, May 24, 2014

خوبصورت ہے آدمی کتنا


خوبصورت ہے آدمی کتنا

اس کو صرف آدمی اگر سمجھو!!
جھوٹے ملبوس فرقوں ذاتوں کے
جھوٹ سارے اتار کر دیکھو!!!

Thursday, May 22, 2014

جیو کے لیے



اکیسویں صدی میں بھی سلطاں وہی رہے
غدّار کہہ کے مار دو جو ناپسند ہو

یہ اور بات کہ تم کو نظر نہیں آئے

یہ اور بات کہ تم کو نظر نہیں آئے
!!!نیاز لے کے کھڑے راستے میں ہم بھی تھے

ہمارے فاصلے دیکھے تو کون مانے گا
کہ ایک ہاتھ کی دوری پہ گاڑی چھوٹی تھی


پھر اس کے بعد کبھی زندگی نہ مل پائی

پھر اس کے بعد کبھی زندگی نہ مل پائی
کہ وصل دائمی ٹھہرا، جدائی ختم ہوئی

ہزار کوششیں کر  کے جلا ہے پروانہ
قبول کر لی محبت جدائی ختم ہوئی 

Tuesday, May 20, 2014

لوگ ہاتھوں میں لے کے پھرتے ہیں

ایک لمحے کی بات ہے پیارے
سانس آتا تھا اب نہیں آتا

لوگ ہاتھوں میں لے کے پھرتے ہیں
اپنے اپنے عقیدوں کے پتھر

Saturday, May 17, 2014

بوڑھا فقیر کھانے میں منہ دے کے مر گیا

عمروں کی بھوک لمحوں میں مٹنا محال تھی
بوڑھا فقیر کھانے میں منہ دے کے مر گیا

اکیسویں صدی میں بھی سلطاں وہی رہا
!!!!غدار کہہ کے مار دو جو بد زبان ہو

Thursday, May 15, 2014

نفرت کا بیج ڈالیے اور بیٹھ جائیے

یہ فصل پھلتی پھولتی رہتی ہے خود بخود
نفرت کا بیج ڈالیے اور بیٹھ جائیے

ہندو کو مسلمان سے کر دجیے الگ
دو قومیت کے نعرے کا تڑکا لگائیے

ہندوکو ذات پات بہت راس آئے گی
مسلم کو سنی شیعہ کے خانوں میں لائیے

مذہب کے بعد اور بھی نکتے ہیں پھوٹ کے
قومی زبان رنگ و نسب آزمائیے

موقع شناسی فرقہ پرستی کے سوچ سے
لوگوں کو کاٹ ڈالیے جنت میں جائیے

Wednesday, May 14, 2014

اہلِ خدا کے نام

اک بار اس سے پوچھ لو وہ کس کے ساتھ ہے
ہے جنگ جس کے نام پہ وہ تو سبھی کا ہے

انسانیت کے مان کی توہین تھی کہ جب
انسانیت کے ماتھے پہ مذہب چھدا گیا
فرقہ پرست چند فقیہائے دین کو
لوگوں کو بانٹنے کا فریضہ دیا گیا


Monday, May 12, 2014

انسانیت کا رشتہ ہی کافی تھا جڑنے کو

کوئی بجا دے ڈھول ہمیں رقص کرنا ہے
ہم بے وقوف قوم ہیں مجموعی طور پر

مقبول چاہے جتنے تھے وہ رہنما نہ تھے
نفرت کا درس دے کے جو تقسیم کر گئے
انسانیت سے بڑھ کے نہیں دیں دھرم کوئی
!!تم کیسے دیندار تھے؟؟ انساں سے ڈر گئے
جوہر برادران نے ہجرت کرائی تھی
گم راہ لوگ رستے میں بے موت مر گئے
اور پھر جناح آگئے دو قومیت لیے
لاکھوں نہتے جان کو نذرانہ کر گئے
دو قومیتت  نے ڈالا تھا  تقسیم کا رواج
بنگالی روٹھ کر اسے سہ قومی کر گئے
ہم فصل کاٹنے کو ہی پیدا ہوئے تھے کیا
نفرت کا بیج ڈال کے اجداد مر گئے

دو  قومیت کے جھگڑے نے الجھا دیا ہمیں
انسانیت کا رشتہ ہی کافی تھا جڑنے کو

Saturday, May 10, 2014

یعنی

درد اور ہجر اور اکیلا پن
یعنی تم جی رہے ہو تفصیلا
راحت اور وصل اور بھری محفل
یعنی وہ جی رہے ہیں بس رسما

Friday, May 9, 2014

نیا زمانہ ہے گوگل پہ سرچ کرتے ہیں

وہ دور اور تھا جس میں بزرگ رہبر تھے
نیا زمانہ ہے گوگل پہ سرچ کرتے ہیں

میرے ہی بچے مجھے اجنبی سے لگتے ہیں

Sunday, May 4, 2014

کچھ راستے منزل پہ کبھی لا نہیں سکتے

کچھ آہیں جلاتی ہیں فقط اپنا ہی سینہ
کچھ آنسو فقط نل کی طرح بہتے ہیں بے جا
کچھ راستے منزل پہ کبھی لا نہیں سکتے
کچھ کوششیں کرتی ہیں فقط وقت ہی ضائع

منٹو تجھے سلام

سرسٹھ برس کے بعد بھی منٹو نہ مر سکا
سرحد پہ آج بھی ہے کھڑا ٹوبہ ٹیک سنگھ

بلوائی اور فسادی طبعی موت مر گئے
انسانیت کا مان رہا ٹوبہ ٹیک سنگھ

زن مرید


کہانی
ایک عورت کے ہاتھ پر اس نے
بیعت کی تھی بڑی عقیدت سے
عمر بھر پھر ذلیل ہوتا رہا
سبق
پیار میں پیروی نہیں کرتے
پیار میں صرف پیار کرتے ہیں
پیار آزادی ہے غلامی نہیں

بچھڑنے والوں کے سارے نشان مٹ جائیں

بس اک شبیہہ سی رہ جاتی ہے کہیں دل پر
بچھڑنے والوں کے سارے نشان مٹ جائیں
ازل سے آج تلک اتنے لوگ دفن ہوئے
کہ خاک چانیں تو ہرذرے میں نفس پائیں

Saturday, April 26, 2014

ہم بھی رہتے تھے کبھی روح کی سرشاری میں

وقت کی پہرے دار سوئی سے
بچ بچا کر نکلنا پڑتا ہے

کتنا مشکل ہے خود سے ملنا بھی


میرے چاروں طرف ہے وقت کھڑا
تجھ تک آنے کا کوئی رستہ نہیں

ہم بھی رہتے تھے کبھی روح کی سرشاری میں
روزی روٹی نے فقط جسم کا کر کے چھوڑا

اصل میں دونوں ہیں خواہش کے گھر کے پالے ہوئے

ہوس کا نام ہے بدنام عشق مومن ہے
اصل میں دونوں ہیں خواہش کے گھر کے پالے ہوئے

ہیں دونوں اصل میں  خواہش کے گھر کے پالے ہوئے

اصل میں ص ساکن ہے

Thursday, April 24, 2014

اب تک نبھا رہا میں رشتہ وہ جھوٹ کا

اک بار خوہشات سے مغلوب نفس نے
چوما تھا اس کو عشق و محبت کے نام پر
اب تک نبھا رہا میں رشتہ وہ جھوٹ کا

Tuesday, April 22, 2014

تم کو اس کی سزا ملے گی ضرور

تم کو اس کی سزا ملے گی ضرور
تم بہت مختلف ہو دنیا سے

Monday, April 21, 2014

دل نہ مانے تو واہگہ چلیے

ایک سی "تانگ" دونوں کے دل میں
ہم اُدھر کے ہیں وہ اِدھر کے ہیں
اس طرح دیکھیں لوگ بارڈر کو
جیسے پنچھی قفس کی دیواریں
حسرت و اشتیاق سے دیکھیں
دل نہ مانے تو واہگہ چلیے

Sunday, April 20, 2014

مہتاب چودھواں ہو کہ شبّاب سولہواں

دل سے اتر نہیں رہا چہرہ وہ پھول سا
پڑنے دے دھوپ عمر کی پھر دیکھنا اسے

مہتاب چودھواں ہو کہ شبّاب سولہواں
بے درد وقت سب کو ہی ماضی میں پھینک دے

غریب باپ ہر آہٹ پہ چونک جاتا ہے

ہوس کے مارے ہوئے اس سماج کے اندر
جوان لڑکی بھی تکلیف دہ خزانہ ہے

غریب باپ ہر آہٹ پہ چونک جاتا ہے

Saturday, April 19, 2014

پھر یوں ہوا

پھر یوں ہوا کہ عشق نے امداد کھینچ لی
پھر یوں ہوا کہ ہم بھی زمانے سے مل گئے

ملازمہ

جہاں پہ کتوں کی خوراک ڈالروں میں ہے
اسی حویلی میں اک کام کرنے والی ہے

جو بارہ آنے فی گھنٹہ پہ زندگی تولے

Friday, April 18, 2014

مجبوریِ معاش نے اغوا کیا ہمیں

مجبوریِ معاش نے اغوا کیا ہمیں
اے حسن!! ہم بھی تیری گلی کے مکین تھے

Thursday, April 17, 2014

زندگی

یہ ایک بند گلی ہے اور اس کے آخر پر
بس اک سرنگ ہے جو موت پہ ہی کھلتی ہے
!!سو بھاگ دوڑ اضافی ہے جتنی بھی کر لو

Sunday, April 13, 2014

بازار

وہی بازار ہیں جس میں کبھی بند آنکھوں سے
ہم ترے نقشِ کفِ پا پہ چلا کرتے تھے
آج آئے ہیں تو گھر کا بھی پتہ یاد نہیں

ملزم

مریض جن کا ہے ان کا ہے باقی لوگوں کو
بس ایک تماشہِ دردو فغاں میسر ہے
 چراغ جلتے ہیں بجھتے ہیں اور جلتے ہیں


----------------------------------------

پھر کوئی  مر گیا افسوس کرو پھر اک بار
بول دو پھر سے وہی سیکھے سکھائے جملے

"بس یہی حکم تھا رب کا، یہی تقدیر میں تھا
حوصلہ رکھو اٹھو اور سنبھالو خود کو
تم بھی رو و گے تو بچوں کو سنبھالے گا کون
"مان لو رب کی یہی مرضی یہی منشا تھی""

سبھی مظلوموں یتیموں کا وہی ملزم ہے!!!؟؟

Wednesday, April 2, 2014

زندگی بن بلایا مہماں ہے

تیرے لائق تو یہ نہیں پھر بھی
جیسے تیسے گزار دے اس کو
زندگی بن بلایا مہماں ہے



بیساکھ

پھر سے بیساکھ ا گیا ان پر

پھر سے سونا اگل رہے ہیں کھیت
آو دارنتیوں کو گرم کریں

جو زمیں دار ہیں بہت خوش ہیں
کیوں کہ بیٹھے بٹھائے ملتا ہے
کاشت کاروں کا خون پی پی کو
ان کے گھر کا چراغ جلتا ہے

خوشہ چینوں کی ٹولیاں بھی تو ہیں
بھیک منگے فقیر اور پنچھی

روز کے روز اپنا پیٹ بھریں


پھر سے بیساکھ ا گیا ان پر
پھر سے سونا اگل رہے ہیں کھیت
آو دارنتیوں کو گرم کریں

Sunday, March 30, 2014

دیکھتے دیکھتے گم ہو جائیں


جس کے گھر میں پرندے رہتے ہیں
اس کی اپنی کوئی نہیں اولاد
-------------

تم نے دیوار کھینچ لی یعنی
خود ہی محصور کر لیا خود کو
جس سے آزاد ہو رہے تھے تم
وہ تو اب بھی تمہارا آقا ہے

------------------------


استعمار نو

تجھے ذہنی غلام کرنے کے بعد
اس نے زنجیر کھول دی تیری

!!!!کون سا جشن کیسی آزادی
--------------------


اتنی بڑی ہیں آنکھیں اس کی
دیکھتے دیکھتے گم ہو جائیں


Thursday, March 27, 2014

آندھی چلی تو پیڑوں نے پتے گرا دیے

آندھی چلی تو پیڑوں نے پتے گرا دیے
رشتوں کو جانچنا ہو تو مشکل میں جانچیے

یہ کسی نوکری سے کم تو نہیں
جس قدر ضابظے ہیں زندگی کے

Wednesday, March 26, 2014

شاعری قافیے کی قید میں ہے


شاعرانہ خیال آوارہ
شاعری قافیے کی قید میں ہے
دیکھ کر بھی یقین نا ممکن
یہ نظر زاویے کی قید میں

ساری باتیں چپ پہ آ کر رکتی ہیں

بہت زیادہ بولنے والے چپ ہوجا
ساری باتیں چپ پہ آ کر رکتی ہیں

Tuesday, March 25, 2014

آج کل

تمہارا حسن بجا ہےپر آج کل اے دوست
مجھے معاشی مسائل نے باندھ رکھا ہے

Sunday, March 23, 2014

دو رخی


میں جسے آسمان سمجھا تھا
وہ ہی زیرِ زمین کا نکلا

پھول کاری کی شوخیوں میں دبا
آہ اک چاک ان سلا نکلا

Tuesday, March 18, 2014

یہ نو گیارہ !!!!

سوار کر کے ہزاروں کڑوڑوں لوگوں کو
وہ کہ رہا ہے کہ ٹکرا دوں گا زمیں سے زمیں
یہ نو گیارہ تو کچھ بھی نہیں مرے لوگو

تمہارے تیز جہازوں سے تیز تر ہے زمیں
پھر اس میں سینکڑوں کیا اربوں لوگ بیٹھے ہیں
بس ایک لمحے میں پھٹ جائے گی دھماکے سے
 بس ایک لمحے میں  ملبے کا ڈھیر ہو گا سب
بس ایک لمحے میں بجھ جائیں گی سبھی جانیں
کہ جیسے جوتا پٹخ کر چراغ گل کر دیں
یہ نو گیارہ تو کچھ بھی نہیں مرے لوگو

میں سوچتا ہوں  تو پڑتی ہیں کانوں میں چیخیں
کڑوڑوں عورتوں بچوں بزرگوں کی چیخیں
!!!!!!جنیوا پیکٹ بھی جن کو امان دیتا ہے
یہ نو گیارہ تو کچھ بھی نہیں مرے لوگو


خواہش

ایک کمرہ کہیں ہو تنہا سا
جس کی کھڑکی فلک پہ کھلتی ہو
چاند جس میں بسر کرے راتیں
دھوپ جس میں اجالے بھرتی ہو
اپسرا کوقاف سے جس میں
روز اک پھول لا کے رکھتی ہو
اور خاموشی دلفریب ایسی
دل کی دھڑکن بھی شور لگتی ہو
ایک کمرہ کہیں ہو تنہا سا
جس کی کھڑکی فلک پہ کھلتی ہو

زمیں سے توڑ کے رشتہ ترقیاں ڈھونڈے

زمیں سے توڑ کے رشتہ ترقیاں ڈھونڈے
  ہوا کے دوش پہ  ہلکورے کھاتی قوم مری

نہ جانے کس کے جزیرے پہ اب گرے تھک کر
ہر ایک قوم سے مرعوب ہوتی قوم مری

Sunday, March 9, 2014

ہم سا کوئی زمانے میں ناخلف ہی نہیں

دادا جی پہنا کرتے تھے تہبند اور پگ
ابّا نے انتخاب کی شلوار اور قمیص
اپنی کمان ٹوٹی ہے پتلون ٹائی پر

داد جی بولا کرتے تھے پنجابی مان سے
ابّا نے اختیار کی اردو میں بات چیت
ہم لوگ سر کھپائیں بدیسی زبان میں

اب کیسے کوئی مانے کہ ہم زندہ قوم ہیں
ہم سا کوئی زمانے میں ناخلف ہی نہیں

عورت ہے اک پہیلی اسے بوجھتے رہو

جو بھی لگا لے باتوں میں اس کا ہی دم بھرے
اس کا تو دیں دھرم نہ وطن مستقل رہے

عورت ہے اک پہیلی اسے بوجھتے رہو!!

محبت کا قرض


میں تیرے قرض کے اس بوجھ سے دبا جائوں
خدا کے واسطے اتنا نہ شرم سار کرو!!!!!!

Saturday, March 8, 2014

زندہ ہیں اور جینے کی فرصت نہیں ہمیں

چوبیس گھنٹے پیٹ کی مزدوریاں کی کریں
زندہ ہیں اور جینے کی فرصت نہیں ہمیں

Wednesday, March 5, 2014

جس قوم کے اساتذہ ترسیں گے روٹی کو

جس قوم کے اساتذہ ترسیں گے روٹی کو
اس قوم کے تلامذہ سیکھیں گے چوریاں

Tuesday, March 4, 2014

یہ کیسا بے نیازاور خوبصورت رشتہ ہے

تمہاری کال آنی تھی
کہیں ملنا بھی طے تھا اور، ضروری بات کرنی تھی
، نہ تم نے کال  کی ہم کو 
نہ ہم نے یاد کروایا
یہ کیسا بے نیازاور خوبصورت رشتہ ہے
شکایت تم کو ہم سے ہے،
نہ ہم کو تم سے شکوہ ہے-
یہ کیسا بے نیازاور خوبصورت رشتہ ہے
سبھی رشتے اگر ایسے  ہی ہوں
!!تو کیا ہی اچھا ہو

Monday, March 3, 2014

کچھ لوگ ہم سے آج بھی سرحد پہ بیٹھے ہیں

ملکوں نے ساٹھ سال کی مدت بھی کاٹ لی
کچھ لوگ ہم سے آج بھی سرحد پہ بیٹھے ہیں

احساس ِ کمتری تھا کہ وہ بیوقفی تھی

احساس ِ کمتری تھا کہ وہ بیوقفی تھی
سب سامعین دیسی مقرر بھی دیسی تھا
لیکن زبانِ غیر میں ابلاغ شرط تھا
پس کہنے والے قلتِ الفاظ کا شکار
اور سننے والے دقت و آزار سے دو چار
اللہ اللہ کر کے ہوا ختم سیمینار
احساس ِ کمتری تھا کہ وہ بیوقفی تھی؟؟


میں کیسے مان جاوں کہ ہم زندہ قوم ہیں
اپنی کوئی زباں نہ ثقافت نہ امتیاز

احساس ِ کمتری نے میر وقوم مار دی
نفرت سی ہو گئی ہے اسے اپنے آپ سے 

۱۴-۱۵ اگست ۱۹۴۷

اک بار پھر سے خون دو اک بار پھر لڑو
اب تک جو خوں بہایا وہ ضائع کیا گیا
اب تک جو خوں بہایا وہ اپنے ہی گھر کا تھا
اس کا ثبوت یہ ہے کہ حالت وہی رہی
انگریز کے غلام تھے انگریز کے ہی ہو
اک بار پھر سے خون دو اک بار پھر لڑو

ڈرپوک لوگ کتنے تھے برِّ صغیر کے

تلوار جس نے کھینچی اسی کو کیا  سلام
ڈرپوک لوگ کتنے تھے برِّ صغیر کے
ان کا دھرم بچا نہ زباں مستقل رہی
جتنے بھی غاصب آئے ملاوٹ کی اور گئے


Tuesday, February 25, 2014

مجازی خدا بھی اصلی خدا سے کم تو نہیں


پچھلے پانچ سالوں میں
پہلی دفعہ
میرے پڑوسی کے ہنسنے کی آواز آئی
اور اس کے ساتھ ہی کھلکھلائے
 !!اس کے بچے اور بیوی
(اور اب تک ہستےہی جا رہے ہیں )
!!مجازی خدا بھی اصلی خدا سے کم تو نہیں
 یہیں تک لکھا ہے کہ پھر آواز آئی
"ایک تھپڑ لگائوں کا کس کے"
 اب وہ اکیلا دھمکا رہا ہے
اور باقی سب آوازیں چپ ہیں
--------------مجازی خدا بھی

رب نے کیا چیز بنا دی عورت


حسن ایسا کہ آنکھ پھٹ جائے
رب نے کیا چیز بنا دی عورت

عشق کا ریشم بننا

رات دن الجھے رہیں روزی کے پھندوں میں ہم 
اب تو ممکن ہی نہیں عشق کا ریشم بننا
ایک وہ دن تھے جہاں دیکھنا چودہ کا چاند
شب بسر کرنا وہیں عشق کا ریشم بننا

ماں

تم دنیا دنیا کرتے ہو دنیا میں کچھ نہیں
کچھ ہے اگر تو ماؤں کے قدموں کی خاک ہے


سب لین دین والے ہیں سب روٹھ سکتے ہیں
بے لوث رشتہ ماں کا ہے جو روٹھتا نہیں


دنیا میں جتنی مائیں ہیں سب ایک سی لگیں
یہ بھی تو اک ثبوت ہے رب سب کا ایک ہے

سرحد کے آر پار


کابل ہو زاہدان ہو دلی کہ سنکیانگ
ہر سمت کلمہ گو ہیں تری جنگ کس سے ہے
اپنے ہی بھائی بندوں کو دشمن سمجھتا ہے
تیرے ہی جیسے وہ ہیں تری جنگ کس سے ہے

سرحد کے آر پار ہے مخلوق ایک سی

طالبان

طالبان

اقبال کے عقاب کو رستہ دو  آنے دو
دوقومی نظریے کی فتح عنقریب ہے
تم نے لکیر کھینچی تھی مذہب کے نام پر
کشمیر کی لڑائی بھی مذہب کے نام پر
مذہب کے ہی نظام سے اب ڈر رہے ہو کیوں
مذہب کے ہی نظام کو اک بار آنے دو

तालिबान

इक़बाल के अक़ाब को रस्ता दो  आने दो
दोकौमी नज़रीऐ की फ़तह अनक़रीब है
तुम ने लकीर खींची थी मज़हब के नाम पर
कश्मीर की लड़ाई भी मज़हब के नाम पर
मज़हब के ही निज़ाम से अब डर रहे हो क्यों
मज़हब के ही निज़ाम को इक बार आने दो

Thursday, February 20, 2014

ہیلے کالج کے پیارے طلبا کے لیے

ہیلے کالج کے پیارے طلبا کے لیے


نئے پرندے نئی اڑانیں، نئے افق اور نئی امیدیں
میں ایسی دنیا کو کیوں نہ چاہوں جو زندگی سے بھری پڑی ہے

تمہاری آنکھیں نہیں ہیں پیارو، چراغ جلتے ہیں پانیوں پر
تم ان کو یکجا تو کر کے دیکھو دو چار گز پہ سحر کھڑی ہے

Wednesday, February 19, 2014

یہ سرزمیں ہے اسے پاک کر رہیں ہیں ہم


قیام ِ ملک سے اب تک قتال جاری ہے
یہ سرزمیں ہے اسے پاک کر رہیں ہیں ہم

نفسا نفسی
مری گلی میں ہوا خون اور میں خوش ہوں
کہ رب نے جان بچا لی مرے عزیزوں کی

Monday, February 17, 2014

ہانک دو ان کو

چند افراد کے سوا سب لوگ
گھاس چرتے ہوئے مویشی ہیں
جس طرف چاہو ہانک دو ان کو

لمحہ موجود




الٹ پلٹ کے بہت دیکھی زندگی میں نے
سوائے لمحہِ موجود کچھ نہیں اس میں
سو جی سکو تو اسے جی لو آج اس پل میں!

Monday, February 10, 2014

خوف آتا ہے خود سے ملتے ہوئے

ذات کے بے امان جنگل میں
خواہشیں بے لگام پھرتی ہیں
خوف آتا ہے خود سے ملتے ہوئے

تا کہ

جان سے جان توڑ کر اپنی
مائیں بچوں کو پیدا کرتی ہیں
تا کہ آباد رب کی دنیا رہے

وہ اپنے آپ کو کیوں کر خدا نہ سمجھے گا
کہ جس کے رزق سے پلتی ہے بھوکی خلقِ خدا

رات پڑتی ہے تو سوجاتے ہیں ہمدرد سبھی

درد جس کا ہے اسی کا ہے فقط اس کا ہی ہے
رات پڑتی ہے تو سوجاتے ہیں ہمدرد سبھی

سرکاری اسپتال

راہ میں لیٹ گئے درد کے مارے ہوئے لوگ
جاگتے سوتے سے بے حال سے بے چارے لوگ
چوکیدار آئے گا
 اور چوب چھبو جائے گا
بڑہڑاتے ہوئے اٹھیں گے لپیٹیں گے لحاف
!!!! :سرد موسم میں عیادت بھی بہت مشکل ہے

چاہت نہیں چھپنے والی

ایسی خاموشی کہ دھڑکن کی دھمک پڑتی ہے
اور ابلاغ کہ آنکھوں کی  بھی آواز آئے
ایسے حالات میں چاہت نہیں چھپنے والی

ایسے لہراتا ہوا چلتا ہےوہ شاخ بدن
چاند دیکھے گا تو گر جائے گا چکر کھا کر
چاندنی رات میں اس کونہ جگانا لوگو

Sunday, February 2, 2014

بند باندھو تو جسم ٹوٹتا ہے

عمر تو وقت سے بندھی ہوئی ہے
جو مسلسل گزرتا جاتا ہے
زندگی قطرہ قطرہ ملتی ہے

ہفتوں کے بعد چار چھے لمحے
اور سالوں میں چند ہفتے بس
ٹکروں ٹکروں میں لوگ جیتے ہیں

جنس  مجبوری ہے ارے صاحب
بند باندھو تو جسم ٹوٹتا ہے

 شرم آتی ہے انہیں قوم بلاتے ہو جب
مادری بولی جنہیں بولتے شرم آتی ہے

خود ناپسندی


بدیسی ملک کا قانون وردیاں تھانے
بدیسی بولی بدیسی لباس اور کھانے
بدیسی حلیہ بدیسی دماغ اور سوچیں
بدیسی جو بھی ہو اچھا ہے بلکہ بہتر ہے
جو بس چلے تو یہ DNA  بھی بدل ڈالیں
کہ میری قوم کے لوگوں کو خود سے نفرت ہے

Tuesday, January 28, 2014

دماغ کم ہو تو!!

یہ بات کھیلتے بچوں سے میں نے سیکھی ہے
دماغ کم ہو تو چوٹیں زیادہ آتی ہیں -
ابھی ابھی یہ خبر ریڈیو پہ آئی ہے-
"ملیشیا کے مسلمان پھر سے جھگڑے ہیں - 
کہیں پہ آگ لگی اور کہیں پہ خون بہا
خدا سبھی کا سہی نام اپنے اپنے ہوں
کلیسا والوں نے گرجے پہ کیوں لکھا اللہ"
یہ کیسی خلق خدا ہے، خدا کے نام پہ ہی
خدا کے بندوں کو شعلوں میں جھونک دیتی ہے
یہ بات کھیلتے بچوں سے میں نے سیکھی ہے
دماغ کم ہو تو چوٹیں زیادہ آتی ہیں

Sunday, January 26, 2014

حویلی دل کی

ایک وہ دور تھا میلہ سا لگا رہتا تھا
ایک یہ دور ہے ویراں ہے حویلی دل کی

تم سمجھتے تھے بہت خاص ہو تم دنیا میں
اس سمجھنے نے بہت دھوکے دیے ہیں تم کو!!

نہ شروعات کا معلوم نہ انجام پتہ
گھومتے وقت کے مرکز میں گرائے گئے ہم

یہ کائنات ذرا دیر رک سکے تو جانیں
مشاہدے کے تسلسل کو وقت کہتے ہیں

Thursday, January 23, 2014

شاعری

شاعری

 سست رو سانس چلے نبض بھی خوابیدہ ہو
اور بے کاری کہ بیٹھے ہیں تو بس بیٹھے رہیں
ایسے عالم میں کسی علت و حجت کے بغیر
صفر کوشش سے ترے ذہن کی بالائی پر
جو نتر آئے اچانک سے وہی شاعری ہے

Tuesday, January 21, 2014

وہ ہاسٹل کے شب و روز جن میں زندگی تھی

ہماری مرضی سے چلتا تھا وقت کا پہیہ
گھمائیں سیدھا کہ الٹا ہماری مرضی تھی
کبھی کبھی تو اسے ہفتوں روک بھی رکھتے
  !!وہ ہاسٹل کے شب و روز  جن میں زندگی تھی

ہمارے ماپ کا

بہت سے کپڑوں کو پہنا اتارا اور پہنا
کسی بھی کپڑے میں پورا نہ آسکا یہ بدن
نتیجتا ہمیں یونہی گزارا کرنا پڑا
جو زیبِ تن ہے اسے انتخاب مت سمجھو
ستر چھپانے کی مجبوریاں تھیں کیا کرتے
!!ہمارے ماپ کا کوئی ہمیں ملا ہی نہیں

Sunday, January 19, 2014

جو جو پڑھا وہ لوگوں کو تقسیم کر گیا

کوئی تو ہو گھڑی کو جو الٹا گھما سکے
دو چار صدیاں پیچھے پلٹ کر ہے دیکھنا
ہے دیکھنا کہ کس نے لکھا تھا نصابِ ہند
جو جو پڑھا وہ لوگوں کو تقسیم کر گیا
شہروں سے دور اب بھی محبت ہے لوگوں میں
شہروں سے دور اب بھی شرحِ خواندگی ہے کم

Saturday, January 18, 2014

مزدور

مزدور

کر رہا ہے معاونت رب کی
اس کی مخلوق پالتا ہے جو
بیوی بچوں کے رزق کی خاطر
جان جوکھوں میں ڈالتا  ہے جو

Thursday, January 16, 2014

کوئی مصرع دو کہ اس سوچ کا تن ڈھانپ سکوں

مفلسی آن پڑی قحط کا موسم چھایا
کھوٹی کوڑی بھی نہیں ذہن تجوری میں اب
جتنے الفاظ تھے اظہار میں سب خرچ ہوئے
بے لباس سوچ ہے اک مجھ میں کئی ہفتوں سے
 مجھ میں اک سوچ بھٹکتی ہے کئی ہفتوں سے
کوئی مصرع دو کہ اس سوچ کا تن ڈھانپ سکوں

سوچ کا قرض چکاتے ہیں سو لکھ دیتے ہیں

مذہب پہ حرف آنے نہیں دیتے میرے لوگ
نازک معاملہ ہے ذرا احتیاط سے

یہ کوئی پیشہ نہیں ہے کہ کمائی کھائیں
سوچ کا قرض چکاتے ہیں سو لکھ دیتے ہیں

تہوار

قمقمے پھول اگر بتیاں جشن اور پکوان
ایک سے لگتے ہیں تہوار سبھی قوموں کے
فرق اتنا ہے کہ تاریخ ہے اپنی اپنی

رقص کرتے ہوئے تہوار میں سوچا میں نے
روح مرجاتی ہے اور نظریہ مر جاتا ہے

جو بھی چاہے وہ دل سے ہو جائے

عادتا ترچھا دیکھتا ہوں میں
تیری جانب جھکائو تھوڑی ہے
جو بھی چاہے وہ دل سے ہو جائے
رہ گزر ہے پڑاو تھوڑی ہے

Monday, January 13, 2014

تیری شادی نے تجھ کو چھیل دیا

پیاز کی طرح تجھ پہ پرتیں تھیں
بھائی بہنوں کی اور دوستوں کی
تیری شادی نے تجھ کو چھیل دیا
تو کہ اب رہ گیا ہے تھوڑا سا
!!!مونڈھ دیں دیسی مرغ کو جیسے

عورت کے لیے - یہ بہت ہے تم ایک عورت ہو

پر کشش اور خوبصورت ہو
یعنی تم رب کی خاص رحمت ہو
آنکھ کا رزق تم سے وابستہ
آنکھ کی جستجو کی اجرت ہو
روح کا ہلکا پن ہو تازگی ہو
جسم کی صحت ہو حرارت ہو
حسن بے پرہن تھا ازلوں سے
حسن کا پیرہن ہو زینت ہو
عشق کی نسل تم سے چلتی ہے
عشق کی جان ہو ضرورت ہو
نام اور نسب کوئی کیا پوچھے
یہ بہت ہے تم ایک عورت ہو

ان پڑھ بھائی

ان پڑھ بھائی

ہوتے ہوتے وہ ہو گیا تنہا
جیسے لنگڑا مویشی ریوڑ کا
رشتوں کے بے امان جنگل میں

Thursday, January 9, 2014

وہ جو یوں ہیں کہ جیسے ہیں ہی نہیں

دیکھ سکتے ہیں سن بھی سکتے ہیں 
بولتے ہیں مگر وہ ہکلا کر
جن کی اپنی کوئی زباں ہی نہیں
نیم گونگے غلام قوم کے لوگ
وہ جو یوں ہیں کہ جیسے ہیں ہی نہیں

ان کتابوں سے علم ملتا نہیں


اسی اسکول کے ذرا اندر
کاغذوں میں لپیٹ کر استاد

بیچتے ہیں تعصب و نفرت

اسی اسکول کے ذرا باہر
اسی اسکول کی کتابوں کے
کاغذوں میں لپیٹ کر افغانی
!!!بیچتے جائیں گرما گرم چنے

چل رہا کاروبار ماشااللہ
!!!رزق دیتا رہے خدا سب کو
ان کتابوں سے علم ملتا نہیں

گلزار کے نام
بڑھتے جاتے ہیں چاہنے والے
وہ اکیلا کدھر کدھر ہو لے
!!!!اس لیے تم جواب ہی سمجھو


سن تو سکتے ہیں بول سکتے نہیں
جن کی اپنی کوئی زباں ہی نہیں
غلام قوم 

ٹرین چھوٹتی ہے اور پھر نہیں آتی

کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے عین موقع پر
ٹرین چھوٹتی ہے اور پھر نہیں آتی

Wednesday, January 8, 2014

زندگی کو الٹ پلٹ کے نہ دیکھ


دردو غم کی شکایتیں مت کر

!!!!زندگی ہے لگان لیتی ہے

ساری تصویر ہو گئی دھندلی
میں نے جب غور سے ذرا دیکھا
زندگی کو الٹ پلٹ کے نہ دیکھ



یہ جو بیٹھا ہے اونچے مسند پر
پست قامت کڑوڑوں لوگوں نے
اس کا مسند اٹھایا ہے سر پر


Monday, January 6, 2014

سورج بھی ہانپتا ہے ستارے بھی تھک گئے

دھرتی کی کھال ادھڑنے لگی گھوم گھوم کے
سورج بھی ہانپتا ہے ستارے بھی تھک گئے
منہ زور گھوڑا وقت کا سرپٹ ہے موج میں
کچھ دیر کائینات کو اس سے اتاریئے

پرانے ساتھ کی تدفین تو کیے جاو

نئے سفر پہ چلے ہم سفر مبارک ہو
پرانے ساتھ کی تدفین تو کیے جاو

Friday, January 3, 2014

یہ جو دنیا ہے گول چکر ہے


بھاگنے دوڑنے سے کیا ہو گا
انتہا ابتدا سے ملتی ہے

یہ جو دنیا ہے گول چکر ہے

کہ مختصر ہیں بہت اس زمیں کے دن اور رات

میں کوئی کام تسلی سے کر نہیں پاتا
کہ مختصر ہیں بہت اس زمیں کے دن اور رات

جنم سے پہلے ہی مر جاتا ہے خیال مرا
کہ عین وقت پہ الفاظ ہی نہیں ملتے!!!