Tuesday, September 9, 2014

ہر ایک عشق کا لیکن ہوس سے رشہ ہے

ابھی اچھال ہے مہتاب جھک کے ملتا
یہ خواہشوں کا سمندر اتر بھی سکتا ہے
ہوس میں عشق بھی شامل ہو عین ممکن ہے
ہر ایک عشق کا لیکن ہوس سے رشہ ہے
سب اپنی اپنی بجھاتے ہیں پیاس سب پیاسے
جو بے نیاز ہے وہ کب کسی سے ملتا ہے
ہمارے جیسوں کا لگتا نہیں کہیں بھی جی
دھرم بھی دوزخ و جنت کے سودے کرتا ہے
یہ کیسا میلہ ہے ہر شخص جس میں تنہا ہے
اسی کا درد ہے سردرد جس کو ہوتا ہے

No comments:

Post a Comment