Sunday, April 25, 2010

بے حسی

مرے سامنے ٹپ ٹپ
کسی کی شکا یت خاک میں مل رہی ہے
دھیمے دھیمے سروں میں  کسی کی سسسکی
پنکھے کی آواز میں گھل رہی ہے
اگرچہ لیمپ پہ اڑتے ہوئے پتنگے کے لیے
یہ بہت رقت انگیز منظر ہو گا
لیکن مرے لیے یہ اتنا معمولا اور غیر محسوس ہے
کہ مرے ذہن میں بس اتنا خیال آیا ہے
"رات کا ایک بج گیا ہو گا
 

یہ فطرت کے نظارے

آج سے کئی برس پہلے
پہلے ملن کی شب
بادل یوں دھاڑا تھا
جیسے کسی باپ کا جواں سال اکلوتا بیٹا
اچانک موت نے اچک لیا ہو
آسمان سے پاتال تک ایسے دھارے چھوٹے تھے جیسے
اگلے کئی برس تک آنسوئوں کے لیے پانی کم پڑ جا ئے گا
اس وقت مجھے یہ سب کچھ جشن لگا تھا
آج تجھ کو کھویا ہے تو بادل کا دکھ جانا ہے
اور سمجھ  میں آیا
 ہمارے ملنے پہ بادل کیوں رویا تھا
یہ فطرت کے نظارے
بادل موسم بجلی پھول
 انسان کے کتنے ہمدرد ہیں-
کتنے خیر خواہ ہیں –
محبوبائو ں سے بھی زیادہ!

خود سے ملنے کو تو لمحہ نہیں ملتا اب کے

 خود سے ملنے کو تو لمحہ نہیں ملتا اب کے
دوڑ ہی دوڑ ہے وقفہ نہیں ملتا اب کے

کھینچ کر ایسے بنے وقت کے بخیے کس نے
بال بھر جھول کا دھاگہ نہیں ملتا اب کے

ہاتھ رکھ دو زمین کے اوپر

ایک میں ہوں پڑا ہوں صدیوں سے
ایک دنیا کہ بدلے جاتی ہے

ہاتھ رکھ دو زمین کے اوپر
سالی پھرکی سی گھومے جاتی ہے

عمر یوں یوں گزرتی جاتی ہے

عمر یوں یوں گزرتی جاتی ہے
دل کی حیرانی بڑھتی جاتی ہے

وقت پنجے جمائے بیٹھا ہے
باقی ہر شے پھسلتی جاتی ہے

ساری باتیں نصیب کی باتیں
عقل حیلے بناتی جاتی ہے

کون ہے دفن میرے گائوں میں
یہ زمیں حسن جنتی جاتی ہے

ایک کمہار نے کہا مجھ سے
خاک پیکر بدلتی جاتی ہے

زندگی کی میعاد کیا کہیے
دھول اڑتی بکھرتی جاتی ہے

جونک

آج اک جونک سے ملا ہوں میں
عمر میں مجھ سے دوگنا ہو گی
مجھ سے کہتی کہ مجھ سے پہلے بھی
تین جسموں کا خوں نچوڑ چکی
میری آنکھوں کا رخ بدلنے کو
دکھ بھری داستاں سنانے لگی
اس کی باتوں میں کھو گیا جب میں
اس نے لہجے میں کپکپی بھر لی
اور شہ رگ پہ اس طرح جھپٹی
جیسے مرتے کی آخری ہچکی
شیر جیسے ہو بھوکا پنجرے میں
کوئی چپکے سے کھول دے کھڑکی
عمر اس کی تھی شام کا سورج
بھوک اس کی مگر یہ کہتی تھی
جونک کا پیٹ پھٹ تو سکتا ہے
جونک کی بھوک مٹ نہیں سکتی
آج اک جونک سے ملا ہو میں
عمر میں مجھ سے دوگنا ہو گی

Thursday, April 22, 2010

خواب منہ زور تھے سائل کے سوالوں کی طرح

خواب منہ زور تھے سائل کے سوالوں کی طرح
درد بڑھتا ہی گیا عمر کے سالوں کی طرح

جان بے جان ہوئی جان میں جاں نہ رہی
جسم کوڑا ہوا ٹوٹے ہوئے پیالوں کی طرح

آج بھی پیار پکارے تو چلے آئیں ہم
یہ الگ بات کہ اجڑے ہیں مثالوں کی طرح

یوں گلا پھاڑ کے روتا تھا زمیں ہلتی تھی
درد پھر بھی نہ گیا دل کے حوالوں کی طرح

آنکھ میں آنچ رہے بات سے خوشبو آئے
درد گل رنگ ہے محبوب کے گالوں کی طرح

اتنا نالائق محبت کی پڑھا ئی میں وہ
نوٹ کرتا تھا مرا پیار نقالوں کی طرح

اب کوئی یاد بھی آتا ہے تو ایسے جیسے

اب کوئی یاد بھی آتا ہے تو ایسے جیسے
بے خیالی میں کوئی آنکھ سے گزرے جیسے


غیر محسوس سے لگتے ہیں سبھی لوگ یہاں
پردہِ سیمیں پہ سایوں کے تماشے جیسے


چند رشتوں کو کلیجے سے لگا رکھا ہے
ڈوبتا چاند ستاروں  کو سمیٹے جیسے


درد سے جی ہے بھرا سانس ہے بوجھل بوجھل
آخری بار کوئی دیس سے پلٹے جیسے


یوں لپیٹا ہے تجھے ہار کے جیون سارا
جانے والا کوئی بستر کو لپیٹے جیسے


اپنے اب غیر سے لگتے ہیں غیر اپنے سے
میں ہوا غیر  کہ اب غیر ہیں میرے جیسے


لا تعلق سا ہوا جاتا ہوں سب چیزوں سے
بوڑھا سورج ہو ذرا شام سے پہلے جیسے

Tuesday, April 20, 2010

کبھی مجھے بھی مقدر پہ ٹال رکھتا تھا


اداس چہروں پہ صبحیں اجال رکھتا تھا
تھکن کے ماروں کی سانسیں بحال رکھتا تھا

محبتوں میں وفا پر یقین تھا اس کو
تنازعات کو وہ کل پہ ٹا ل رکھتا تھا

لیے ہے ریت ارادوں کی اپنے ہاتھوں میں
جوپربتوں سے بھی اونچے خیال رکھتا تھا

تھکا دیا تری عادت نے وہ جفاکش بھی
جو روٹھ کر بھی نظر میں جمال رکھتا تھا

دبک کہ بیٹھ گیا گود میں اندھیروں کی
جو اپنے سر پہ چراغوں کے تھال رکھتا تھا

کبھی کبھی تو جھگڑتا تھا ساری دنیا سے
کبھی مجھے بھی مقدر پہ ٹال رکھتا تھا

ہزار حصوں میں تقسیم ہو گیا آخر
قصور یہ کہ میں سب کا خیال رکھتا تھا

Monday, April 19, 2010

توڑ کے پھینک دی کمان ، تیر سبھی جلا دیے

توڑ کے پھینک دی کمان ، تیر سبھی جلا دیے
دام میں جو اسیر تھے ، آج وہ بھی اڑا دیے
بحث چھڑی نصیب سے ، مان گئے نصیب کو
ہار کہ آج خواب بھی ، آنکھ سے سب گرا دیے

Sunday, April 18, 2010

جو پیار کے دھاگوں سے محبوب کے پر باندھے


ہونٹوں سے زباں باندھے ، آنکھوں سے نظر باندھے
اور اٹھنے کا سوچوں تو ، بانہوں سے کمر باندھے

تتلی کا چمن والو، یوں پھول پہ  قبضہ ہے
رنگوں کو چرا کر بھی خوشبو کا سفر باند ھے

یوں پہرا لگائے ہے دن رات مرے اوپر
چپ ہوں تو بگڑ بیٹھے ، بولوں تو ٰعذر باندھے

خود غرض کہیں اس کو ، کم ظرف/عقل کہیں اس کو
جو پیار کے دھاگوں سے محبوب کے پر باندھے

دکھ درد محبت میں کے ہر رنگ میں رہتا ہے
گر ہجر جگر کاٹے تو وصل ہنر باندھے

جاری رکھ مشقِ ستم ایک ستم اور سہی

جاری رکھ مشقِ ستم ایک ستم اور سہی

اس محبت کی نظر ایک جنم اور سہی

شہر کی بھیڑ میں مجھ سے تو ہزاروں ہونگے

شوق تیرا ہے تو سر ایک قلم اور سہی

Saturday, April 17, 2010

خواب کے پھول کو پیروں میں بکھر جانے دو


خواب کے پھول کو پیروں میں بکھر جانے دے
اپنے دیوانے کو رو رو کے ہی مر جانے دے

درد کی قید میں جینے کی یہ شرطیں کیسی
غم کا خنجر مری گردن میں اتر جانے دے

اپنے آنچل سے ہوا دےمرے شعلوں کو اب
راکھ کے ڈھیر کو خوشبو میں بکھر جانے دے

اس سے پہلے کہ تجھے غیر کا ہوتے دیکھوں
لے لے آنکھیں مری مجھ کو بے بصر جانے دے

بخش دو مجھ کو وجود اپنا

بخش دو مجھ کو وجود اپنا



بخش دو مجھ کو وجود اپنا کہ تم کو اس کی ْقدر نہیں ہے !

یہ بکھرے گیسو ، یہ جاگی آنکھیں ، یہ ہنستے آنسو ، یہ روتی سانسیں

اور بے قراری کی دھول تھامے

 یہ تیرے پیروں سے لپٹی راہیں

بدن میں کھلتے گلاب چاہ کے

ہجر کی گرمی میں جل رہے ہیں

بھولی آشا کے ننھے جگنو ، اندوہِ حسرت میں پل رہے ہیں

کھل رہی ہیں بقا کی گرہیں دل کہیں ہے تو جاں کہیں ہے

بخش دو مجھ کو وجود اپنا  کہ تم کو اس کی ْقدر نہیں ہے !

بدن کا تیرے میں خلیہ خلیہ

 کچھ ایسے چوموں گلاب کر دوں

کٹورے ہونٹوں سے پی کے شبنم

رگوں میں تیری شراب بھر دوں

تیری آنکھوں میں جھانک لوں جو

چاند تاروں سے خواب کر دوں

یہ آب زم زم سی باتیں تیری

سنوں تو رشکِ ثواب کر دوں

آئو کہ پہلو میں آ کے بیٹھو، تمہاری جنت و جاں یہیں ہے

بخش دو مجھ کو وجود اپنا  کہ تم کو اس کی ْقدر نہیں ہے !

عمر آدھی گزر گئی اب تک


عمر آدھی گزر گئی اب تک
سمت کوئی نہ مل سکی اب تک

کس کو رکھنا ہے چھوڑنا کس کو
بات اتنی نہ طے ہوئی اب تک

بے یقنی یقین ہو گئی ہے
لامکانی مکاں رہی اب تک

بات اتنی کہ آس ٹوٹ گئی
ورنہ وہ شخص ہے وہی اب تک

کام سارے رہے ادھورے ہی
تجھ سے فرصت نہ مل سکی اب تک

زندہ رہنے کو خواب دیتا جا
سوئی سوئی ہے زندگی اب تک

Friday, April 16, 2010

مقدر


چاہتوں کا موسم بھی بات ہے مقدر کی
آج کل تو ویسے ہی رات ہے مقدر کی

آنکھ جب بھی اٹھتی ہے بے غرض نہیں اٹھتی
آپ کی عنایت بھی گھات ہے مقدر کی

قید میں نئے ہو تم ، شور کرنا بنتا ہے
رفتہ رفتہ سمجھو گے بات ہے مقدر کی

پچھلے خواب لے کر  کچھ  تازہ خواب دے دے گا
اس  سے بڑھ  کے اور کیا او قات ہے مقدر کی

عمر بھر زمانے سے دست و پا رہے ریحان
آج ہم نے مانا ہے ، بات ہے مقدر کی

Wednesday, April 14, 2010

اک کم ظرف کے ساتھ گزارا ہے آج کل

اک کم ظرف کے ساتھ گزارا ہے آج کل

ہم نے تو عمر سے ہی نکالا ہے آج کل


سایہ بری نگاہ کا لگتا ہے چاند پر

یوں بے سبب جو روٹھتا رہتا ہے آج کل


دل کو غمِ فراق کی عادت ہے اس قدر

پا کر تجھے حالات سے ڈرتا ہے آج کل


اس سے قبل کہ ٹوٹ سکیں خواب بیچ دو

شیشے کے مال کا کیا بھروسہ ہے آج کل


بیٹھیں تو سوچیں گھیر لیں ، سوچیں تو حیرتیں

محفل سجانے والا ہی تنہا ہے آج کل


ضدی پہاڑ پر کبھی اگتی ہے گھاس کیا

تم نے تو خوں چھڑک کے بھی دیکھا ہے آج کل


آنکھوں کی کور میں کوئی رستی نمی سی ہے

لہجہ ہمارا اس لیے شستہ ہے آج کل

Tuesday, April 13, 2010

آنکھ سے وہ خطا ہو ا ایسے


سونپ دی عمر ساری گلیوں کو

آپ پھر بھی نہ بام تک آئے

آنکھ سے وہ خطا ہو ا  ایسے

ہم جوانی کی شام تک آئے

نام تیرا زبان پر آئے


 
نام تیرا زبان پر آئے

تیر جیسے کمان پر آئے


میں محبت کی ضد کروں کب تک

ہر کوئی میری جان پر آئے


زندگی کچھ سمجھ نہیں آتی

ہم تو سہوا جہان پر آئے


تو ہے کیاری مہکتے پھولوں کی

کوئی جگنو اڑان پر آئے


شہر کا شہر دیکھ کر ہم بھی

آخراس کے مکان پر آئے

Saturday, April 10, 2010

دل کی دھڑکن نے کبھی خود کو سمجھنے نہ دیا

دل کی دھڑکن نے کبھی خود کو سمجھنے نہ دیا
خول جذبوں کا جوانی نے اترنے نہ دیا

آئینہ لکھتا رہا اور ہی صورت میری 
تیری آنکھوں نے مگر دھیان بدلنے نہ دیا

بیٹھ کر سوچوں تو حیران ہوا جا تا ہوں
کہ کوئی کام بھی ڈھنگ سے تو نے کرنے نہ دیا

فیصلہ جو بھی کیا بہت ہی جلدی میں کیا
اور پھر میری انا تھی کہ مکرنے نہ دیا

میں لڑھکتا ہی گیا پستی میں پتھر کی طرح
میری قسمت نے ذرا بھر کو سنبھلنے نہ دیا

اتنی مہلت تھی کہاں ، سود وزیاں میں پڑتا
تم نے تو جنگ و جدل سے ہی نکلنے نہ دیا

اس طرح چھائے رہے مجھ پہ غموں کے سائے
جشن کے لمحوں میں بھی ٹھیک سے ہسنے نہ دیا

سب کہاں ملتا ہے دنیا کے چمن میں ریحاں
رنگ مانگے تو ہوائوں نے مہکنے نہ دیا

Friday, April 9, 2010

شعر دو چار لکھوں روز ہے عادت مجھ کو

شعر دو چار لکھوں روز ہے عادت مجھ کو
غم غلط کرنےکی پڑتی ہے ضرورت مجھ کو

مجھ کو معلوم ہے تھک ہار کہ رہ جائوں گا
پھر بھی کچھ روز تو کرنے دے بغاوت مجھ کو

ہے نشہ دل کو تعلق میں پڑے رہنے کا
چاہیے اب کوئی ناکام محبت مجھ کو

رات کیا سوچ کے کاٹوں گامیں زلفوں کے سوا
اس تصور سے ہی ہونے لگے وحشت مجھ کو

جانے کس طور سے جیتے ہیں بنا پیار کے لوگ
میں تو مرجاتا اگر دیتا وہ نفرت مجھ کو

اب کے ڈولا تو سنبھلنا مرا مشکل ہو گ

اب کے ڈولا تو سنبھلنا مرا مشکل ہو گا
ساقیا اب کے پلٹنا مرا مشکل ہو گا

اب کے نکلا تو بہت دور چلا جائوں گا
پھر ترے دیس میں آنا مرا مشکل ہو گا

زخم در زخم عبارت ہے فسانہ میرا
اس فسانے میں ٹھہرنا مرا مشکل ہو گا

توڑی اک بار قسم پھر چاہے  سوبارسہی
جام اب منہ سے ہٹانا مرا مشکل ہو گا

ایسے بیگانہ ہوا ہوں سبھی رشتوں سے ریحان
پھر وہی آس لگا نا مرا مشکل ہو گا

Thursday, April 8, 2010

روندتے گئے چاند راہ میں اک چراغ کی چاہتیں لیے

روندتے گئے چاند راہ میں اک چراغ کی چاہتیں لیے
آنکھ میں ہے اب چبھ رہا دھواں، رات سر پہ ہے وحشتیں لیے

عمر بھر رہی سوچ آپ کی، دیکھ کر لگا عمر آپ کی
سوچنا غلط ، دیکھنا غلط ، چپ کھڑے ہیں اب حیرتیں لیے

آنکھ آپ کی جھا نکتی رہے ، جس طرف چلوں راہ روک دے
پیار سے تکے اس طرح مجھے جیسے پوجا کی حسرتیں لیے

گود چاند کی، چاندنی بھری، رانی را ت کی، پھر بھی چاند کی
چاند عادتا گردشوں میں ہے چاندنی پھرے نفرتیں لیے

تم ریحان کو جانتے نہیں اس کی خواہشیں ، ہیں عجیب سی
ڈھونڈتا پھرے دھوپ رات دن ، سر پہ چھائوں کی راحتیں لیے

Bahar Pattern:  = - = - = / = - = - = / = - = - = / = - = - =
Example: وہ مزہ کہاں وصلِ یار میں  لطف جو ملا انتظار میں

Wednesday, April 7, 2010

درد میں اور نشے میں جینا

درد میں اور نشے میں جینا
پھنس گیا اب تو گلے میں جینا

رسم ٹھہری ہے وفا بھی شاید
عمر بھر ایک ہی لے میں جینا

ہاتھ میں ریت مقدر کی اور
آنکھ کا خواب ہرے میں جینا

ہجر میں ضبط عذابوں جیسا
وصل ہے جبر کدے میں جینا

بحث چھڑ جائے کسی بت سے جب
چپ ہی رہنا ہے بھلے میں جینا

Tuesday, April 6, 2010

آپ کو پاس بلا لیں تو مکاں دیکھیں گے

آپ کو پاس بلا لیں تو مکاں دیکھیں گے
شمع رکھنی ہے کہاں پھول کہاں دیکھیں گے

آپ کی آنکھیں کھڑی ہیں مرے ہر رستے میں
آپ کی آنکھوں سے ہو لیں تو جہاں دیکھیں گے

اچھا لگتا ہے جدائی میں اندھیرا ہم کو
چاند آجائے تو کمرے کا سماں دیکھیں گے

اب کہ مل جائو تو پھر ایسے سنبھالیں گےہم
سب کی نظروں سے تجھے کر کے نہاں دیکھیں گے

ہار کہ تجھ کو تری دید کا یارا کب ہے
دل مچلتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہاں دیکھیں گے

باندھ رکھا ہے تری یاد کو تکیے سےاب 
خواب کے ساتھ محبت کا پیماں دیکھیں گے

برہوں نے ساڈا میل کرایا

برہوں نے ساڈا میل کرایا
میل وی دل نوں راس نہ آیا

پچھلے برس سی آس اک تیری
ایس برس تے تو وی پرایا

جا وے طبیبا تو ں وی ایں جھوٹا
تیری دوا نے درد ودایا

کوِئی کی جانے پِیڑ پرائی
ماں وی نہ سمجھے پیٹ دا جایا

چیت وی آیا پت جھڑاں لایا
دل دے بوٹے تے بور نہ آیا

چاروں پاسے چھا گئے نیرے
لکن لگے تے چن چڑھ آیا

Monday, April 5, 2010

ان بتوں سے امید کیا رکھنا

ان بتوں سے امید کیا رکھنا
آگئے ہو تو سر جھکا رکھنا

بات کرنا یہاں دیواروں سے
بتکدے میں نہ آئینہ رکھنا

جان و دل کی نیاز لائے ہو
جگ ہنسائی کا حوصلہ رکھنا

ایک خواہش کا ہاتھ تھامو جب
باقی خوابوں سے فاصلہ رکھنا

خون جذبوں کا ہو نہ جائے کہیں
ضبط کرنے میں ضابطہ رکھنا

خشک پتھر ہے سوچ لینا تم
جب کبھی چاند سے گلہ رکھنا

عشق میں معجزہ ضروری ہے
عقل سے پھر بھی رابطہ رکھنا

Saturday, April 3, 2010

زندگی ابھی اور بھٹکے گی

زندگی ابھی اور بھٹکے گی
انتہا دیکھ کر ہی پلٹے گی

جان جانی ہے جانتے ہیں ہم
سانس کب تک گلے میں اٹکے گی

ایک لمحے میں سر قلم ہوگیا
لاش کچھ دیر تک تو تڑپے گی

وقت پانی ہے بہتا جائے گا
قسمتوں کی بساط الٹے گی

ہاتھ شل ہو گئے ستم گر کے
اب بغاوت دوبارہ مچلے گی

اب کے موسم میں درد آیا ہے
اگلے موسم بہار پلٹے گی

شعبدہ باز وقت ہے ایسا
آگ گلزار بن کے مہکے گی

Friday, April 2, 2010

خالی خالی سا مجھے لگتا ہے دل کا برتن

خالی خالی سا مجھے لگتا ہے دل کا برتن
تیرے بن شور بہت کرتا ہے دل کا برتن

تیری آنکھوں کی ضرورت ہے بڑی شدت سے
تیری آنکھوں سے فقط بھرتا ہے دل کا برتن

آنکھ پھیری ہے مرے سا قی نے جب سے مجھ سے
بھوکے بچے کی طرح روتا  ہے دل کا برتن

رقص کرتا ہوا جب درد کا موسم آئے
ٹوٹی ڈھولک کی طرح بجتا ہے دل کا برتن

جب کوئی مجھ کو بلندی سے پکارے ریحان
کچے پیالے کی طرح ڈرتا ہے دل کا برتن

شکوہ

شکوہ

چھوٹا سا شکوہ ہے
پاگل سی شکایت ہے
اے مری جان ِ ادا
ہلکی سی گزارش
آئیندہ جب بھی
خود کو دیکھو
تو اپنی آنکھوں سے مت دیکھو
دنیا والوں سے مت پوچھو
جھوٹے ہیں جہاں کے آئینے
اندھے ہیں لوگ سارے
انہیں کیا پتہ
انہیں کیا خبر
جب بنائی گئی ہوں گی
ساحر سی آنکھیں تیری
تو مصور نے قلم توڑ دیا ہو گا
جب تراشے گئے ہوں گے
نازک سے ہونٹ تیرے
تو کلیوں نے کھلنا چھوڑ دیا ہو گا
جب سجائی گئی ہو گی
چاہِ زقن سی تیری ٹھوڑی
کتنے سوئے ہوئے بوسوں نے
انگڑائی لی ہو گی
زلفوں کی کالی رات پہ
روشن سی پیشانی تیری
جب چاند بن کے اتری ہو گی
آسمان کے چاند پہ تب داغ لگا ہو گا
آب زم زم سے دھلے
گل و گلزار سے رخسار تیرے
جب بے نقاب ہوئے ہوں گے
تو ہر دیکھنے والی آنکھ میں
عبادت کا نشہ ہو گا
تیرے مہکیلے بدن سے
چھو جانے کی خواہش میں
ہوائوں نے اٹھکیلیوں کے ہنر سیکھے ہوں گے
شاید کہ جڑ جائیں تیرے زیور میں کہیں
یہی سوچ کر آسمان کے ستارے ٹوٹتے ہوں گے
یہ جو موسم نے ساون کی ادا سیکھی ہے
کوئی آنسو تری آنکھ سے کبھی ٹپکا ہو گا
ترے پہلو میں دبی بیٹھی ہیں
زمانے بھر کی خوشیاں
بے خیالی میں تو نے آنچل کہیں کھولا ہو گا
نہیں جاناں ---- نہیں جاناں----
نہیں تیرا بدل جاناں
بدل ہوتا جو کوئی تیرا
تجھے کب کا بھلا دیتا
ہاں جاناں ----- ہاں جاناں----
بہت انموں ہے تو جاناں
مول ہوتا جو کوئی تیرا
تجھے جگ سے خرید لیتا
چھوٹا سا شکوہ ہے
پاگل سی شکایت ہے
اے مری جان ِ ادا
ہلکی سی گزارش
آئیندہ جب بھی
خود کو دیکھو
میری آنکھوں میں جھانکو
میری آنکھوں سے دیکھو

ہم کو آنا ہے پھر خواب کے جال میں

اب گریزاں ہیں جینے کےسب راستے
وقت رکتا نہیں پیار کے واسطے
دل میں بجتی ہے جانجھر ترے نام کی
آنکھ سوئی ہوئی خواب ہیں ناچتے

ترے پہلو میں جلتے گلاب ادھ کھلے
میری آنکھوں سے اتنے پرے بھی نہیں
پھر بھی لگتا ہے کیوں مجھ کو جانِ حیا
جیسے دھرتی پہ تیرے سا ئے بھی نہیں

تم سرابوں حجابوں کے پردوں میں ہو
میں محبت کی بھٹکی کتا بوں میں ہوں
چاند کے سامنے ریت ہی ریت ہے
اور میں خواہشوں کے عذابوں میں ہوں

تیرے پیروں سے لپٹا ہے ما ضی ترا
اور میں اپنے حالات کی چال میں
زند گی ڈیٹھ ہے یو ں گزرتی نہیں
ہم کو آنا ہے پھر خواب کے جال میں

ہو سکے ایک دن یونہی آجانا تم
جیسے بھولے سے پنچھی کوئی آتا ہے
جیسے سادہ و بنجر پڑے کھیت میں
آب باراں سے سبزہ نمو پاتا ہے

Thursday, April 1, 2010

چلو اب جھوٹ بولیں

چلو اب جھوٹ بولیں
بچھڑ کر جھوٹ بولیں
اپنی آنکھوں کی نمی کو
خوشی کے آنسو کہہ لیں
درد کیسا بھی اٹھے
مسکرا کے سہ لیں
کہ میری آنکھ کا ایک آنسو
تری دو آنکھوں میں
ہزاروں آنسو بھر دے گا
اور ترا ہلکا سا رونا بھی
مجھے تو مار کے رکھ دے گا
چلو اب جھوٹ بولیں
بچھڑ کر جھوٹ بولیں

افسوس تو ہوتا ہے

افسوس تو ہوتا ہے

دور دور تک پھیلے
خواب کے سراب کے
ریت بھرے صحرا میں
اک جوگی چل رہا تھا
پھٹی ہوئی جیبوں میں
چند سکے تھے کھوٹے سے
جو رستے کی پونجی تھے
اس رستے کی پونجی سے
تھوڑی نیاز خریدی تھی
چند گلاب توڑے تھے
اس کو مندر جانا تھا
---
دھول اڑ رہی تھی
جہاں تک دیکھتا تھا – دھول اڑرہی تھی
ہونٹوں کی پپڑیوں پہ
آنکھوں کی پتلیوں پہ
سر کے بالوں میں
پائوں کے چھالوں میں
جسم کی پور پور سے
خون رس رہا تھا
مگر وہ جوگی کمالِ فن سے
سچے جذبوں کا ہاتھ تھا مے
جھگڑ رہا تھا دھوپ سے
لڑ رہا تھا بھوک سے
پیاس بانٹتے سورج کا
منہ چڑا رہا تھا
چلا جا رہا تھا
کہ حوصلہ بڑا تھا اک خواب جیسے بت کا
جس کے انتظار میں
سجدے تڑپ رہے تھے
جس کی شمعِ یاد سے
اندھیرے سمٹ رہے تھے
گلے میں ڈالی مالائیں
جسے عقیدت سے جپ رہی تھیں
صدا میں اٹکی گم دٰعائیں
جس کی طلب میں تھک چکیں تھیں
مگر وہ جوگی چل رہا تھا
کہ بندگی کا خمار بڑا تھا
-----
عمر بھر کی مسافت پہ
جب وہ جوگی مندر پہنچا
تو دامن دریدہ حالت پہ
بدن دریدہ صورت پہ
مندر میں بیٹھے تمام بتوں نے
بڑے ہی زور کا قہقہہ لگایا
اور پھر یکبار برسے
حقارت کے ، دشنام کے پتھر
تہمت کے ، الزام کے پتھر
ٹھکرانے کے آلام کے پتھر
جرم یہ تھا جوگی کا
کہ اس کی پیشانی نے
اک بت کو قدموں کو
سجدوں کی خواہش میں
جوشِ عقیدت سے
خون آلود کیا تھا!!!!
----
وہ جوگی خوں کے چھینٹوں کو
اشکوں سے دھو بھی ڈالے گا
الٹی پڑی نیاز کو
بکھرے ہوئے گلابوں کو
گٹھڑی میں باندھ لائے گا
واپس لوٹ بھی آئے گا
مگر بتو ، تمہی کہو
یوں لوٹ کے آنے میں
افسوس تو ہوتا ہے!!

روز رویا نہ کرو سامنے آ کر یونہی

روز رویا نہ کرو سامنے آ کر یونہی
لوگ ہو جاتے ہیں انسان سے پتھر یونہی

لوگ آدھے کٹے پھر بھی جیے جاتے ہیں
بیٹھ جاتا ہے تو ہر بات کو لے کر یونہی

ابھی تو دشت میں آندھی کے عذاب آنے ہیں
ابھی بدلا ہے ہوائوں نے یہ تیور یونہی

ناخدائوں نے مجھے بیچ سمندر پھینکا
میں نے دیکھا تھا ابھی پیچھے کو مڑ کر یونہی

ڈھونڈنے نکلے تھے جنت کو بتوں کے پہلو میں
ہم زمانے کی نظر میں ہوئے کافر یونہی

ہم سناتے بھی تو کیا ہم کو سمجھتا کوئی
ہم سلگتے ہی رہے اندر و اندر یونہی