Saturday, April 10, 2010

دل کی دھڑکن نے کبھی خود کو سمجھنے نہ دیا

دل کی دھڑکن نے کبھی خود کو سمجھنے نہ دیا
خول جذبوں کا جوانی نے اترنے نہ دیا

آئینہ لکھتا رہا اور ہی صورت میری 
تیری آنکھوں نے مگر دھیان بدلنے نہ دیا

بیٹھ کر سوچوں تو حیران ہوا جا تا ہوں
کہ کوئی کام بھی ڈھنگ سے تو نے کرنے نہ دیا

فیصلہ جو بھی کیا بہت ہی جلدی میں کیا
اور پھر میری انا تھی کہ مکرنے نہ دیا

میں لڑھکتا ہی گیا پستی میں پتھر کی طرح
میری قسمت نے ذرا بھر کو سنبھلنے نہ دیا

اتنی مہلت تھی کہاں ، سود وزیاں میں پڑتا
تم نے تو جنگ و جدل سے ہی نکلنے نہ دیا

اس طرح چھائے رہے مجھ پہ غموں کے سائے
جشن کے لمحوں میں بھی ٹھیک سے ہسنے نہ دیا

سب کہاں ملتا ہے دنیا کے چمن میں ریحاں
رنگ مانگے تو ہوائوں نے مہکنے نہ دیا

No comments:

Post a Comment