دل کی دھڑکن نے کبھی خود کو سمجھنے نہ دیا
خول جذبوں کا جوانی نے اترنے نہ دیا
آئینہ لکھتا رہا اور ہی صورت میری
تیری آنکھوں نے مگر دھیان بدلنے نہ دیا
بیٹھ کر سوچوں تو حیران ہوا جا تا ہوں
کہ کوئی کام بھی ڈھنگ سے تو نے کرنے نہ دیا
فیصلہ جو بھی کیا بہت ہی جلدی میں کیا
اور پھر میری انا تھی کہ مکرنے نہ دیا
میں لڑھکتا ہی گیا پستی میں پتھر کی طرح
میری قسمت نے ذرا بھر کو سنبھلنے نہ دیا
اتنی مہلت تھی کہاں ، سود وزیاں میں پڑتا
تم نے تو جنگ و جدل سے ہی نکلنے نہ دیا
اس طرح چھائے رہے مجھ پہ غموں کے سائے
جشن کے لمحوں میں بھی ٹھیک سے ہسنے نہ دیا
سب کہاں ملتا ہے دنیا کے چمن میں ریحاں
رنگ مانگے تو ہوائوں نے مہکنے نہ دیا
No comments:
Post a Comment