Saturday, April 3, 2010

زندگی ابھی اور بھٹکے گی

زندگی ابھی اور بھٹکے گی
انتہا دیکھ کر ہی پلٹے گی

جان جانی ہے جانتے ہیں ہم
سانس کب تک گلے میں اٹکے گی

ایک لمحے میں سر قلم ہوگیا
لاش کچھ دیر تک تو تڑپے گی

وقت پانی ہے بہتا جائے گا
قسمتوں کی بساط الٹے گی

ہاتھ شل ہو گئے ستم گر کے
اب بغاوت دوبارہ مچلے گی

اب کے موسم میں درد آیا ہے
اگلے موسم بہار پلٹے گی

شعبدہ باز وقت ہے ایسا
آگ گلزار بن کے مہکے گی

No comments:

Post a Comment