زندگی ابھی اور بھٹکے گی
انتہا دیکھ کر ہی پلٹے گی
جان جانی ہے جانتے ہیں ہم
سانس کب تک گلے میں اٹکے گی
ایک لمحے میں سر قلم ہوگیا
لاش کچھ دیر تک تو تڑپے گی
وقت پانی ہے بہتا جائے گا
قسمتوں کی بساط الٹے گی
ہاتھ شل ہو گئے ستم گر کے
اب بغاوت دوبارہ مچلے گی
اب کے موسم میں درد آیا ہے
اگلے موسم بہار پلٹے گی
شعبدہ باز وقت ہے ایسا
آگ گلزار بن کے مہکے گی
No comments:
Post a Comment