Tuesday, April 20, 2010

کبھی مجھے بھی مقدر پہ ٹال رکھتا تھا


اداس چہروں پہ صبحیں اجال رکھتا تھا
تھکن کے ماروں کی سانسیں بحال رکھتا تھا

محبتوں میں وفا پر یقین تھا اس کو
تنازعات کو وہ کل پہ ٹا ل رکھتا تھا

لیے ہے ریت ارادوں کی اپنے ہاتھوں میں
جوپربتوں سے بھی اونچے خیال رکھتا تھا

تھکا دیا تری عادت نے وہ جفاکش بھی
جو روٹھ کر بھی نظر میں جمال رکھتا تھا

دبک کہ بیٹھ گیا گود میں اندھیروں کی
جو اپنے سر پہ چراغوں کے تھال رکھتا تھا

کبھی کبھی تو جھگڑتا تھا ساری دنیا سے
کبھی مجھے بھی مقدر پہ ٹال رکھتا تھا

ہزار حصوں میں تقسیم ہو گیا آخر
قصور یہ کہ میں سب کا خیال رکھتا تھا

No comments:

Post a Comment