اداس چہروں پہ صبحیں اجال رکھتا تھا
تھکن کے ماروں کی سانسیں بحال رکھتا تھا
محبتوں میں وفا پر یقین تھا اس کو
تنازعات کو وہ کل پہ ٹا ل رکھتا تھا
لیے ہے ریت ارادوں کی اپنے ہاتھوں میں
جوپربتوں سے بھی اونچے خیال رکھتا تھا
تھکا دیا تری عادت نے وہ جفاکش بھی
جو روٹھ کر بھی نظر میں جمال رکھتا تھا
دبک کہ بیٹھ گیا گود میں اندھیروں کی
جو اپنے سر پہ چراغوں کے تھال رکھتا تھا
کبھی کبھی تو جھگڑتا تھا ساری دنیا سے
کبھی مجھے بھی مقدر پہ ٹال رکھتا تھا
ہزار حصوں میں تقسیم ہو گیا آخر
قصور یہ کہ میں سب کا خیال رکھتا تھا
No comments:
Post a Comment