Wednesday, January 26, 2011

جب سے نکلا ہو اس گلی سے میں

جب سے نکلا ہو اس گلی سے میں
راستہ بھولنے کی عادت ہے

دل ناداں کے شوق اپنی جگہ
حسن کی اپنی اک روایت ہے

Thursday, January 20, 2011

مسکراہٹ

مسکراہٹ سے دیکھ لیتے ہو
مسکراہٹ میں بات کرتے ہو
مسکراتے ہی دھیرے دھیرے سے
ہم کو یوں لاجواب کرتے ہو
نرم پلکوں سے بند ہونٹوں تک
ایک رشتہ ہے مسکراہٹ کا
ان کہی ان سنی سی آہٹ کا
بس ایک رشتہ ہے مسکراہٹ کا

ایک لمحا جو قضا ہو گیا

ایک لمحے کو سوچتا رہتا ہوں
ایک لمحے کو کوستا رہتا ہوں
ایک لمحہ جو خطا ہو گیا
ایک لمحا جو قضا ہو گیا

انجینیر خرم

Saturday, January 15, 2011

ہم تو وہ سیارے ہیں

ہم تو وہ سیارے ہیں
جو رہ سکیں مدار میں
نہ چل سکیں قظار میں
یہ لا ابالی عادتیں
یہ جذب ِ دل کی حالتیں
ڈگر ڈگر گھمائیں گی
نگر نگر رلائیں گی
کہ کوئی بھی کشش ہمیں
نہ رکھ سکے گی دیر تک
کہ کوئی بھی نظر ہمیں
نہ چکھ سکے گی دیر تک
فطرت مزاج کا
کوئی کیا بگاڑ لے
دل کے اضطراب کی
کوئی کیا دوا کرے
کیا کہیں کہ کس لیے
اس قدر اداس ہیں
بے وجہ ہی خوش ہوئے
بے وجہ اداس ہیں
نہ چل سکیں خلاف ہی
نہ جی لگے ہے پیار میں
ہم تو وہ سیارے ہیں
جو رہ سکیں مدار میں
نہ چل سکیں قظار میں

Friday, January 14, 2011

خواب ہی خواب بھرے ہیں مرے خالی تن میں

ساحلی ریت پہ تصویر بناتا کیوں ہے
کارِ بے کار میں یہ عمر گنواتا کیوں ہے

خواب ہی خواب بھرے ہیں مرے خالی تن میں
اس قدر شوق سے آنکھوں کو ملاتا کیوں ہے

Monday, January 3, 2011

ہم لوگ کدھر جائیں

اس عقل کی دنیا میں
سب لوگ سیانے ہیں
سب دیکھ کے چلتے ہیں
سب سوچ کے کہتے ہیں
لیکن اسی دنیا میں
کچھ ہم سے جنوں پیشہ
جو پیار کے شیدائی، جو عشق میں سودائی
یہ لوگ کدھر جائیں
اس ظاہری دنیا میں
سب روگ ہیں جسموں کے
جو دل نے سنبھالے ہیں
وہ روگ کدھر جائیں
ہم لوگ کدھر جائیں

Saturday, January 1, 2011

زندگی کے سودوں میں

زندگی کے سودوں میں
احتیاط لازم ہے
زندگی کو عادت ہے
دوہری چال چلنے کی
ہم سے سادہ لوحوں سے
ہیر پھیر کرنے کی
ایک بار میں نے بھی
بہت مہنگے نرخوں میں
روشنی کے رنگوں سا مال کچھ خریدا تھا
گھر میں جا کے دیکھا جب
زیوروں کے ڈبوں میں
روڑیاں تھیں مٹی کی
زندگی کے سودوں میں
احتیاط لازم ہے!

عشق تو ایسے جان میں اترے

عشق تو ایسے جان میں اترے
موتیا جیسے آنکھ میں اترے

عشق اترے تو پھر ٹھہر جائے

عشق تھا تو کہا ں گیا ہے اب
برف جیسا تو عشق ہوتا نہیں
دھوپ پڑنے سے جو پگھل جائے
عمر جیسا بھی عشق ہوتا نہیں
لمحہ لمحہ سا جو گزر جائے
عشق اترے تو پھر ٹھہر جائے
آنکھ میں جیسے کوئی مر جائے