Monday, August 29, 2011

زندہ رہنے میں اب سہولت ہے

آپ کی انکھ میں محبت ہے
مرے فن کی یہی حقیقت ہے
شور کرتا پھروں میں گلیوں میں
کون سمجھے کہ کیا شکایت ہے
زندگی بھر جو ہم سنا نہ سکے
چار لفظوں کی اک حکایت ہے
بات اتنی ہے اور کچھ بھی نہیں
ہم کو تم سے بہت محبت ہے
تیری یادوں نے ہاتھ تھام لیا
زندہ رہنے میں اب سہولت ہے
روح کے اپنے کچھ تقاضے ہیں
جسم کی اپنی اک روایت ہے
زندگی خودبخود چلی جائے
جیسے دریا میں پات تیرت ہے
ہم ہیں انسان کیا غرور کریں
لمحہ لمحہ ہمیں ضرورت ہے
ایک شکوہ ہے مجھ کو لوگوں سے
بہت خود غرض ان کی عادت ہے

Wednesday, August 24, 2011

خواب آتے ہیں کسی اجنبی رہرو کی طرح

زبدگی تیری مسافت کا بھروسہ ہی نہیں
کوئی منزل کوئی چوکھٹ کوئی رستہ ہیں نہیں
خواب آتے ہیں کسی اجنبی رہرو کی طرح
ہم بھی عاشق تھے کبھی اب تو یہ لگتا ہیں نہیں
ایک بس شور ہے لفظوں کا وفا بھی اپنی
سچ تو یہ ہے تجھے دل  سے کبھی چاہا ہی نہیں
ہم کو عادت ہے محبّت میں پڑے رہنے کی
ہجر کے درد کے بن اپنا گزارا ہی نہیں
تیری فرقت ہی مداوا ہے دلِ وحشی کا
وصل کی قید تو ظالم کو گوارا ہی نہیں
بے نیازی ہے خماری ہے کہ مایوسی ہے
اب کسی شے کا طبیعت کو تقاضا ہی نہیں
کوئی تمہید تعارف نہ خلاصہ اس کا
عمر کا کھیل کسی شخص نے سمجھا ہی نہیں

Monday, August 22, 2011

ایک مدّت سے مجھے وہم ہے زندہ ہوں میں

اک جھلک دیکھ لوں تم کو تو یقیں آجائے
ایک مدّت سے مجھے وہم ہے زندہ ہوں میں

Saturday, August 20, 2011

اکثر یہی سوچا ہم نے

تیری یاد آئی تو اکثر یہی سوچا ہم نے
کیسے ہوتے ہوں گے وہ لوگ جو مل جاتے ہیں

Friday, August 19, 2011

چاند کہا تھا تمہیں

چاند کہا تھا تمہیں
سو چاند ہی ہو گئے
ہماری پہنچ سے دور
آسمانوں میں
ستاروں کے بیچ
سر اٹھا کے دیکھوں
تو پگڑی گر جائے

Wednesday, August 17, 2011

حسن والے تیری نازش پہ ہنسی آتی ہے

زندگی تیری نوازش پہ ہنسی آتی ہے
رونے والوں کو جوں بارش  پہ ہنسی آتی ہے
ہیں کہاں اپنے نصیب ایسے کہ مل پائیں ہم
آنکھ کو خواب کی سازش  پہ ہنسی آتی ہے
اس زمانے میں محبت کا تقاضا ہے اسے
دل کی معصوم سی خواہش  پہ ہنسی آتی ہے
اک نظر میں ہی تری عمر کا سودا ہو گا
حسن والے تیری نازش  پہ ہنسی آتی ہے
کاسہ جب ٹوٹ گیا ہے تو جواب آیا ہے
یار کی چشمِ نوازش  پہ ہنسی آتی ہے

Thursday, August 11, 2011

کیوں پھر سے۔۔۔۔۔

ہماری آنکھوں میں مر چکے ہیں
تمہاری چاہت کے خواب سارے
سلگ سلگ کے ہی بجھ گئے ہیں
عقیدتوں کے چراغ سارے
بکھر چکے ہیں گلاب سارے
فقط ہے یادوں کی راکھ باقی
محبتوں کا زوال باقی
لٹی پڑی ہے قبا غزل کی
بجھی ہوئی ہے چتا بھی دل کی
کیوں پھر سے الفت بڑھا رہے ہو
مرے ہو ئو ں کو  جگا رہے ہو

ہم نے سو بار تری طرف اچھالا دل کو

کبھی اوقات سے زیادہ نہیں ملتا دل کو
بس اسی بات کا دیتے ہیں دلاسہ دل کو
نامکمل سا کوئی خواب اسے چاہیے تھا
تو جو بچھڑا تو ترے خواب نے پالا دل کو
موت آتی ہے تو وہ آ کے جگا دیتا ہے
اس محبت نے مصیبت میں ہے ڈالا دل کو
تو نے بھولے سے جو اک بار ہمیں دیکھ لیا
ہم نے سو بار تری طرف اچھالا دل کو
ہائے وہ مل جاتا تو کس طور سے جیتے ریحان
اس تجسس نے تو بے چین ہی رکھا دل کو

ترے دیار کے لوگوں کو راس کچھ بھی نہیں

طلب ہے سات سمندر کی پیاس کچھ بھی نہیں
ترے دیار کے لوگوں کو راس کچھ بھی نہیں
سنبھالے پھرتے تھے اک خواب کتنے برسوں سے
جو آج آنکھوں میں جھا نکا تو پاس کچھ بھی نہیں
دبی دبی سی تمنا بھلا جیے کب تک
گھٹن میں قید میں جینے کی آس کچھ بھی نہیں
تمہیں  بھی سیکھنا ہو گا یہ زندگی کا اصول
جو مل گیا ہے وہی ہے ، قیاس کچھ بھی نہیں
اسے گنوا کے بھی جیتے ہیں کیا عجب ہے ریحان
جسے یہ کہتے تھے تم بن حواس کچھ بھی نہیں