Sunday, January 31, 2010

سایہِ بے نشان کی صورت

سایہِ بے نشان کی صورت
تو بھی ہے آسمان کی صورت

پھول تو پھول خار تک بھی نہیں
میں ہو ں چٹیل میدان کی صورت

مجھ میں پھولوں کی فصل بونے کو
تو کبھی آ کسان کی صورت

آب ہی آب پھر بھی پیاسا ہوں
ذات میری ڈھلان کی صورت

خود کلامی میں ساتھ دیتا ہے
دل ہے خالی مکان کی صورت

کون جانے ہوائوں کے تیور
پیار پہلی اڑان کی صورت

ریت ہی ریت کر دیا غم نے
میں کًبھی تھا چٹان کی صورت
 

Bahar Pattern: =* - = = / - = - = / = =

Bahar Name: خفیف مسدّس مخبون محذوف مقطوع

Friday, January 29, 2010

جہاں میں عشق نہ کرتے تو اور کیا کرتے

جہاں میں عشق نہ کرتے تو اور کیا کرتے
اور عشق زخم نہ بنتے تو اور کیا کرتے

ہماری رات کی قسمت میں چاندنی کب تھی
چراغ بن کے نہ جلتے تو اور کیا کرتے

گنوا کے چاند زمانے کی سرد راتوں میں
نہ جگنئوں سے بہلتے تو اور کیا کرتے

شمع کے نور نے لِلہ بھلا دیے رستے
پتنگے جل کے نہ مرتے تو اور کیا کرتے

زہر کھلا کے مجھے آج یہ کہا اس نے
ہم ایسے ناگ نہ ڈستے تو اور کیا کرتے

نصیب جیتنا چاہا نہ جیت پائے ہم
ہوا کے ساتھ نہ چلتے تو اور کیا کرتے

حوالے کر دیا خود کو وفا کے شعلوں کے
جلا کے راکھ نہ کرتے تو اور کیا کرتے

Bahar Pattern: - = - = / - - = = / - = - = / = =
Bahar Name: مجتث مثمّن مخبون محذوف مقطوع

محبت طوق بن جائے تو کیا آخر کیا جائے

محبت طوق بن جائے تو کیا آخر کیا جائے
اتاریں تو یہ دل روئے ، پہن لیں تو یہ جاں جائے

اداسی تم پہ سجتی ہے ، اداسی میں جیئے جائو
جسے ہو شوق ڈھولک کا وہ چوٹوں سے نہ گھبرائے

وہ ناگن ہے، یہی سچ ہے، حسن بھی ہے زہر بھی ہے
مگر یہ عشق ضدی ہے، جو ہو جائے سو ہو جا ئے

رسم ہے یہ تو دنیا کی، طلب میں ہی فنا ہونا
جلے جائو اے پروانوں، شمع جب تک جلے جائے

تجھے کھو کر بھی ایسے تھے، تجھے پا کر بھی ایسے ہیں
جتن سارے ہی کر ڈالے، مقدر نہ بدل پائے

زہر پی پی کے جوگی نے، زہر خود کو ہی کر ڈالا
کہ اب جو ناگ کا ٹے تو وہیں پہ بھسم ہو جاَئے

Bahar Pattern: - = = = / - = = = / - = = = / - = = =
Bahar Name: ہزج مثمّن سالم





گلاب چہرہ، اداس آنکھیں

گلاب چہرہ، اداس آنکھیں
ہونٹ دریا ، پیاس آنکھیں

نہ جانے کس کا نصیب ہیں یہ
دیا سی جلتی ، سپاس آنکھیں

پلک جو جھپکیں تو روح میں اتریں
ہیں کیسی مردم شناس آنکھیں

حیا کے پردے انہی کے دم سے
حجاب آنکھیں، لباس آنکھیں

ہم عام لوگوں، کی عام نظریں
یہ خاص بہت ہی خاص آنکھیں

Bahar Pattern: - = - / = = / - = - / = = / - = - / = = / - = - / = =
Bahar Name: متقارب مثمّن مضاعف مقبوض اثلم

اب نہ غم کا یہ سلسلہ ٹوٹے

اب نہ غم کا یہ سلسلہ ٹوٹے
سانس ٹوٹے تو ہر گلہ ٹوٹے

ایسے ٹوٹیں زمین کے رشتے
جیسے پانی پہ بلبلہ ٹوٹے

جیت اور ہار اب بھلا کیسی
تجھ پہ آ کر مقابلہ ٹوٹے

پہلے نگلیں زہر بڑے دل سے
درد اٹھے تو حو صلہ ٹوٹے

پھر کسی سے ہو کیا گلہ ریحان
اپنے ہاتھوں سے جب کلہ ٹوٹے

Bahar Pattern: =* - = = / - = - = / = =
Bahar Name: خفیف مسدّس مخبون محذوف مقطوع


بیگانہ مان ہی لو گے بالآخر

بیگانہ مان ہی لو گے بالآخر
مجھے تم ہار ہی دو گے بالآخر

بھگائے گا مقدر تم کو اتنا
تھکن سے بیٹھ جائو گے بالآخر

لکھا جتنا بس اتنا ہی ملے گا
یہی اک بات کہہ دو گے بالآخر

تمہارا وصل بھی ہے اک تجارت
خسارا دیکھ بھاگو گے بالآخر

میں کہ بکتا رہا ہوں قسطوں قسطوں
مجھے یکبار بیچو گے بالآخر

بہت کم دام لائے ہو اے گاہک
مجھے کوڑی میں تولو گے بالآخر

مہاجن ہو محبت کےتم ایسے
کفن تک بیچ ڈالو گے بالآخر


Bahar Pattern : - = = = / - = = = / - = =
Bahar Name: ہزج مسدّس محذوف

Wednesday, January 27, 2010

زلفِ درازِ یار کا سایہ ہے آج بھی


زلفِ درازِ یار کا سایہ ہے آج بھی
پہلا ملن تو سوچ پہ چھایا ہے آج بھی

جھٹکا دیا یوں زلف کو کہ وقت تھم گیا
پل وہ ادا کا دل نے تھمایا ہے آج بھی

کھل کر جو زلفیں بکھریں تو آنگن میں رات ہوئی
دھوکے میں ماہتاب یہ آیا ہے آج بھی

ایسی دراز زلفیں کہ دیکھی نہیں کہیں
برسوں کے فاصلوں سے سلایا آج بھی

کافر یہ عمر تھی جو ترا روپ کھا گئی
میرے لیئے تو ویسے کا ویسا ہے آج بھی

یہ تازگی یہ سادگی اللہ یہ بانکپن
اس زلف نےجناب تھکایا ہے آج بھی

Bahar Pattern : = = - / = - = - / - = = - / = - =
Bahar Name: مضارع مثمّن اخرب مکفوف محذوف


اشک آنکھوں میں کھیلتا ہو گا

اشک آنکھوں میں کھیلتا ہو گا
چوٹ لگنے سے گر پڑا ہو گا


روتے روتے ہنسا ہوگا کوئی
ہنستے ہنستے ہی رو دیا ہو گا


آج جنت بھی دیکھ لی ہم نے
اس سے آگے اب اور کیا ہو گا


انتہا وصل کی ہجر ہی ہے
سوچ کر کچھ تو وہ گیا ہو گا


گول چکر سی قید ہے دنیا
کون جانے کہاں رہا ہو گا


Bahar Pattern : =* - = = / - = - = / = =

Bahar Name: خفیف مسدّس مخبون محذوف مقطوع












آرزو آپ کی ہم نے کی



آرزو آپ کی ہم نے کی
پاپ تھا جرم تھا بھول تھی


نیند کی گود میں ہے سکون
 یہ بھی تو ہے بہن موت کی


روح کی بے کلی سوز ہے
رات بھی چاند بھی آپ بھی

آپ کو جیت کر کیا ملا
ہم سے تقدیر نہ ہر سکی

ہاتھ کو تھام کر ہاتھ میں
ہاتھ پہ لکھ دیا آخری






Bahar Pattern: = - = / = - = / = - =
Bahar Name: Self Devised



عادتاً ہی گنہ نہیں کرتے


عادتاً ہی گنہ نہیں کرتے
ورنہ خوفِ خدا نہیں رکھتے

رہنما کر لیا جبلّت کو
سب رواجوں سے دشمنی کر کے

چکھ کے دیکھی شراب اچھی لگی
روٹھ کر سب سے اب کدھر جاتے

اتنے مایوس ہو گئے فلک سے
نیکی کا حوصلہ نہیں رکھتے

تم نئے ہو وفا کرو دل سے
ہم نے دیکھا ہے ایسا بھی کر کے

Bahar Pattern : =* - = = / - = - = / = =
Bahar Name: خفیف مسدّس مخبون محذوف مقطوع

پتھر سے چھو گئے تھے، کہ پتھر ہی ہو گئے


پتھر سے چھو گئے تھے، کہ پتھر ہی ہو گئے
اس بت کدے میں آئے، تو کافر ہی ہو گئے

وعدہ، وفا خلوص، تو رکھتے تھے آپ بھی
اب آپ کو یہ کیا ہوا منکر ہی ہو گئے

وہ حسن نازنیناں کہ مر مر سا آئینہ
اندر سے چکھ کہ دیکھا، تو کلر ہی ہو گئے

ساون خفا خفا ہے اداسی کی دھوپ سے
دن رات نیناں برسے کہ بنجر ہی ہو گئے

اب درد آئے جائے کہ ہم کو خبر نہیں
دنیا ہی چھوڑ دی اور باہر ہی ہو گئے

 
Bahar Pattern : = = - / = - = - / - = = - / = - =

Bahar Name: مضارع مثمّن اخرب مکفوف محذوف


اس کے ہاتھوں میں تصویر نئی دیکھی ہے


اس کے ہاتھوں میں تصویر نئی دیکھی ہے
زلف کے قیدی نے زنجیر نئی دیکھی ہے


پھر وہی عالم خواب ہے بہکا بہکا
دیکھنے والے نے تعبیر نئی دیکھی ہے

تھا کھلونوں کا شوقین تو وہ بچپن سے
یہ بہلنے کی تدبیر نئی دیکھی ہے


جان کہنا محبت میں روایت ہے
اس دوانے نے توقیر نئی دیکھی ہے


ہم تو واقف ہیں خوابوں کے سرابوں سے
میرَے بچوں نےیہ بھیڑ نئی دیکھی ہے

Bahar Pattern : =-= = / -= = - / - = = / = =
Bahar Name: Self Devised


جب سے ہم تیری محبت میں پڑے ہیں کافر



جب سے ہم تیری محبت میں پڑے ہیں کافر
زخم بیلوں کی طرح تن پہ بلے ہیں کافر


شمع کی لو سے جو آتی ہے لہو کی خوشبو
ہم سے پہلے بھی کئی جل کے مرے ہیں کافر


ہنستی آنکھوں کو تو رونے کا سلیقہ کب تھا
سارے آنسوتیرے ہی دکھ میں بہے ہیں کافر


ایسے روتے ہیں کہ دھرتی کا بھی دل پھٹتا ہے
عشق والے تو نصیبوں کے جلے ہیں کافر


ہم نے دیکھا ہے محبت میں وفا کا حاصل
ہاتھ خالی سر ندامت سے جھکے ہیں کافر


اب تو رونے پہ بھی ہسنے کا گماں ہے ریحاں
درد الفت کے یہ ایسے ہی نشے ہیں کافر


Bahar Pattern : = - = = / = - = = / = - = = / = =
Bahar Name: رمل مثمّن مقطوع

خواب تیرے ہیں سات میں کوئی


خواب تیرے ہیں سات میں کوئی
دل میں کوئی ہے ہات میں کوئی

باورا دل ہیں بےلگام ایسا
سوچ میں تو ہے بات میں کوئی

زندگی نے لکھا تھا نام ترا بحر
گھس گیا میری ذات میں کوئی

تشنگی اب بھلا مٹے کیسے
ہونٹ میرے فرات میں کوئی

ایسی نظروں کا کیا کیا جائے
سامنے کوئی گھات میں کوئی

Bahar Pattern: =* - = = / - = - = / = =
Bahar Name: خفیف مسدّس مخبون محذوف مقطوع

مرے ہم سفر ، مرے ہم نفس


مرے ہم سفر ، مرے ہم نفس
مری بات سن، مجھے مار دے
میں عجیب طرح کا شخص ہوں
تری زندگی کا میں قفس ہوں
مجھے زندگی سے نکال دے
مری بات بات میں آنسو
مرا سانس سانس زہر بھرا
میں بد شگون ہوں اس قدر
کہ جو بھی مرے گلے لگا
وہ تڑپ تڑپ کے مر گیا
سبھی کوتوال ترے شہر کے
مجھے مار مار کے ہار گئے
سبھی ٹوٹکے اس جہان کے،
مجھے صحت یاب نہ کر سکے
میں لاعلاج، میں سبز قدم
میں نے زہر تک نگل لیا
پر اتنا بدنصیب تھا
مجھے موت نے بھی جھٹک دیا
قبل اس کےکہ ترے ہاتھ میں
مرا ہاتھ لکیر کھینچ دے
قبل اس کے کہ ترے خون میں
مرا قرب زہر اتار دے
میں پاوں چھوتا ہوں آپ کے
مجھے ایک احسان ادھار دے
مرے دل میں خنجر اتار دے
مرے دل میں خنجر اتار دے
مرے ہم سفر ، مرے ہم نفس
مری بات سن، مجھے مار دے

کیسی مصیبت ہوچکی باخدا


کیسی مصیبت ہوچکی باخدا
آپ سے نفرت ہوچکی باخدا

رب سے بھی اب ڈر نہیں لگتا مجھے
سرکشی عادت ہوچکی با خدا

جھوٹ بہے تن میں لہو کی طرح
کھوٹی طبیعت ہوچکی باخدا

لوگو ڈرائو نہ مجھے حشر سے
کب کی قیامت ہوچکی باخدا
ا
یسے بٹی ذات مری ٹکڑوں میں
رسوا شناخت ہو چکی باخدا

Meter Pattern: = - - = / = - - = / = - =
Bahar Name: سریع مسدّس مطوی مکسوف



Monday, January 25, 2010

خشک پتھروں پہ گھاس نہیں اگتی


میں وہ کوہکن کہ جس کو
خشک پتھروں پہ
گھاس اگانے کا شوق تھا
مگر یہ پتھر میرے تیشے سے ایسے الجھے
مرے ارادوں سے ایسے جھگڑے
کہ ّمیری جاًن تک لے گئے
بے گوروکفن لاش میری
گم کردہ راہوں میں کھو گئی ہے
اور میرا شوق مجھے چڑا کر
تیرے قالب میں گھس گیا ہے
او میرے جیسے! جذبات کے مارے
یہ شوق پھر سے نہ سر اٹھا لے
یہ شوْق تجھ کو نہ مار ڈالے
خشک پتھروں پہ گھاس نہیں اگتی


کچھ نہ بولاہزار پوچھا


کچھ نہ بولاہزار پوچھا
وہ رویاجتنی بار پوچھا

ہم کو مانگا خدا سے اس نے
ہم سےنہ ایک بارپوچھا

ہم کس کے ہیں یہ کون جانے
تو نے ہم سے نہ یا ر پوچھا

اس نے سوچا ذہن سے لوگو
جب دل پہ اختیار پوچھا

کہ قادر عقل کو بناکر
دل سے دھڑکن کا بار پوچھا

Bahar Pattern : = = = /= - = / - = =
بحر: ہزج مسدّس اخرم اشتر محذوف

سب کچھ گنوا کر رستے میں جاناں


سب کچھ گنوا کر رستے میں جاناں
پہنچے ہیں تیرے کوچے میں جاناں

میری خطا نہ تیری خطا ہے
قسمت نے رکھا دھوکے میں جاناں

ہیں ہاتھ خالی، سر بھی جھکا ہے
رکھ لو، جھٹک دو، ایسے میں جاناں

میری انا نے، تیری انا نے
چاہت کو رکھا، پردے میں جاناں

دل کوٹٹولو ، پہلو تو بدلو
اک بار جھانکو سینے میں جاناں

ہم کو یقیں ہے، اب بھی تری شب
رکھتی ہے ہم کو تکیے میں جاناں

حرف غلط تھا، جو بھی تھا پہلے
اب نام تیرا ہر شےمیں جاناں

Bahar Pattern: = = / - = = // = = / - = =
بحر: متقارب مثمن اثرم

میری طرح کا کوئی تھا، میرا جنم نہ ہو سکا

میری طرح کا کوئی تھا، میرا جنم نہ ہو سکا
اس زندگی کا اے خدا، مجھ کو فہم نہ ہو سکا

دن رات ان آنکھوں میں دریا ہی امڈتےدیکھے ہیں
اتنا زیادہ رو کے بھی،یہ رونا کم نہ ہو سکا

جو مل گیا سو مل گیا، جو کھو دیا سو کھو دیا
ملنے پہ خوش نہ ہو سکے، کھونے کا غم نہ ہو سکا

جیون کے سارے فیصلے، دل کے کہے پہ کر دیے
خود پہ ستم تو ہو گیا، دل پہ ستم نہ ہو سکا

بس ایک ہے احساں ترا، اپنے مریض عشق پر
کہ ہجر ہو یا وصل ہو، یہ درد کم نہ ہو سکا

اس وصل نے وہ دکھ دیے، کہ ہجر سن کے رو دیا
تیرے ستم تو سہ گیا، تاب کرم نہ ہو سکا

Bahar Pattern: = = - = / = = - = / = = - = / = = - =
بحر: رجز مثمّن سالم


دل پر غبار غم ہے جیسے دھواں سا چھا ئے


دل پر غبار غم ہے جیسے دھواں سا چھا ئے
اللہ کا کوئی بندہ، جائے شراب لائے

تیرے سبو میں ساقی، اب وہ نشہ نہ باقی
ساری الٹ گئے ہم ، پر سیر ہو نہ پائے

ہردلفگار الفت، تیرے جہاں میں یا رب
بس بے دلی سے ٹھہرے، اور بےدلی سی جائے

نفرت کہاں کہ تیری، تو دوستی بھی آفت
جو بچ گئے ستم سے ، تیرے کرم نے ڈھائے

اک حسن ناز اور پھر ساقی گری کا عالم
وہ روز پوچھتا ہے، یہ دل بہک نہ جائے

Bahar Pattern: = = - / = - = = // = = - / = - = =
بحر: مضارع مثمّن اخرب

پیغام ترا آیا، صدیوں کی مسافت میں


پیغام ترا آیا، صدیوں کی مسافت میں
حیران بہت ہوں میں، اس وقت عنایت میں

ست رنگا تماشا ہے، اے یار محبت بھی
دل اور کے پہلو میں، آنکھ آپ کی سنگت میں

آنکھوں نے تری آنکھیں سو سال میں سمجھیں ہیں
اب تیرا یوں ملنا ہم، سمجھیں گے قیامت میں

سنتے ہیں جہاں والے، افلاک سے ڈرتے ہیں
ہم نے تو گزاری ہے اک بت کی عبادت میں

اب نور زمانے سے شکوہ نہیں کرتے ہم
جو سمجھے نہ منطق کو، کیا پائیں شکایت میں

Bahar Pattern: = = - / - = = = // = = - / - = = =
بحر: ہزج مثمّن اخرب



جان جیسا تھا جو ابھی بچھڑا

جان جیسا تھا جو ابھی بچھڑا
زندگی سے ہے پھر کوئی بچھڑا

ہم نے مانگا تھا سا تھ سا ئے کا
وہ بھی سورج کے ساتھ ہی بچھڑا

چاندنی جیسے چاند سے بچھڑے
ایسے مجھ سے وہ آدمی بچھڑا

خوشبو بکھری تھی پھول سے کل تو
آج ٹہنی سے پھول بھی بچھڑا

پہلے اس کا خیال زندہ تھا
رفتہ رفتہ خیال بھی بچھڑا


Bahar Pattern: =* - = = / - = - = / = =
بحر: خفیف مسدّس مخبون محذوف مقطوع


ترے کوچے میں آتے ہیں، تجھے دیکھا نہیں کرتے


ترے کوچے میں آتے ہیں، تجھے دیکھا نہیں کرتے
"(جسے شفاف رکھنا ہو، اسے میلا نہیں کرتے)"

محبت تم سے کرتے ہیں، تقاضا کچھ نہیں کرتے
کہ چاہت میں عنایت کو، کبھی تولا نہیں کرتے

تجھے سوچا تو ہے ہم نے، تجھے مانگا نہیں رب سے
کہ جس کو قید کرنا ہو، اسے چاہا نہیں کرتے

تو ٹھکرائے تو ہم خوش ہیں، تو مانگے تو ہیں ہم حاضر
جو پلکوں پہ بٹھایا ہو ، اسے باندھا نہیں کرتے

وہ زلفیں اب بھی الجھی ہیں، کبھی ہم پر جو پاگل تھیں
انا جن میں سما جائے، وہ کچھ پایا نہیں کرتے


Bahar Pattern: - = = = / - = = = / - = = = / - = = =
بحر: ہزج مثمّن سالم




ہے زاد سفر پاس نہ منزل کا پتہ ہے


ہے زاد سفر پاس نہ منزل کا پتہ ہے
جو پیڑ گھنا دیکھا وہیں سانس لیا ہے

جب اس نے پکارا تھا تو ہم لوٹ نہ پائے
اب لوٹ کے آئے ہیں تو وہ جا بھی چکا ہے

یوں دل سے اتر جائو گےسوچا بھی نہیں تھا
یہ فیصلہ دل کا نہیں قسمت کی قضا ہے

بولی یوں لگائیں کہ خریدار ہیں ہم ہی
جیبوں میں ذرا دیکھو تو آنا نہ ٹکا ہے

مانگا مجھے رب سے تھا تو مجھ کو تو بتاتے
اب رب سے کرو شکوہ کہ میری کیا خطا ہے

کھولے ہوئے بانہیں ہیں کھڑے راہگزر پر
جوساتھ چلے اپنے یہ دل اسکا ہی ہوا ہے

صدیوں کی تھکن لائے ہیں ساقی ترے در پر
دہلیز پہ سو جانے دے مت پوچھ کہ کیا ہے


Bahar Pattern : = = - / - = = - / - = = - / - = =
بحر: ہزج مثمّن اخرب مکفوف محذوف



دل سرابوں کے خار زاروں میں


دل سرابوں کے خار زاروں میں
عقل سودوزیاں کے ماروں میں

درد کی فصل بوئے جاتے ہو
درد بکتا نہیں بازاروں میں

خواہشیں جان لے کے مرتی ہیں
خواب جلتے ہیں پھر مزاروں میں

ہم نے جگنو سے روشنی مانگی
چاند روتا رہا ستاروں میں

زندگی کوئی آس دے دل کو
قید ھے سینے کی دیوا روں میں

شاعری ہی تو اک سہارا ہے
آس کے بےریا سہاروں میں


Bahar Pattern: =* - = = / - = - = / = =
بحر: خفیف مسدّس مخبون محذوف مقطوع

ضبط کرنا ہی پڑے گا اب تو


ضبط کرنا ہی پڑے گا اب تو
وقت ایسے ہی کٹے گا اب تو

آگ گلشن کو لگائی خود ہی
آشیاں جل کے رہے گا اب تو

دل ہے کہ اینٹ جڑی سینے میں
دل کا نہ بو جھ اٹھے گا اب تو

سانس صر صر کی ہوا ہو جیسے
نخل جاں کٹ کے گرے گا اب تو

درد کا شکوہ کرو گے کن سے
درد سہنا ہی پڑے گا اب تو

درد کا لاوا بھرا ہےتن میں
ہے قضا پاس پھٹے گا اب تو

Bahar Pattern: =* - = = / - - = = / = =
بحر: رمل مسدّس مخبون محذوف مقطوع

کل کی شام کا نشہ، اب رہے گا عمر بھر

کل کی شام کا نشہ، اب رہے گا عمر بھر
پھول جو بھی کھل گیا، مہک دے گا عمر بھر

ہم نہیں ہیں جادوگر، ہم کو ہے، یقیں مگر
ایک بار جو ملا، وہ ملے گا عمر بھر

انگلیوں کی پور سے انگلیوں کو یوں چھوا
حدت جنون سے، تن جلے گا عمر بھر

شیخ جی تمہیں پتہ سچ ہے کیا جھوٹ کیا
دل ہمارا رہنما ، جو بھی کرے گا عمر بھر

مفت لا، شراب لا، لاپلا، پلائے جا
ساقیا یہ رند ترا کب جئے گا عمر بھر؟



Bahar Pattern : = - = / - = - = // = - = / - = - =
بحر: ہزج مثمّن اشتر مقبوض

یہ معجزہ بھی اگر ہو ، کہ وہ یہاں آئے

یہ معجزہ بھی اگر ہو ، کہ وہ یہاں آئے
جو شخص کھو چکا خود کو، وہ کیا اسے پائے

گزر گئے ہو تم ایسے، کہ وقت گزرا ہو
مگر یہ یاد تمہاری،کہ بار بار آئے

یہ پھول جیسا بدن ہے، پرے پرے رکھنا
ہماری آگ سے دیکھو، کہیں نہ جل جائے

سجا کے تہمتیں سر پر، اٹھیں گےچل دیں گے
تری قبا پہ جو آئے ، وہ داغ نہ جائے

ہوئے مایوس اجالوں سے اسقدر ریحاں
نگاہیں پھوڑ، اندھیروں میں بھولنے آئے

ًBahar Pattern :  - = - = / - - = = / - = - = / = =

بحر: مجتث مثمّن مخبون محذوف مقطوع

جو بھی بخشا ہے مرے یار سب آ کر لے لو

جو بھی بخشا ہے مرے یار سب آ کر لے لو
خواب سارے سبھی وعدے سبھی منظر لے لو

وصل کی ہو گی ضرورت تو بتا دیں گے ہم
کچے رنگوں کا فریبی سا , یہ پیکر لے لو

ہم ہیں پیاسے تو ہمیں پیاسا ہی رہنے دو پھر
کھارے پانی کا مقدر, یہ سمندر لے لو

ہم کو اپنا ہی نشہ ہوش میں آنے نہ دے
ہم پہ احسان کرو ، مے کا یہ ساغر لے لو

ہم نے بھی آگ لگائی تھی بڑی الفت میں
راکھ ہی راکھ ہے شعلوں کا مقدر لے لو

تم بھی کچھ ڈھونڈنے نکلے ہوو فا میں شاید
خاک ڈالو تھوڑی سر پر ، دل مضطر لے لو


Bahar Patter: =* - = = / - - = = / - - = = / = =
بحر : رمل مثمّن مخبون محذوف مقطوع

عشق کے امتحان میں، ہم تو ناکام ہو گئے


عشق کے امتحان میں، ہم تو ناکام ہو گئے
آنکھیں تھکن سے جھک گئیں، خواب نیلام ہو گئے

کس سے کہیں کہ زندگی، سوچی تھی کیا، ملی ہے کیا
پیار کی وہ سزا ملی، عبرت عام ہو گئے

ہم تھے خدا ترس بڑے، دنیا بدلنے نکلے تھے
رب کی مگر رضا یہ تھی، زہر کا جام ہو گئے

پتھرو ں سے ہے کیا گلہ، ان کی ًبھلا اوقات کیا
حیف پجاریوں پہ ہے، دھوکے کے نام ہو گئے

کچھ بھی بچا نہ زاد راہ، عشق میں سب گنوا دیا
جھاڑ کے پلو یوں اٹھے، مرگ دوام ہو گئے



 
Bahar Pattern:  = - - = / - = - = // = - - = / - = - =
بحر: رجز مثمّن مطوی مخبون

شام ڈھلے جھوٹ سے، صبح چڑھے جھوٹ سے

شام ڈھلے جھوٹ سے، صبح چڑھے جھوٹ سے
جھوٹ بنا موت ہے، سانس چلے جھو ٹ سے

چاند مکر جائیگا، چاندنی سے پوچھ لے
اس لئیے تو چاندنی, رو رو جلے جھوٹ سے

تو جو مرے پاس ہے، جنتو ں کا ساتھ ہے
تیرا ملن ًبھی مگر، مجھ کو ملے جھوٹ سے

سچ کی کہی، جب کبھی، دوستی ٹوٹی تبھی
سچ ہے فسادی بہت ، پیا ر بڑھے جھوٹ سے

دل کو ایماں نہ سکھا، دل بے ایماں ہے بڑا
دل بھی بہل جائیگا، گر تو چلے جھوٹ سے


Bahar pattern: = - - = / = - = // = - - = / = - =
بحر :منسرح مثمّن مطوی مکسوف

امید سفر میں ہے


امید سفر میں ہے

اول اول
گھاؤ جگر کے
بہت بیزار کرتے ہیں
کہ پر کٹے
پنچھی جیسے
قفس پہ وار کرتے ہیں
وقت آخر مرہم ہے
گھاؤ بھرنے لگتا ہے
گھاؤ بھرنے لگتے ہیں
آدمی کی عادت ہے
پھر پیار کرنے لگتا ہے
خواب جننے لگتے ھیں
دل بھی راگی طوطا ہے
قفس کے ماحول میں
کیسی ہی حبس کیوں ہو
راگ چھیڑ دیتا ہے
جیسے عمر قید کا
بدنصیب قیدی
جیل کی سلاخوں میں
جینا سیکھ لیتا ہے
زندگی امید ہے
اور امید سفر میں ہے



Friday, January 22, 2010

کیسی ہے نظر جو خواب بیچے

غزل
کیسی ہے نظر جو خواب بیچے
سونےسا بدن شباب بیچے


میں پاپ کروں ایمان بیچوں
تو نیک ہےتو ثواب بیچے

ساقی یہ ترا نشہ بھی جھوٹا
پیسوں کی تو بھی شراب بیچے

حرصی ہے چمن کا باغباں بھی
کھلنے لگے جب گلاب بیچے

رب جانے حیا بڑی کہ بھوک
جب پردہ نشیں نقاب بیچے
 
Bahar Patter: = = - / - = - = / - = =
بحر ہزج مسدّس اخرب مقبوض محذوف

ماں



نظم - ماں

پیار ہی پیار ہے جو خدا کی طرح
جو مرے چار سو ہے ہوا کی طرح
رات کی گود دن کا دلاسہ ہے جو
سر پہ سایا ہے جس کا گھٹا کی طرح

میری کا ئنات ہے، ہے جو میرا جہاں
ایسی ہے میری ماں، ایسی ہے میری ماں



پھول ہی پھول ہیں اس کے دامن میں جی
ایک کانٹا نہیں اس کے گلشن میں جی
! رب جی تیرا بہت ہی بہت شکریہ
تو نے جنت اتاری ہے آنگن میں جی



جب ہو جنت ہی گھر میں تو جانا کہاں
ایسی ہے میری ماں، ایسی ہے میری ماں



ہم نے دیکھی ہیں در در کی رسوائیاں
بھیڑ میں بھی ملیں دل کو تنہائیاں
لوٹ کر آ گئے تیرے قدموں میں پھر
معاف کرنا ہماری تو ، گمراہیاں



آسماں پہ خدا تو زمیں پہ ہے ماں
ایسی ہے میری ماں، ایسی ہے میری ماں




بحر :- متدارک مثمّن سالم
Bahar Patter: = - = / = - = / = - = / = - =

روٹھ کر بہاروں سے، جا ملے خرابوں سے


غزل
روٹھ کر بہاروں سے، جا ملے خرابوں سے
زندگی الجھنے دے، رات دن سرابوں سے


کم ظرف ناسمجھ جہاں والے، کیا بھلا یہ سمجھیں گے
عشق بھی جو کرتے ہیں، سیکھ کر کتابوں سے

یہ کمال بخشا ہے، تیرے قرب نے مجھ کو
آرزو کرم کی، نہ خوف کچھ عتابوں سے

زندگی سے باغی ہوں، مجھ سے دور ہی رہنا
تم شریف لوگوں کا ، کام کیا خرابوں سے

ساقیا پلائے جا، پیاس ہے مٹا ئے جا
یہ حساب پھر ہو گا، کیا ملا شرابوں سے
 
Bahar Pattern : = - = / - = = = // = - = / - = = =
Bahar Name : hazaj mu;samman ashtar (ہزج مثمّن اشتر)