Wednesday, January 27, 2010

مرے ہم سفر ، مرے ہم نفس


مرے ہم سفر ، مرے ہم نفس
مری بات سن، مجھے مار دے
میں عجیب طرح کا شخص ہوں
تری زندگی کا میں قفس ہوں
مجھے زندگی سے نکال دے
مری بات بات میں آنسو
مرا سانس سانس زہر بھرا
میں بد شگون ہوں اس قدر
کہ جو بھی مرے گلے لگا
وہ تڑپ تڑپ کے مر گیا
سبھی کوتوال ترے شہر کے
مجھے مار مار کے ہار گئے
سبھی ٹوٹکے اس جہان کے،
مجھے صحت یاب نہ کر سکے
میں لاعلاج، میں سبز قدم
میں نے زہر تک نگل لیا
پر اتنا بدنصیب تھا
مجھے موت نے بھی جھٹک دیا
قبل اس کےکہ ترے ہاتھ میں
مرا ہاتھ لکیر کھینچ دے
قبل اس کے کہ ترے خون میں
مرا قرب زہر اتار دے
میں پاوں چھوتا ہوں آپ کے
مجھے ایک احسان ادھار دے
مرے دل میں خنجر اتار دے
مرے دل میں خنجر اتار دے
مرے ہم سفر ، مرے ہم نفس
مری بات سن، مجھے مار دے

No comments:

Post a Comment