Monday, June 30, 2014

میں مجاور ہوں فقط آہ و فغاں کرتا ہوں

میں دیکھتا ہوں تو لگتی ہے اگ سینے میں
کہ کتنے نادرو نایاب گہر سے الفاظ
جنہیں بزرگوں نے صدیوں سجایا ہونٹوں پر
!!!کسی کتاب کسی لغت میں کہیں بھی نہیں

وہ سارے نادر و نایاب گہر سے الفاظ
سمے کے دشت میں سینہ بہ سینہ پلتے رہے
امانتوں کی طرح نسل نسل چلتے رہے

مگر یہ دور نیا کیسا آ گیا جس میں
وہ تار سینہ بہ سینہ کا کٹتا جاتا ہے
ہر ایک گاوں کا نقشہ بدلتا جاتا ہے
مری زبان مرا لہجہ مرتا جاتا ہے

!!!میں سوچتا ہوں تو لگتی ہے اگ سینے میں



قریب مرگ ہے بے آسرا وہ لاوارث
مری زبان مری مادری زبان اے دل


مجھ سے مت پوچھیے تہزیب و زباں کے بارے
میں مجاور ہوں فقط آہ و فغاں کرتا ہوں

پوچھیے ان سے جو متولی ہے قاتل بھی ہیں


Saturday, June 28, 2014

بھوک ظالم ہے سبھی زعم بھلا دیتی ہے

پیٹ خالی ہو تو ہر جرم روا لگتا ہے
بھوک ظالم ہے سبھی زعم بھلا دیتی ہے

پارسائی بھی نبھاتے ہیں فقط اہلِ زر
مفلسی جبر ہے بدکار بنا دیتی ہے

!!!!زندگی تیرے تقاضوں کے سلاسل کی خیر
جب تلک قید ہیں ہر سانس سزا دیتی ہے



Friday, June 27, 2014

یہ بھوک پیاس کی مجبوری مار دے گی تجھے

گر اپنی زندگی جینی ہے رزق پیدا کر
یہ بھوک پیاس کی محتاجی مار دے گی تجھے

لالچ کبھی بقا کا کھی خوف موت کا

  تھی روٹی  آگے آگے تو پیچھے لگی تھی بھوک
اس دوڑ میں ہی گزری ہےاپنی تمام عمر

لالچ کبھی بقا کا کھی خوف موت کا
اپنا ہی سوچتے رہے یعنی تمام عمر

Tuesday, June 24, 2014

نام نہاد جمہوریت

صرف عنواں ہے نیا باقی کہانی ہے وہی
اس کی سلطانی وہی تیری غلامی ہے وہی

یہ جو جمہور ہے ریوڑ ہے کوئی بھیڑوں کا
اندھی تقلید وہی خوف کی لاٹھی ہے وہی

بھیڑوں کے روپ میں کچھ بھیڑیے سرگرداں وہی
 ہانکتا مارتا ہے اک گڈریا پاپی ہے وہی

Thursday, June 19, 2014

کالی وردی والوں کے کرتوت بھی کالے ہوتے ہیں

وہ جو ظلم کماتے تھے شاہ کے پالے نکلے ہیں
کالی وردی والوں کے کرتوت بھی کالے نکلے ہیں

مشورہ


بہتر ہے یو نیفارم بدل ڈالیے کہ اب
نفرت کا استعارہ بنی کالی وردیاں

کل شیر دل جوانوں نے تاریخ رقم کی

کل شیر دل جوانوں نے تاریخ رقم کی
اپنی ہی ماوں بہنوں کی عزت اچھال کے
اب جلیانوالا باغ کو رونا اضآفی ہے
اب ہم بھی خٔد کفیل ہیں اپنی مثال دے

Wednesday, June 18, 2014

وقت سے دور کہیں چلتے ہیں آو صاحب

رات ہو چاند ہو خاموشی ہو تنہائی ہو
اس بھری دنیا میں اتنا بھی میسر نہیں اب
---------------------------------------

 گردشِ شام و سحر کی  یہ غلامی کی ہے
وقت سے دور کہیں چلتے ہیں آو صاحب
چاند کو ساتھ لیے چاندنی خاموشی لیے

خواہش و خواب کے ملبوس نے چھیلا تن کو
بھوک اور پیاس کی تکرار نے مارا من کو
ذمہ داری کبھی آداب کبھی خوفِ خدا
آج سب بار الٹ دیتے ہیں آو صاحب
وقت سے دور کہیں چلتے ہیں آو صاحب
چاند کو ساتھ لیے چاندنی خاموشی لیے


مرے لگان پہ پلتے یہ کوتوال اگر


مرے لگان پہ پلتے یہ کوتوال اگر
مجھے ہی بھونکیں تو لعنت ہے حکمرانِ وقت




نمک حرامی کی تعزیر قاضیو بتلاو

کہ میرے گھر کے محافظ ہی پل پڑے مجھ پر

علم کے نام پہ چلتے ہیں بہت سے دھندے

یقین مانیے انسان خود میں کامل تھا
یوں ہی ذلیل ہوا خواہشات کے ہاتھوں

لباس اور زباں بدلوں جب بھی گھر سے چلوں
میں اپنے ملک میں رہتا ہوں اجنبی کی طرح


علم کے نام پہ چلتے ہیں بہت سے دھندے

ایک کڑوی سی دوائی ہے جسے بیچارے
لوگ ان دیکھے جراثیموں سے ڈر کے مارے
بس نگل جاتے ہیں اور پانی چڑھا جاتے ہیں

ایک شیرینیِ الفت ہے کہ جس کے اندر
نفرت و دشمنی در پردہ ملا دی جائے

ایک اندازِ معیشت ہے کہ جس کے اندر
لالچ و خوف کے حربوں سے کمائیں پیسا

!!!علم کے نام پہ چلتے ہیں بہت سے دھندے



کس کو مجرم کہیں یہ جنگ غلاموں کی تھی

وحشیوں کی طرح لڑتے ہیں خدا کے بندے
ہر کسی کا یہی دعوی ہے خدا اس کا ہے
اور خدا صدیوں سے خاموش تماشائی ہے
فیصلہ کون کرے اس کا، خدا کس کا ہے؟

باندھ اور کھینچ کے لائے تھے عقیدے سب کو
!!!کس کو مجرم کہیں یہ جنگ غلاموں کی تھی

Wednesday, June 11, 2014

بس ایک بار چلے تھے خلاف حکمِ دل

بس ایک بار چلے تھے خلاف حکمِ دل
پھر اس کے بعد کبھی زندگی نہ مل پائی

یہ رکھ رکھاو  یہ رسم و رواج قاتل ہیں

جو اپنے آپ پہ بھاری تھا ایسے بے بس کے
سپرد کر دی مرے دل نے زندگی ساری

اب ایسے اندھے جنوں کا علاج کون کرے


میں چاہتا ہوں صحرا میں چلتا جاوں میں
میں چاہتا ہوں صحرا کبھی بھی ختم نہ ہو

جیو اور جنگ گروپ کی "امن کی آشا" کے نام

 اپنے آنگن میں تیرے آنگن کی
میں نے مٹی ملائی اور اس میں
ایک پودا اگایا چاہت کا
روز انچ انچ قد بڑھا جس کا

دیکھو اب اس پہ پھول آنے لگے
!!!مٹی سانجھی تو پھول بھی سانجھے
انہی پھولوں کی خوشبووں میں بسی
!!!امن کی آشا پھیلتی جائے

کون کس قوم کا ہے وہ جانیں
ہم تو انساں سے پیار کرتے ہیں
ان کو بارود پہ بھروسہ ہے
ہم محبت کا وار کرتے ہیں



جن کی نفرت پہ روزی روٹی ہے
وہ محبت بات کیسے کریں!!!

Monday, June 9, 2014

جینا برائے جینا


جینا برائے جینا

کتنی بے معانی ہے میکانی سی وہ عمر کہ جو
صرف روٹی ہی کمانے میں گزر جاتی ہے

وقعتِ خون بھی ایندھن سے زیادہ نہیں ہے
سانس جتنی ہے جلانے میں گزر جاتی ہے


Saturday, June 7, 2014

بھوک اور ظلم کا مذہب نہ وطن ہے کوئی

بھوک اور ظلم پہ ہی آو اکٹھے ہو لیں
بھوک اور ظلم کا مذہب نہ وطن ہے کوئی

گزر جاتی ہے

کتنی بے معنی ہے میکانی سے وہ عمر کہ جو
صرف روٹی ہی کمانے میں جزر جاتی ہے
خون ایندھن کی طرح بہتا ہے شریانوں میں اور
سانس جتنی ہے جلانے میں گزر جاتی ہے

Friday, June 6, 2014

بند کر دیجیے دروازے بدن کے سارے

بند کر دیجیے دروازے بدن کے سارے
اور کچھ دیر ذرا خود سے شناسا ہوئیے

آنکھ اور کان کی آلودگی پھیلاتی ہوئی
باہری دنیا سے کچھ لمحوں کی رخصت لیجے


ڈوبتے ڈوبتے بچ جاتے کوئی اور کبھی
پار ہوتی ہوئی کشتی کو لہر لے جائے
اب نکل آئے محبت کے علاقوں سے مگر
کون جانے کہ کہاں پھر سے سفر لے جائے

Thursday, June 5, 2014

دیکھنے سے جسے عزت پہ حرف آتا تھا


جون کے نام

پیاس کے مارے ہوئے پھرتے تھے دریا دریا

کیسا پیاسا تھا وہ صحرا کی طرف جاتا تھا

اک نظر دیکھ لیا چلتے ہوئے اس کو بھی
دیکھنے سے جسے عزت پہ حرف آتا تھا

منطق
پیاس کے مارے ہوئے پھرتے تھے دریا دریا
کیسا پیاسا تھا وہ صحرا کی طرف جاتا تھا

درد سانجھا ہوتو مل بیٹھ کے ہلکا کیجے


عشق پہ تکیہ نہ کیجے جو بدن پرور ہو
ظاہری حسن تو پتھر پہ دیکھا ہم نے