Tuesday, December 31, 2013

وہ قاعدے جو الف بے سکھایا کرتے تھے


پرانی کتب کے انبار میں نظر آئیں
وہ قاعدے جو الف بے سکھایا کرتے تھے

Monday, December 30, 2013

غلام قوم کا گمنام سا کوئی شاعر

وہ جانتا ہے بڑھاپا بہت بری شے ہے
اور ایسے حال میں وارث بھی جب کوئی نہیں/ نہ ہو
مگر وہ ضدّی کسی وعدہِ وفا کا اسیر
ضعیف و بے کس و بیمارو مردہ لفظوں کو
اٹھا کے رکھتا ہے کاغذ پہ اور ہونٹوں پر
جگر کا خون چھڑکتا ہے روح پھونکتا ہے
ہر ایک بات میں قصے میں اور کہانی میں
 گھما پھرا کے انہیں کو سخن میں لاتا ہے
غلام قوم کا گمنام سا کوئی شاعر
غلام قوم کا گمنام سا وہ اک شاعر 
جو اپنی مادری بولی سے عشق کرتا ہے

میں جسے ہضم کر نہیں سکتا

میں جسے ہضم کر نہیں سکتا
ایسے رشتے کو کس طرح نگلوں

 وصل تو وصل ہجر بھی نہ رہا
بڑھتا جاتا ہے خالی پن دل میں

اب تو ڈھا دینی چاہیے دنیا

نیلگوں آسمان لگتی ہے
یہ زمیں دور سے کبھی دیکھو
نارسائی میں خوشنمائی ہے
دھول اڑتی ہے چاند پر ورنہ

دشت ناپید ہوتے جاتے ہیں
شورو غل بڑھ رہا ہے روز بروز


ہجر میں وصل کو ترستے تھے
وصل میں ہجر یاد آتا ہے
یہ نظر بھاگتی ہے منظر سے


بے شمار ان کہے سوالوں کو
ذہن میں دم دیے رکھوں کب تک
سوچ میں کچھ ابلتا رہتا ہے

کس قدر کرب ہے ذرا سوچو
میرے چاروں طرف ہے بھیڑ مگر

ایک بھی بالغ الدماغ نہیں



طفلِ ناداں کی سوچ کی حامل
روز بنتی بگڑتی رہتی ہے
کچی مٹی سی بھربھری دنیا


کتنی فرسودہ سی لگے اب تو
جب نئی ہوگی تب نئی ہو گی


اب تو ڈھا دینی چاہیے دنیا










شاعر


جیتے جی مل نہیں سکا اس کو
ایک کونہ خموش اور تنہا
اس لیے جلد مر گیا شاید!!!

Thursday, December 26, 2013

حورم کی آمد پر !!



حورم کی آمد پر !!
تمہارے پیار کو تجسیم کر دیا اس نے
تمہاری گود میں مہمان رب نے بھیجا ہے
ہماری آنکھوں سے شفقت چھلکتی جاتی ہے
ہمارے ہاتھوں میں اے دوست تیرا بچہ ہے!!!!؟؟؟

درد کیکر کی طرح صحن میں اگ آیا ہے

درد کیکر کی طرح صحن میں اگ آیا ہے
دن تو گلیوں میں گزر جاتا ہے شب بھاری ہے

Tuesday, December 24, 2013

زندگی مختصر ہے کیا کیج

جلدی جلدی میں سارے کروں
زندگی مختصر ہے کیا کیجے

سخت ہے موت مانتا ہیں مگر
زندگی سخت تر ہے کیا کیجے


Monday, December 23, 2013

مجھ کو جو لگتا ہے وہ یہ ہے کہ اس دنیا میں

ہر کوئی میری طرح ناخوش ہے
میں یہی سوچ کے خوش ہوجائوں!!؟؟

وہ سب مقابلے ہاروں کہ جن ے جیتنے سے
مجھے لگے کہ میں دنیا سے کچھ الگ سا ہوں

مجھ کو جو لگتا ہے وہ یوں ہے کہ اس دنیا میں
بے یقینی ہے  یقیں اور گماں ایماں ہے
 کچھ بھی حتمی نہیں اور کچھ بھی یقینا نہیں ہے
مجھ کو جو لگتا ہے وہ یوں ہے کہ اس دنیا میں
مادی اشیا کی طرح سوچ سے ایجاد ہوئی
نظریات اور عقیدوں کی وہ جبری خوراک
جس کو ہر شخص نگلتا ہے دوائی کی طرح
مجھ کو جو لگتا ہے وہ یوں ہے کہ اس دنیا میں
چند افراد نے کچھ ذاتی مقاصد کے لیے
سادہ دل لوگوں کو کو لڑنے پہ لگا رکھا ہے
سرحدوں نفرتوں قوموں کا سہارا لے کر

Friday, December 20, 2013

منافقوں کے لیے بہترین ہے دنیا

عقاب جان سے مارے کہ ادھ موا چھوڑے
کوئی بھی بن میں مددگار فاختہ کا نہیں
اصولِ زیست ہے! کمزور ظلم سہتا ہے


ہیں ہاتھ خونی مگر لوگ جھک کے چومتےہیں
سیاہ شملہ مگر پھر بھی سب سے اونچا ہے
ہمارے ماضی و باطن کوکون دیکھتا ہے
منافقوں کے لیے بہترین ہے دنیا


Thursday, December 19, 2013

ذرا سا چھیلو تو اندر سے وحشی نکلے گا

وحشی

ہماری شکل تھی انسان سے بہت ملتی
بس اتنے جرم پہ جنگل بدر کیا ہم کو!!
ذرا سا چھیلو تو اندر سے وحشی نکلے گا!!!!
---------------------------------------
---------------------------------------
خدا کے واسطے جنگل میں لوٹ جانے دو!

یہ میرا درد کدہ ہے یہاں پہ کچھ بھی نہیں

یہ میرا درد کدہ ہے یہاں پہ کچھ بھی نہیں
بس ایک شمع ہے زارو قطار روتی ہوئی
دو چار سانسیں ہیں سینے میں فوت ہوتی ہوئی
اور اک نظر در و دیوار سے الجھتی ہوئی
-------------------یہ میرا درد کدہ ہے 
کتابِ عشق کے پرزے اڑا گیا ہے وقت
ادھوری نظم ہے بستر پہ ہچکی لیتی ہوئی
 جو خواب آنکھ میں تھے آنکھ میں ہی جل بجھے ہیں
اب ان کی راکھ ہے منظر کو دھند لا کرتی ہوئی
شکست و ریخت اداسی اندھیرا اورگھٹن
کہ میری ذات نہیں قبر ہے سسکتی ہوئی
یہ میرا درد کدہ ہے یہاں پہ کچھ بھی نہیں
بس ایک شمع ہے زارو قطار روتی ہوئی

میں چاہتا ہوں کہ پل سے صدی کشید کروں

یہ دائروں کا سفر ہے سو گھومے جاتے ہیں
چلے جہاں سے وہیں کو پلٹتے جاتے ہیں

کوئی تو ہو جو جمی برف کاٹ سکتا ہو
تمام لوگ بہائو میں پھسلے جاتے ہیں

یہ زندگی ہے اجل کے سپرد کیوں کیجے
تمہاری آنکھوں کے گوشوں میں چِنتے جاتے ہیں

میں چاہتا ہوں کہ پل سے صدی کشید کروں
پلک جھپکتے یہاں سال گزرے جاتے ہیں

بس ایک جنسِ محبت تھی دل کو خوش آئی
تحفظات اب اس سے بھی ہوتے جاتے ہیں

Monday, December 16, 2013

صنف نازک پہ تکیہ مت کیج

اک نصیحت ہے زندگی میں کبھی
صنف نازک پہ تکیہ مت کیجو

ساتھ چلیو ہزار بار مگر
آسرے کی امید مت رکھیو

دن بدلنے پہ فیصلہ بدلے
!!دشمنی کو بھی دل پہ مت لیجو

صرف جذبات سے بنا ہو جو
!!عقل کااس پہ وار مت کیجو

آنے آنے کا یوں تو رکھّے حساب
!پیار سے چاہے جان لے لیجو

ایک لمحہ لگے انسان کو وحشی بنتے

سوچ مثبت ہو یا کہ منفی ہو
جو حقیقت ہے وہ حقیقت ہے
زندگی وقت کا ضیاع ہی ہے

جس قدر زندگی کو سمجھو گے
اس قدر زندگی سے بھاگو گے

رات بھر پہرے دار جاگتے ہیں
آدمی آدمی کو سونے نہ دے

باقی باتیں ہیں جتنی بھی کر لو
حق اسی کا ہے جس میں طاقت ہے

عمر لگ جاتی ہے تہذیب سکھاتے لیکن
ایک لمحہ لگے انسان کو وحشی بنتے


ہم پہ ضائع کیا گیا اس کو

"کون اپنا ہے کیا پرایا ہے""
جو بھی کچھ سامنے ہے سایہ ہے

ہم پہ ضائع کیا گیا اس کو
ہم سے کیا زندگی نے پایا ہے

عشق کا پیرہن بھی ململ تھا
ہی سالوں پہ چھید آیا ہے/////کچھ ہی سالوں میں تار تار ہوا

گھر سے باہر کوئی ٹھکانہ نہیں
گھر کے اندر اسے بٹھایا ہے

Saturday, December 14, 2013

نتیجہ یہ ہے یہاں کچھ بھی پائیدار نہیں

ہمیں سمجھ ہی نہیں آئی شخصیت اپنی
کہ جس بھی بزم میں بیٹھے وہیں پہ اجنبی تھے

نتیجہ یہ ہے یہاں کچھ بھی پائیدار نہیں
سو جو بھی کرتے ہو کرتے رہو سکون کے ساتھ

Friday, December 13, 2013

ہماری زندگی بس نام کی تھی


انحراف کا فی البدیہہ مشاعرہ

کبھی سایہ کبھی بس وہم ہی تھی
ہماری زندگی  تونام کی تھی

خسارہ ہی خسارہ آج کل ہے
محبت ہی محبت زندگی تھی

ازل سے پہلے کیا تھا جاننا ہے
ازل سے پہلے بھی کیا زندگی تھی؟

مجھے درکار کب تھا روز اک دن
مری رفتار لمحوں سے جڑی تھی

حقیقت کس طرح تسلیم کرتے
ہمیں خوابوں کی عادت ہو چلی تھی

یہ جو انسان ہے تقسیم کا شیدائی ہے

سرحدیں کھینچتا، اور فرقے بناتا آیا
یہ جو انسان ہے تقسیم کا شیدائی ہے

Thursday, December 12, 2013

میں نہیں مانگتا ہرروز نیا دن اترے

سایے کو قید کرنے لگے ہو کمال ہے
تم زندگی کو جینے لگے ہو کمال ہے

میں نہیں مانگتا ہرروز نیا دن اترے
مستقل کر دو مرے واسظے بس اک دن جب
!ساری دنیا میں کوئی شخص بھی رویا نہیں تھا

یہ جو دن رات ہیں

یہ جو دن رات ہیں پردے ہیں سفید اور سیاہ
جو مری عمر پہ گرتے ہی چلے جاتے ہیں
میرے بس میں ہو اگر پھاڑ کے پھینکوں ان کو
اور اندر سے نکالوں میں چمکتا ماضی
اور اندر سے نکالوں وہ  چمکتا ماضی
اور مرضی کے کسی خواب سے رنگیں پل کو
کھینچتا کھینچتا دہلیزِ ابد تک لائوں
!مستقل کردوں جوانی کو محبت کو وفا کو

Tuesday, December 10, 2013

مجھے انسان سے محبت ہے

مجھے انسان سے محبت ہے
اس کی خوشیوں سے اس کے دکھڑے سے
اس کی الفت سے اس کے جھگڑے سے
بے بسی ہو گھمنڈبازی ہو
بے وفائی ہو سچی یاری ہو
اس کی ہر چال خوبصورت ہے
مجھے انسان سے محبت ہے

سالوں پہ ہے محیط مگر خود کشی تو ہے

چلتے رہیں کہ بیٹھے رہیں چل رہا ہے وقت
ہر لحظہ بڑھ رہے ہیں عدم کی طرف سبھی
سالوں پہ ہے محیط مگر خود کشی تو ہے

Monday, December 9, 2013

ان کو فرصت ملے گی مر کر ہی

جن کو عادت ہو کام کرنے کی
ان کو فرصت ملے گی مر کر ہی

Sunday, December 8, 2013

زندگی مختصر ہو لمبی ہو

موت منزل ہو جس سفر کی اسے
راستے میں بھی چھوڑ دیں تو کیا
زندگی مختصر ہو لمبی ہو!

تمام عمر ہوا کے خلاف چلتا رہا

حسن خوشبو کی طرح ٹک کے نہیں رہتا ہے
اس کی عادت ہے مکانات بدلتے جانا
اس کی عادت ہے کہ پوشاک بدلتے جانا
حسن پر مان نہیں مان نہیں کر ناداں
یہ تو مہمان ہے مہمان پہ کیا اترانا

گل فروشوں کو نہیں علم محبت کیا ہے
پھول مر جاتے ہیں قیمت کے ادا ہوتے ہی!!!


جس کو دوزخ ملی ہو دنیا میں
ایسے کافر کی عاقبت کیا ہے



تمام عمر ہوا کے خلاف چلتا رہا
ہوا تھمی نہ طبیعت ہی ٹل سکی میری



Saturday, December 7, 2013

اپنے ماتحت کچھ رہا ہی نہیں

زندگی وقت خواب اور رشتے
اپنے ماتحت کچھ رہا ہی نہیں

Friday, December 6, 2013

ایک بیمار سے دیے کے لیے

ایک بیمار سے دیے کے لیے
زندگی بھر ہوا سے لڑتا رہا
اور آخر کو بجھ گیا وہ بھی!!!

اس قدر تیز چل رہے ہو کیوں
موت آنی ہے آہ جائے گی
ہر سفر موت پر ہی رکتا ہے


بڑی بے اعتبار سی ہے جو
ہم اسی زندگی پہ بیٹھے ہیں

Thursday, December 5, 2013

دکھ سبھی کے ہی ایک جیسے ہیں

باقی تفصیل جو بھی ہو سو ہو
دکھ سبھی کے ہی ایک جیسے ہیں
ایک کنبہ ہے بابے آدم کا
سارے اپنے ہیں سارے اچھے ہیں

Wednesday, December 4, 2013

بس ایک موڑ غلط تھا تمام رستے میں

بس ایک موڑ غلط تھا تمام رستے میں
ہمارے بیچ میں صدیوں کا فاصلہ ہے اب

Monday, December 2, 2013

ہے یہی قدر مشترک ہم میں

نفیساتی مریض ہے دنیا
اس پہ آسیب ہے عقیدوں کا
اک معالج ہی جانتا ہے بس
کتنا مشکل ہے ساتھ پاگلوں کا

تو بھی تنہا ہے اور دکھی بھی ہے
میں بھی تلکیف میں اکیلا ہوں
ہے یہی قدر مشترک ہم میں


Sunday, December 1, 2013

جو بھی ہوتا ہے ٹھیک ہوتا ہے

ترو تازہ گلاب اور کلیاں
کیوں سمجھتا ہے تیرا ہی حق ہیں
دوسروں کو بھی کچھ مہکنے دے
دوسرے بھی تو ان کے طالب ہیں
تو ذرا کانٹوں سے بہل کر دیکھ
یہ بھی  تو باغ کی حقیقت ہیں

میری بیٹی ہے کائینات مری
اور بیٹا نظر کی راحت ہے
ان کی ماں سے مگر عداوت ہے
کس قدر خود غرض ہے انساں بھی

-----------------
جو بھی ہوتا ہے ہوتا آیا ہے
جو بھی ہوتا ہے ٹھیک ہوتا ہے
مرگ و شادی کوئی نئے تو نہیں
درد و راحت پرانی باتیں ہے
چھوڑ دے ہاتھ ڈھیلے غم نہ کرو
وقت کا دھارا من کا موجی ہے
اپنی موجوں میں بہتا جاتا ہے
اور سب کچھ بہاتا جاتا ہے
جو بھی ہوتا ہے ٹھیک ہوتا ہے