یہ دائروں کا سفر ہے سو گھومے جاتے ہیں
چلے جہاں سے وہیں کو پلٹتے جاتے ہیں
کوئی تو ہو جو جمی برف کاٹ سکتا ہو
تمام لوگ بہائو میں پھسلے جاتے ہیں
یہ زندگی ہے اجل کے سپرد کیوں کیجے
تمہاری آنکھوں کے گوشوں میں چِنتے جاتے ہیں
میں چاہتا ہوں کہ پل سے صدی کشید کروں
پلک جھپکتے یہاں سال گزرے جاتے ہیں
بس ایک جنسِ محبت تھی دل کو خوش آئی
تحفظات اب اس سے بھی ہوتے جاتے ہیں
No comments:
Post a Comment