Thursday, December 19, 2013

میں چاہتا ہوں کہ پل سے صدی کشید کروں

یہ دائروں کا سفر ہے سو گھومے جاتے ہیں
چلے جہاں سے وہیں کو پلٹتے جاتے ہیں

کوئی تو ہو جو جمی برف کاٹ سکتا ہو
تمام لوگ بہائو میں پھسلے جاتے ہیں

یہ زندگی ہے اجل کے سپرد کیوں کیجے
تمہاری آنکھوں کے گوشوں میں چِنتے جاتے ہیں

میں چاہتا ہوں کہ پل سے صدی کشید کروں
پلک جھپکتے یہاں سال گزرے جاتے ہیں

بس ایک جنسِ محبت تھی دل کو خوش آئی
تحفظات اب اس سے بھی ہوتے جاتے ہیں

No comments:

Post a Comment