Friday, December 24, 2010

سب کاغذی طوطے ہیں

کیوں مغز کھپاتے ہو
کیوں وقت گنواتے ہو
یہ دنیا نہ سمجھے گی
یہ لوگ نہ مانیں گے
انسان کی شکلوں میں
پتلی کے تماشے ہیں
یہ ٹین کے بندر ہیں
یہ کاٹھ کے گھوڑے ہیں
اور شور جو کرتے ہیں
سب کاغذی طوطے ہیں
اقدا ر و روایت پر
لڑتے ہیں جھگڑتے ہیں
پڑھ پڑھ کے کتابوں سے
یہ فیصلے کرتے ہیں
جو دل پہ لکھی رب نے
اس بات کو کیا جانیں
یہ جسموں کے قیدی ہیں
جذبات کو کیا جانیں
الفاظ کے کوزہ گر
احساس کو کیا جانیں
آنکھوں کی چمک دیکھیں
لہجے کی کھنک دیکھیں
جو سینے کے اندر ہیں
اس آگ کو کیا جانیں
ہنستے ہوئے چہروں کے
دن رات کو کیا جانیں
کیوں مغز کھپاتے ہو
کیوں وقت گنواتے ہو

Thursday, December 23, 2010

یہ محبت ہے نام کی بس

یہ محبت نہ ہو گی ہم سے
یہ محبت ہے نام کی بس
اصول پہلے سے طے ہیں جس کے
عمر کی بھی حد ہے اس میں
مذہب جس میں دیوارکی صورت
لاج اس میں ہے غیرت اس میں
طریقے سارے ہی فلمی جس میں
دل بیچارے کے ساتھ دیکھو
کیسے کیسے مذاق یہاں پر
دل کے نام پہ میر ے یارا
یہ خیانت نہ ہو گی ہم سے
یہ محبت نہ ہو گی ہم سے
یہ محبت ہے نام کی بس

Wednesday, December 22, 2010

خواہشوں کی سننے سے

ساحلِ سمندر پر نقش سے بناتے ہو
اور پھر مقدر سے ضد بھی تم لگاتے ہو
زندگی کے سب رستے
طے ہوئے ہیں پہلے سے
جس طرف بھی لے جائیں
تم نے چلتے جانا ہے
خوابوں اور خیالوں کو نیند میں ہی رہنے دو
کیوں انہیں جگاتے ہو
اور جی جلاتے ہو
خواہشوں کی سننے سے 
تلخیاں حوادث کی
 اور بڑھ تو سکتی ہیں
کبھی کم نہیں ہوتیں

Saturday, December 18, 2010

دل نے کیسی یہ جسارت کی ہے

دل نے کیسی یہ جسارت کی ہے
آپ جیسوں سے محبت کی ہے

ہم تو بس خواب سمجھ بیٹھے تھے
تیری آنکھوں نے شرارت کی ہے

برف پگھلی ہے کئی صدیوں کی
چاند نے ایسی تمازت کی ہے

دفن کر ڈالے تھے قصے دل کے
تو نے پھر آ کے قیامت کی ہے

کاٹ کھایا غمِ دنیا ہم کو
جب کبھی عشق سے غفلت کی

Wednesday, December 1, 2010

زندگی ایک نشہ ہے لوگو

آج تو ہم بھی شرابی ہوگئے
سوکھتا پیڑ تھے آبی ہو گئے

زندگی ایک نشہ ہے لوگو
منہ لگی جب سے گلابی ہو گئے

گیت

گیت:-

تیرے جیسا حسیں

کوئی ہوگا کہیں

سوچ سکتا نہیں

سوچ سکتا نہیں

--

تیرے ہونٹوں سے ہے

رس رہی زندگی

تیری آنکھوں میں ہے

بس رہی زندگی

تیرے قدموں تلے

بچھ رہی ہے زمیں

--

تیرے جیسا حسیں

کوئی ہوگا کہیں

سوچ سکتا نہیں

سوچ سکتا نہیں

--

میرے پیروں میں ڈالے بھنور لے چلا

اپنے بالوں سے تو ، باندھ کر لے چلا

ایسے جادو چلے

آفریں آفریں

گل پیا ڈھول بجونا پیندا

گل پیا ڈھول بجونا پیندا
عشق دا قول نبھونا پیندا

ماڑے دلبر دے جے آکھے لگیے
ماپیاں سولی چڑھونا پیندا

عشق نہ ذات پچھانے لوکو
عشق وچ آپ گوونا پیندا

Sunday, November 7, 2010

یار وے----- مار دے

منظر: گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی کے احسات جس کو شادی کہ بعد پتہ چلتا ہے کہ اس کا شوہر یا محبوب تو عادی مجرم اور نفسیاتی مریض ہے- اس کے پاس واپسی کے سارے راستے بند ہیں اور آگے بھی مایوسی کی اندھی غار ہے

گیت

پس منظر کی آواز—

یار وے----- مار دے

پہلا انترا

کِکراں نال میں لایاں یاریاں ، پپلاں دے دل توڑے

لوں لوں وچ ہن چبدیاں سولاں – سِر تے وجدے روڑے

بے فیضاں توں فیض نئیں لبھدا، لکھ ریاضتاں کر لے

پٹھے پینڈے پے گئے جیہڑے ، دن اناں دے تھوڑے



پس منظر کی آواز—

یار وے----- مار دے

لیر و لیر ہویا تن میرا ، درداں لائے ڈیرے

ادھی راتی ڈر ڈر اٹھدی ہنجو سکھ گئے میرے

جنگاں جت لیندے نے لوکی، لیکھ جتن گے کیہڑے

پریت ماہی دی راس نہ آوے چاری پاسے نیرے



پس منظر کی آواز—

یار وے----- مار دے

کی کراں میں کیس نو دساں کیڑے پاسے جاواں

ڈبدا جاوے دل سینے وچ، اوکھیاں ہویاں ساواں

سپھنے دیکھنے والی اکھ نو، کی میں ہن سمجھاواں

جیدے پچھے عمر گوائی او تے سی پر چھاواں



پس منظر کی آواز—

یار وے----- مار دے

Wednesday, October 27, 2010

مجھے محبت نے مار ڈالا

تجھے تو نفرت سے ہے شکایت، مجھے محبت نے مار ڈالا
جدائی ہوتی تو سہہ بھی لیتے ہمیں تو قربت نے مارڈالا

تھا زعم مجھ کو کہ میرا تیشہ تو کاٹ ڈالے گا پتھروں کو
تو ڈر گیا ہے تو بچ گیا ہے مجھے مہارت نے مارڈالا

اصلاں نال جے کریے نیکی

اصلاں نال جے کریے نیکی
نسلاں تکڑ نبھودیں نے

ماڑیاں نال جے چنگا کریے
پرت کے گل نو اوندے نے

عشق دے پینڈے پے کے عاشق
جندڑی روگ لگوندے نے

دل کنجر دے آکھے لگ کے
لوکی جان گووندے نے

آگ کا بھی پیٹ ہے نا

اپنی ننگی آنکھوں سے
دیکھ رہا ہوں موت کسی کی
سامنے اپنے
آگ کے اندر جھونک رہا ہوں
صندل کی اک شاخ کنواری
سوچ رہا ہوں بول پڑوں تو
رو پڑے کی آگ بےچاری
بھوک کی ماری
جانے کتنے سالوں سے
اس نے منت مانی ہو گی
آگ کا بھی پیٹ ہے نا!

میں نکل گیا ہوں مدار سے

میں نکل گیا ہوں مدار سے، مرے راستوں پہ غبار ہے
اسی کشمکش میں پڑا ہے دل کہ یہ بھول ہے یا فرار ہے؟

جسے راستوں نے جکڑ لیا ، اسے منزلوں کا شعور کیا
جو سلگ سلگ کے ہی بجھ گیا وہ چرا غ ہے نہ شرار ہے

بڑی کم نظر ہے وہ عاشقی جو خیال و خواب کی حد میں ہو
کہ حقیقتوں کے دیار میں کہاں وہمِ دل کا شمار ہے

جو چلا تھا درد سمیٹنے، وہی آج درد سے چور ہے
جسے فکر سارے جہاں کی تھی وہی آج خود پہ ہی بار ہے

یہ فلک کسی سے وفا کرے نہ زمیں کسی کی سدا رہے
بڑا مختصر سا قیام ہے بڑی بے مزہ سی بہار ہے

Thursday, October 7, 2010

کبھی جو بیٹھ کے سوچوں تو سب خسارا ہے

بہت دیا ہے نصیبوں نے پھر بھی تیری کمی
کبھی جو بیٹھ کے سوچوں تو سب خسارا ہے

Thursday, September 30, 2010

یہاں تیمارداری کو بھی لکھ لیتے ہیں کاغذ پر

یہاں تیمارداری کو بھی لکھ لیتے ہیں کاغذ پر
کہ کل بیمار جب میں ہوں ترا آنا بھی لازم ہے

تم نہیں ہو مگر پھر بھی

تم نہیں ہو مگر پھر بھی

ایسا لگتا ہے کہ تم ہو

ایک احساس ہے جو مجھے

کبھی تنہا ہونے نہیں دیتا

درد میں غم میں تیرا خیال

تھام لیتا ہے مجھے

اور رونے نہیں دیتا

Tuesday, September 28, 2010

مری بے کار سی باتیں تری پر مغز خاموشی

مری بے کار سی باتیں تری پر مغز خاموشی
تری قربت کا سوچوں تو یہی کچھ یاد آتا ہے

محبت

بکھرتی ہے تو خوشبوئوں پہ کچھ قابو نہیں رہتا
محبت پھول جیسی ہے
بھٹکتی ہے تو کانوں  میں دبا کر انگلی چلتی ہے
بہت گھمسان رستوں سے بنا دیکھے گزرتی ہے
محبت بھول جیسی ہے
کسی کم سن جوانی سے جو انجانے میں ہو جائے
گلی کوچوں میں اڑتی ہے
 یہ پیروں سے لپٹتی ہے
ہوا کا رخ بدلنے پر، یہ اپنا در بدلتی ہے
 محبت دھول جیسی ہے

Monday, September 27, 2010

انتہا ملن کی تو ، ٹوٹنے کے اندر ہے

زندگی سفر میں ہے ، آدمی مسافر ہے
جس طرح بھی ممکن ہو
اس نے چلتے جانا ہے
وقت کے بہائو میں
ہم نے بہتے جانا ہے
رزق ہو تعلق ہو
یہ تو بس بہانے ہیں
آدمی کی قسمت میں
کو بکو بھٹکنا ہے
دردبدر بہکنا ہے
دو قدم مسافت پر
راستہ بدلنا ہے
راستہ نہ بدلے بھی
تو بھی اس کو جانا ہے
عمر بھر کی سنگت کو
ایک پل نہیں لگتا
سامنے نگاہوں کے
سانسیں ٹوٹ جاتی ہیں
گرہیں چھوٹ جاتی ہیں
ہم بھی کتنے پاگل ہیں
رزق کو ، تعلق کو
جوڑ جوڑ رکھتے ہیں
اور بھول جاتے ہیں
انتہا ملن کی تو ، ٹوٹنے کے اندر ہے
 زندگی سفر میں ہے ، آدمی مسافر ہے

Sunday, September 26, 2010

پیار محبت عشق کے وعدے

بیج وہی، زمین وہی

لیکن مرضی موسم کی

موسم فیصلے کرتا ہے

کب پھولوں کو کھلنا ہے

کب پتوں کو جھڑنا ہے

پیار محبت عشق کے وعدے

کس کے بس کی باتیں ہیں؟

Wednesday, September 22, 2010

درد کی رت میں وہ آیا تھا گلابی ہو کر


درد کی رت میں وہ آیا تھا گلابی ہو کر
میں اسے دیکھتا جاتا تھا شرابی ہو کر

اس کی چپ چاپ نگاہیں تھیں سوالی جیسی
اور میں ضبط گنوا بیٹھا جوابی ہو کر

پھر اسے اور مجھے اور کہیں جانا تھا
ایک لمحے کو وہ ٹھہرا تھا حبابی ہو کر

وہ دل و جان سے میرا ہے مگر اس کا وجود
چھین لے گا یہ زمانہ ہی عقابی ہو کر

عشق میں سود و زیاں کارِ جہالت تھا ریحان
راکھ ہی راکھ سمیٹی ہے حسابی ہو کر


Tuesday, September 21, 2010

اس حسین موسم میں

اس حسین موسم میں
تیرتی ہوائوں میں
پیار کی مہک سی ہے
اور اس کی آنکھوں کی
نرم سی جھلک بھی ہے
چاند کی طرف دیکھو
کیسے چاند لیٹا ہے
چاند کے بچھونے پر
اور اس کی آنکھیں بھی
ڈبکیاں لگاتی ہیں
اور ڈوب جاتی ہیں
دور افق پر اے دوست
دور افق پر اے دوست
اس حسین موسم میں

اجنبی کہوں کیوں کر

اجنبی تو ہو لیکن
اجنبی کہوں کیوں کر
چاہ کےمحبت کے
سارے خواب ہم سے ہیں
رسم ہے زمانے کی
عشق کو دبا رکھنا
بارشوں کے موسم میں
حبس سا بنا رکھنا
قید کے اذیت کے
سب حساب ہم سے ہیں
سادگی بھی ہم سی ہے
عاجزی بھی ہم سی ہے
اور خوشی کے موسم میں
یہ ہنسی بھی ہم سی ہے
پھول مسکراہٹ کے
جب کبھی بھی کھلتے ہیں
ہونٹ کھینچ دیتے ہیں
آنکھ میچ دیتے ہیں
دانت جھانک لیتے ہیں
سانس سانس جینے کے
سارے باب ہم سے ہیں
ہر برس جنم دن پر
ہم بھی سوچتے ہیں اور
تم بھی سوچتے ہو گے
اس خدائے برتر نے
ہم کو آسمانوں سے
کس لیے اتارا ہے
کس لیے بنا یا ہے
زیست کے تعلق کے
سب سوال ہم سے ہیں
سب جواب ہم سے ہیں
اجنبی تو ہو لیکن
اجنبی کہوں کیوں کر

Friday, September 17, 2010

بسترِ مرگ اب خالی ہے

لو ہم یہ جگہ چھوڑ چلے
 لوبسترِ مرگ اب خالی ہے - کسی اور کی جاں لینے کو
جس میں دم ہو چلا آئے

ٹوٹ کر چاہنے والے اکثر

ٹوٹ کر چاہنے والے اکثر
توڑ کر چھوڑ بھی تو جا تے ہیں

اتنا بڑا گھائو ہے سینے میں

اتنا بڑا گھائو ہے سینے میں
تم جو لگو سینے سے
  سما سکتے ہو سینے میں

Thursday, September 16, 2010

اس کی وہ نرم گلابی سی ہنسی

چاندنی پھول کھلانے آئی
رات کو دھوپ بنانے آئی

گھپ اندھیرا تھا مرے رستوں میں
اک کرن دل کو جلانے آئی

اس کی وہ نرم گلابی سی ہنسی
گدگدی دل میں جگانے آئی

زندگی سست جمائی جیسی
تیری آنکھوں میں نہانے آئی

پھر محبت نے پکارا ہم کو
پھر سے دنیا ہی ستانے آئی

پھر سے چپ چاپ چلے آئے ہیں
پھر کوئی یاد سلانے آئی

وہ دعائوں میں مجھے مانگے ریحان
کہکشاں خاک کمانے آئی

Tuesday, September 14, 2010

مجھے سکون نہیں ہے، مجھے سکون نہیں

مجھے سکون نہیں ہے، مجھے سکون نہیں
وہ شخص جب سے حسیں ہے، مجھے سکون نہیں

کوئی نگر تو ہو ایسا جہاں سلوک ملے
یہ خود غرض سی زمیں ہے ، مجھے سکون نہیں

وہ روپ چاند کا لے کر لگانے آگ ہی آئے
گلاب خار نشیں ہے ، مجھے سکون نہیں

کوئی تو زلف کا بادل کبھی امید بنے
یہ دشت جسم حزیں ہے ، مجھے سکون نہیں

کوئی تو پھول لگے دل کے نخلِ حرماں پر
خزاں رسیدہ زمیں ہے ، مجھے سکون نہیں

میں بندگی میں بھلا تھا ، مجھے خدا کیوں کیا

میں بندگی میں بھلا تھا ، مجھے خدا کیوں کیا
خدا بنا ہوں میں جب سے مجھے سکون نہیں

مجھے خدا نہ کرو تم، مجھے خدا نہ کرو

مجھے خدا نہ کرو تم، مجھے خدا نہ کرو
تمہاری بندگی مجھ کو تو مار ڈالے گی
کہاں یہ ظرف کہ اتنے گناہ معاف کروں
کہ مجھ میں بوجھ اٹھانے کا حوصلہ کب ہے
کہ میں تو خود ہی کسی گود کی تلاش میں ہوں
تمہارے سجدے مرے پائوں باندھ دیتے ہیں
مجھے بتوں کی طرح قیدِ بے بسی نہ کرو
کہ میں تو خود ہی گرفتارِ جالِ قسمت ہوں
مجھے سزا نہ کرو تم مجھے سزا نہ کرو
مجھے خدا نہ کرو تم، مجھے خدا نہ کرو

Wednesday, September 8, 2010

انہی چند لمحوں سے

اپنے حصے آئے ہیں
چند لمحے چاہت کے
انہی چند لمحوں سے
عمر کشید کرنی ہے

Tuesday, September 7, 2010

یہ محبت ہی تو ہے

یہ محبت ہی تو ہے
جو ہم کو اچھا کہتی ہے
وگرنہ ہم سے لوگوں کو
دھن دولت کی دنیا میں
کون بھلا خریدے گا

تم بھی کوئی موسم ہو

ہر برس دسمبر میں
دل کے سرد خانوں میں
شور ہونے لگتا ہے
تم بھی کوئی موسم ہو
پھر سے لوٹ آتے ہو!



پیار کرنے والے بھی

پیار کرنے والے بھی
ٹوٹتے ستاروں سے
کتنے ملتے جلتے ہیں
ٹوٹتے ستارے بھی
پیار کرنے والوں سے
سرپھرے سے ہوتے ہیں
وصل کی تمنا میں
کہکشاں روایت کی
توڑ کر نکلتے ہیں
خواب کے دلاسوں پر
آسماں سے گرتے ہیں
اور بھول جاتے ہیں
واپسی کے رستوں کو
اور ٹوٹ جاتے ہیں
خواہشوں کے اندر ہی
منزلوں سے پہلے ہی

Saturday, September 4, 2010

کیا دیا محبت نے

کیا دیا محبت نے
چاہنے کی عادت نے
درد ہے اذیت ہے
منہ چھپاتے پھرتے ہیں
عمر بھر ندامت ہے
تم بھی کتنے پاگل ہو
وصل وصل کرتے ہو
اس جہانِ کم تر میں
وصل ہجر ہی تو ہے
ایک جبر ہی تو ہے
ہم نے ساتھ دینا ہے
عمر بھر زمانے کا
اِس طرح بھی قیدی ہیں
اُس طرح بھی قیدی ہیں

Tuesday, August 31, 2010

مجھے سمیٹو کسی روز پیار میں ایسے


زمیں پہ بیٹھ کے اپنی قمیص کا پلو 
اٹھا کے خاک سے رکھتے ہو گود میں جیسے
مجھے سمیٹو کسی روز پیار میں ایسے



لیکن اس زمانے نے

روشنی محبت کی
آنکھ کے دریچوں میں
آفتاب جیسی ہے
جس طرف بھی کھلتے ہیں
صبح ہونے لگتی ہے
قد کا بانکپن دیکھو
جب بھی اٹھنے لگتا ہوں
آسماں کو چھوتا ہوں
بازووں کے حلقوں میں
کہکشائیں چھپتی ہیں
سوچنے کی عادت ہے
سوچتے ہی گزری ہے
بادلوں کے ٹکڑوں پر
تیرے خواب لکھتا ہوں
بے حساب لکھتا ہوں
لوٹ کو ستاروں کو
شب کی کالی چادر پر
روشنی کے دھاگوں سا
تیرا نام لکھتا ہوں
صبح شام لکھتا ہوں
لیکن اس زمانے نے
پائٔوں میرے جکڑے ہیں
ضبط کی زمینوں میں

تم نے کیسا دیکھا ہے، زاویے کے اوپر ہے

زندگی کے ہیرے کی ، سو ہزار کنیاں ہیں
تم نے کیسا دیکھا ہے، زاویے کے اوپر ہے

Friday, August 27, 2010

کیا کریں سرابوں کا

میری تیری قسمت میں
لفظ ہی محبت تھے
لفظ ہی محبت ہیں
میری تیری چاہت میں
خواب ہی حقیقت تھے
خواب ہی حقیقت ہیں
کیا کریں سرابوں کا
کیا کہیں فسانے ہیں
کیوں مجھے سمجھتے ہو
چاند اپنے آنگن کا
ہم خلا نوردوں کا
گھومنا مقدر تھا
گھومنا مقدر ہے
ہم نے چلتے جانا ہے
اپنےاپنے رستوں پر
کوئی میرا محور ہے
کوئی تیرا محور ہے

Tuesday, August 24, 2010

اس وحشی کو زنجیر ڈلے

ماتھے پر جسم کے دام لکھے
کیوں قریہ قریہ پھرتے ہو
ہاتھوں میں فن کی کتاب لیے
تم کس کو  ڈھونڈتے رہتے ہو
یہ دنیا چور بازاروں کی
 یہ دنیا حرص کےماروں کی
یاں ذرا ذرا سی باتوں پر
 سرتن سے جدا ہو جاتے ہیں
یاں کھود کے پچھلی قبروں کو
لاشوں کو پیٹا کرتے ہیں
تم پاگل ہو دیوانے ہو
کیا باتیں بکتے پھرتے ہو
انسان جسے تم کہتے ہو
جنگل سے بھاگ کے آیا ہے
اور شہر شہر دندناتا ہے
یہ خونی ہے ، یہ وحشی ہے
اس وحشی کو زنجیر ڈلے
اس وحشی کو زنجیر ڈلے

Written on Sialkot Incident........................

Sunday, August 22, 2010

گزرے سالوں کو تو آواز لگاتا کیوں ہے

لوٹ کر کیسے بھلا آئے گا جانے والا
یاد بن بن کے ہی رہ جائے گا جانے والا
گزرے سالوں کو تو آواز لگاتا کیوں ہے
اب وہ انداز نہ دوہرائے گا جانے والا

Monday, August 16, 2010

جنہیں زندگی نے اماں نہ دی وہ ترے نشے میں بہک گئے

میرے ساقیا تو گماں نہ کر کہ تری نظر سے بھٹک گئے
جنہیں زندگی نے اماں نہ دی وہ ترے نشے میں بہک گئے

جنہیں قربتوں کا جنون تھا، انہیں ان کی طلب نے ڈبو دیا
جو ریاضتوں میں لگے رہے وہ بنا پیے ہی مہک گئے

یہ جو خواہشوں کی چمک دمک ترے خال و خد پہ سجی ہوئی
یہ تو رسیاں ہیں صلیب کی جنہیں ہم پہن کے لٹک گئے

ہمیں زندگی تو ملی مگر ہمیں زندگی کی سمجھ نہ تھی
کوئی چاند بن کے گہن گیا کئی راکھ رہ کے چمک گئے

وہی بے خبر وہی با خبر ، بھلا خاکیوں کی بساط کیا
انہیں جس طرف سے صدا ملی یہ اسی طرف کو لپک گئے

یہ جو اونچ نیچ کا کھیل ہےیہ تو بس نظر کا فریب ہے
کبھی کھلکھلا کے بکھر گئے، کبھی رو رلا کے چٹک گئے

Thursday, August 12, 2010

کون کب کہاں ڈوبے

زندگی کے ساگر میں
لہریں ہیں مقدر کی
شور ہے ہوائوں کا
اور جوار بھاٹا ہے
چاند کی ادائوں کا
کون کب کہاں ڈوبے
کون جان سکتا ہے
کون جان پائے گا

Sunday, August 8, 2010

ہر کسی سے طریقہ پوچھتا ہوں

کس طرح لوگ جیتے جا رہے ہیں
ہر کسی سے طریقہ پوچھتا ہوں

اپنے حق سے زیادہ مانگتا ہوں

اپنے حق سے زیادہ مانگتا ہوں
کہ میں تیرا سہارا مانگتا ہو ں

خرچ بیٹھا ہوں اپنا حصہ کب سے
اب پرایا اثاثہ مانگتا ہو ں

چاند بے نور ہوتا جا رہا ہے
چاندنی سے لبادہ مانگتا ہوں

تھا رواجوں کا بزدل سا میں باغی
ڈر گیا ہوں ازالہ مانگتا ہوں

پہلے تو قربتوں کی خواہشیں تھیں
اب فقط غائبانہ مانگتا ہو ں

Thursday, August 5, 2010

آنکھ کو راز بتانے کی اجازت نہ ملی

آنکھ کو راز بتانے کی اجازت نہ ملی
راز کو بات میں آنے کی اجازت نہ ملی

دیکھتے دیکھتے بوڑھا ہو گیا ہے وہ شخص
حال دل اس کو سنانے کی اجازت نہ ملی

سامنے میرے وہ ہوتا رہا پتی پتی
راہ سے پھول اٹھانے کی اجازت نہ ملی

اب تو بس گزرے زمانوں کا خیال آتا ہے
جب ہمیں خواب سجانے کی اجازت نہ ملی

وہ تو جھکتا ہی گیا میری طلب میں ریحان
مجھ کو ہی ہوش میں آنے کی اجازت نہ ملی

Monday, August 2, 2010

کسی ٹوٹے شجر کی صورت تھی

کسی ٹوٹے شجر کی صورت تھی
اس کی الفت فقط ضرورت تھی
ہم جسے چاہ سمجھا کرتے تھے
جسم کی ہوس تھی کدورت تھی
جیت کر ہم نے راز پایا ہے
ہار اس سے بھی خوبصورت تھی
دیکھنے میں چٹان  جیسی تھی
بھربھری ریت کی جو مورت تھی
ساری دنیا کا کیا قصور اس میں
ایک سادہ، بھلی سی صورت تھی

Monday, July 26, 2010

سفید پوش محبتیں

ہم سفید پوشوں کی
چاہتیں بھی ہم سی ہیں
نام لحاظ کے رشتوں میں
عمر گزاردیتے ہیں
دو وقت کی روٹی میں
محبوب پال لیتے ہیں
کس کے پاس جانا ہے
کس سے دور رہنا ہے
بچپن سے طے ہو جاتا ہے
پھر بھی خود فریبی کو
اور جگ فریبی کو
ڈھونگ رچاتے پھرتے ہیں
ہم پیار جتاتے پھرتے ہیں

وقت کیا ہے؟

وقت ایک بہائو ہے جو ہر پل حقیقت کو عدم میں دھکیلتا جاتا ہے- ہر آنے والا کل ایک غیر شفاف چادر کی طرح گزرے ہوئے کل کو ڈھانپ لیتا ہے- یوں دن مہینوں میں، مہینے سالوں میں اور سال صدیوں میں بدل جاتے ہیں۔ اور کس کی مجال ہے کہ اتنی انگنت چادروں کے نیچے دبے ہوئے موہوم ماضی کو دیکھ سکے۔وقت کی چرخی کو الٹا گھما سکے- ایسا صرف وہی ذات کر سکتی ہے جس نے وقت کو پیدا کیا – وقت کے اس بے کراں سمندر میں فانی انسان کی فانی شہرت اور بقا کے کیا معانی! -

Wednesday, July 21, 2010

لوگ کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔

مر گیا آج جو کل تک مرے ہمراہ رہا
پھر بھی لگتا ہے کہ زند ہ ہے وہ ہم سب کی طرح
اس کے دروازے پہ دستک تو ذرا دینا تم
مسکراتا ہوا پردے کو ہٹا ئے گا وہ
پیٹھ پر ہاتھ رکھے قہقہ لگائے گا وہ
اب بھی لگتا ہے گھنے پیڑ کی چھائوں میں وہ
ہاتھ میں شاخ لیے پائوں پسارے ہو گا
بات پر بات بنانا تو ہے عادت اس کی
بات پر بات بناتا ہو گا ہنس ہنس کر وہ
لوگ کہتے ہیں کہ دفنا بھی چکے ہیں اس کو!!

Friday, July 16, 2010

ڈھونڈے بہت سہارے مگر بات نہ بنی

ڈھونڈے بہت سہارے مگر بات نہ بنی
تیرے بغیر پیارے مگر بات نہ بنی

پوچھے کوئی تو کیا کہیں اک شخص کے لیے
دونوں جہان وارے مگر بات نہ بنی

کچھ وہ وفا شعار تھا کچھ کم نصیب تھا
ہم اپنی جاں بھی ہارے مگر بات نہ بنی

یوں تشنگی بڑھی کہ سمندر ہی پی گئے
پانی تھے وہ بھی کھارے مگر ، بات نہ بنی

اک شخص لکھ گیا ہے مقدر کچھ اس طرح
کر ڈالے جتن سارے مگر بات نہ بنی

Monday, July 5, 2010

بد گمانی

گلے کٹ جائیں رشتوں کے
محبت راکھ ہو جائے
ذرا سی بد گمانی سے
سبھی کچھ خاک ہو جائے
طبیعت کیا ، جبلت کیا
سبھی باتیں ارادوں کی
کدورت دل میں آجائے
تو صورت کا تعارف کیا
بغا وت پر اتر آئے
تو برف بھی آگ ہو جا ئے
ذرا سی بد گمانی سے
سبھی کچھ خاک ہو جائے



Wednesday, June 30, 2010

محبت پھول رکھتی ہے چھپا کر کیوں کتابوں میں

محبت پھول رکھتی ہے چھپا کر کیوں کتابوں میں
یہ دنیا دیکھ لیتی ہے نقابوں میں حجابوں میں
 
کبھی تتلی کے پر نوچیں ، کبھی جگنو کی دم کاٹیں
جہاں میں حسن والوں کی تو کٹتی ہے عذابوں میں
 
بہت ہی ریتلی سی ہے ہنسی اس کی ملائم سی
میں بہتا ہی چلا جائوں سوالوں میں جوابوں میں
 
طلوع ہوتا ہے وہ چہرہ مری راتوں کی خلوت میں
کہ جیسے نرم بارش ہو اجالوں کی گلابوں میں
 
ہمیں معلوم ہی کب تھا کہ دل تجھ کو بھی چاہے گا
تجھے تو ہم نے رکھا تھا خیالوں میں نہ خوابوں میں
 
محبت جسم جب ٹھہری توکیا دے گا دلیلیں پھر
یہ جذبہ آسمانی تھا کبھی تیرے نصابوں میں

Monday, June 28, 2010

اے گلابِ من

اے گلابِ جاں ، اے گلابِ من
مری بات سن، مری بات سن
تجھے توڑ لوں یہ کہا نہ کر
مرے ساتھ ساتھ رہا نہ کر
مرے ہاتھ چھلنی ہیں اس قدر
تجھے توڑنے کی سکت نہیں
یہ لہو لہو سا بدن مرا
کوئی زندگی کی رمق نہیں
مرے ہم نوا مرے دل جگر
بڑی دیر بعد ملا ہے تو
ترے آنے سے ذارا پیشتر
کوئی خار مجھ میں چبھو گیا
کوئی موت مجھ میں سمو گیا


ابھی یہ عشق کم سن ہے

ابھی یہ عشق کم سن ہے
ابھی اظہار مت کرنا
جنوں کی آگ بڑھنے دو
ابھی کچھ روز جلنے دو
اگر یہ راکھ کر ڈالے
سمجھ لینا کہ ناقص ہے
 سمندر میں بہا آنا
اگر کندن بنا ڈالے
سمجھ لینا کہ خالص ہے
بہت نایاب گوہر ہے
اسے بیکار مت کرنا
کسی کم ظرف کے آگے
کبھی اظہار مت کرنا








Saturday, June 26, 2010

گھٹن

بھا گ کرآگئے
اپنا گھر چھوڑ کر
آشیاں ہی اگر
لگ رہا ہو قفس
آشیاں پھونک دو
بے اماں شہر کا
ہر مکاں پھونک دو


مرے یارا یہ عشق اپنا خدا سا تھا خدا سا ہے

سنا ہے اور نہ دیکھا ہے نہ سوچا اور نہ سمجھا ہے
مرے یارا  یہ عشق اپنا  خدا سا تھا خدا سا ہے

وفا مجبوری بن جائے تو رشتوں کا نبھانا کیا

وفا مجبوری بن جائے تو رشتوں کا نبھانا کیا
یہ دل ہی روٹھ جائے جب تو دلبر کا منانا کیا

تری دنیا کی شرطوں نے جوانی باندھ کے رکھ دی
پڑی ہو پائوں میں بیڑی تو منزل کا بلانا کیا

چمن میں ایک ہی گل تھا کہ میرے نام پر کھلتا
مگر یہ دھوپ  دنیا کی کہ کھلنا اور کھلانا کیا
 
یہ عادت ہے بری اپنی کبھی مایوس نہ ہونا
وگرنہ خشک پتھر پر گلابوں کو اگانا کیا
 
تمہیں معلوم ہی کیا ہے کہ تم کو کتنا چاہا ہے
یہ باتیں دل کی باتیں ہیں سنانا کیا جتانا کیا
 
ہمیں تسلیم ہے لوگو ، محبت جان لیوا ہے
مگر ہم بےٹھکانوں کا بغیر اس کےٹھکانہ کیا

Thursday, June 24, 2010

جتنے مرضی پائوں پسارو

جتنے مرضی
پائوں پسارو
وقت رکا ہے
نہ ہی رکے گا
ریت کی مانند
عمر کا توشہ
ہاتھ سے اپنے
گرتا رہا ہے
گرتا رہے گا
آنکھ کا تارہ
جان سے پیارہ
یار ہمارا
لوٹ کے پھر سے
آ نہ سکے گا

Monday, June 21, 2010

وقت دریا کی طرح ہم کو بہاتا جائے

دکھ زمانے کا تری یاد مٹاتا جائے
وقت دریا کی طرح ہم کو بہاتا جائے

ذہن اور جسم تو دنیا سے بندھے ہیں یارا
ایک دل ہے جو ترا عشق نبھاتا جائے

تیری آنکھوں کے دیے خواب بنے ہیں جب سے
تیرا دیوانہ اندھیروں کو گراتا جائے

تیری آنکھوں  میں کوئی عذر حیا کا ہی سہی
سرد لہجہ تو تجسس کو بڑھاتا جائے

حال تیرا بھی مرے حال سے ملتا ہے اب
وقت تجھ کو بھی زمانے سا بناتا جائے


یہاں خوابوں پہ مت رہنا

یہاں جینے کے سب رستے
یونہی الجھے سے ملتے ہیں
جو ہمت ہو تو جی لینا
یہاں خوابوں پہ مت رہنا
کہ خوابوں کے سبھی منظر
فقط خوابوں میں ملتے ہیں

مجھے خوابوں میں رہنے دو

مجھے خوابوں میں رہنے دو
مجھے تعبیر مت دینا
کہ تعبیروں کے کاسے میں
ندامت کے سوا کیا ہے
مرے خوابوں کی دنیا میں
مری مرضی تو چلتی ہے
مجھے مرضی میں جینے دو
مجھے تقدیر مت دینا
مجھے تعبیر مت دینا

Friday, June 18, 2010

کہ گھٹن بڑھنے لگی تو گھر سے باہر آگئے

خاک کے کیڑے مکوڑے خاک اوپر آگئے
کہ گھٹن بڑھنے لگی تو گھر سے باہر آگئے

بے اماں سے لوگ تھے ہم، منزلوں کی بات کیا
گھر سے نکلے چلتے چلتے آپ کے گھر آگئے

کیا خبر تھی روشنی کا آگ سے رشتہ بھی ہے
سر پھرے سے کچھ پتنگے شمع اوپر آگئے

جب بھی ساقی نے پکارا عذرِ مجبوری رہا
آخرِ شب ٹوٹا پیالہ خالی لے کر آگئے

جس کی بنیادوں میں رکھے خواب ساری عمر کے
اس مکاں کے اینٹ پتھر میرے سر پر آگئے

ہم دوا کرتے گئے اور درد بڑھتا ہی گیا
جب نہ کچھ بھی ہو سکا تو جان دے کر آگئے

Saturday, June 12, 2010

لوگ گرتے ہیں کیسے دولت پر

لوگ گرتے ہیں کیسے دولت پر
ایک سکہ اچھال کر دیکھو

درد کی باقیات کا نام

درد کی باقیات کا نام
لوگ تخلیق رکھ دیتے ہیں
جان سے جان ٹوٹتی تو ہم نے دیکھی ہے

Tuesday, June 8, 2010

محبت مرنے لگتی ہے

عاشقوں کی بستی میں
کچھ کم سخن بھی ہوتے ہیں
عمر بھر محبت کا سبق یاد کرتے
لیکن عین موقع پر
کچھ بھی کہ نہیں سکتے
سال گزرتے جاتے ہیں
رنگ اترتے جاتے ہیں
اور یہ لوگ گم صم سے
ان ڈور پلانٹس کی طرح
جب بھی سر اٹھاتے ہیں
کم ظرف سماج کی آری چلنے لگتی ہے
محبت مرنے لگتی ہے

Monday, June 7, 2010

تم نے بھی مر ا غور سے چہرہ نہیں دیکھا

تم نے بھی مر ا غور سے چہرہ نہیں دیکھا
باتیں تو سنی ہیں کبھی لہجہ نہیں دیکھا

اس دشتِ محبت میں سزا ہو کہ جزا ہو
اس دشت کا زائر کبھی ٹھہرا نہیں دیکھا

ایمان سمجھتے ہو محبت میں وفا کو
لگتا ہے ابھی تم نے زمانہ نہیں دیکھا

اک رات کوئی چاند مری آنکھ میں اترا
پھر عمر کٹی یوں کہ سویرا نہیں دیکھا

دامن میں بھری آگ تو دل کیوں نہ جلے گا
صدیوں سے کوئی معجزہ ہوتا نہیں دیکھا

اس محبت میں سبھی آبلہ پا دیکھے ہیں

کبھی قسمت سے کبھی خود سےخفا دیکھے ہیں
اس محبت میں سبھی آبلہ پا دیکھے ہیں

درد آیا ہے تو کچھ روز ٹھہر جانے دے
آنکھ نے پہلی دفعہ داغِ وفا دیکھے ہیں

Saturday, June 5, 2010

یہ محبت تھی دوریوں کے سبب

سوچ تیری زباں مری ہو گی
اب محبت میں خود کشی ہو گی

یہ محبت تھی دوریوں کے سبب
پاس آئے تو بحث ہی ہو گی

خوش رہوں گا تو چپ رہوں گا میں
دل جلے گا تو شاعری ہو گی

روشنی کی لکیر دیکھی ہے
ہچکی شمع کی آخری ہو گی

درد کندن بنا گیا اب کے
اب تو قسمت بھی سوچتی ہو گی

کوئی آئے مجھے کتاب کرے

ذات میری کتاب تھی کوئی
رنگ برنگی کہانیوں والی
کچھ محبت کے خواب رکھے تھے
کچھ خیالوں کے چاند بستے تھے
بہت بکتی تھی بازاروں میں
میرا محبوب حسد کر بیٹھا
پرزہ پرزہ اڑا گیا مجھ کو
لفظ سارے ہی چھِل گئے تن سے
کورا کاغذ بنا گیا مجھ کو
میری آنکھوں میں پھر سے خواب بھرے
کوئی آئے مجھے کتاب کرے

Friday, June 4, 2010

جاتے جاتے دل بے کار کا سودا کر دوں

سوچتا ہو ں کہ اب اظہار تمنا کر دوں
جاتے جاتے دل بے کار کا سودا کر دوں

ہے محبت تو زمانے کی روایت کیسی
توڑ کر ساری حدیں راز کو افشا کر دوں

ضد یہ تیری کہ تجھے چاہوں فقط یادوں میں
شوق میرا کہ ترے نام کا چرچا کر دوں

ایک پل کے لیےتم نے جو مجھےچاہا تھا
عمر ساری اسی اک پل پہ ہی صدقہ کر دوں

حسن نکھرا کہ مری آنکھ جمالی ہوئی
دل یہ کہتا ہے کہ تصویر وہ چہرہ کر دوں

ملاتو ہے سوال اور کا تھا

بات تیری خیال اور کا تھا
ملاتو ہے سوال اور کا تھا

تجھے چاہا بہت مگر ایسے
شکل تیری جمال اور کا تھا

عمر ساری ترے ہی نام مگر
تو ملا جب وہ سال اور کا تھا

وصل کی شب یہ سانحہ تھاعجیب
جسم تیرا وصال اور کا تھا

تم تو رستے میں مل گئے یوں ہی
دل کی منزل جمال اور کا تھا

Thursday, June 3, 2010

نکل کر تیرے کوچے سے کدھر کا رخ کریں بابا

نکل کر تیرے کوچے سے کدھر کا رخ کریں بابا
ترے طعنے ہی ملتے ہیں جدھر کا رخ کریں بابا

درد کے ساتھ دوا بھی دے گا

درد دے گا تو دوا بھی دے گا
زخم کے ساتھ ہوا بھی دے گا

ہجر میں درد سے ڈرتے کیوں ہے
رفتہ رفتہ یہ مزہ بھی دے گا

عشق میں وصل گناہوں جیسا
وصل دے گا تو سزا بھی دے گا

تیری آنکھوں میں ڈبونے والا
دل کے رستے کا پتہ بھی دے گا

مسکرا کر ترا ملنا مجھ سے
اچھا لگتا ہے دغا بھی دے گا

عشق اور وہ بھی بڑھاپے کا ریحاں
لطف دے گا تو جلا بھی دے گا

Wednesday, June 2, 2010

جانےکب تک ستائے گی دنیا


پھر محبت نے پکارا ہے مجھے
ایک دیوار کے پیچھے سے
ایک دیوار کہ جس کہ اندر
کوئی دروازہ ہے کھڑکی ہے نہ روشنداں
جانےکب تک ستائے گی دنیا

ہماری قسمتوں کےبننے میں بس ایک خامی ہے

ہماری قسمتوں کےبننے میں بس ایک خامی ہے
کبھی بھی یہ ہمارے دل کی مرضی سے نہیں بنتیں

Tuesday, June 1, 2010

خواب جینے کا سہارا تھے مگر تیرے بغیر

ایسا لگتا ہے مقدر نہیں ہرنے والا
مر بھی جائوں تو وہ میرا نہیں بننے والا

ایک بھی سانس گوارا نہ تھی جس کو تم بن
کیسے اجڑا ہے وہ دل پیار میں بسنے والا

خواب جینے کا سہارا تھے مگر تیرے بغیر
آنکھ کا نیند سے رشتہ نہیں جڑنے والا

بے دلی سے دم رخصت یوں ملائیں نظریں
جیسے سب چھوڑ گیا پاس سے اٹھنے والا

ہاں مگر سوچ ہماری پہ تو حق ہے اپنا
سوچ میں قید ہے اب چھوڑ کے جانے والا

اول اول تو وہ کرتا تھا شکایت میری

اول اول تو وہ کرتا تھا شکایت میری
اب مری بات پہ موضوع ہی بدل جاتا ہے

Monday, May 31, 2010

رتجگے بڑھتے چلے آتے ہیں قاتل کی طرح

رتجگے بڑھتے چلے آتے ہیں قاتل کی طرح
جسم کچھ روز میں ہو جائے گا مقتل کی طرح

عشق نے پھر سے دلِ زار پہ دستک دے دی
کھول کر بازو ملا دل بھی مقابل کی طرح

یہ پڑی جان یہ دل اور یہ دستار بھی ہے!
اور تو اب بھی مجھے دیکھے ہے سائل کی طرح

تپتا صحر ا ہوں میں اک بوند گراتے جائو
حسن چھلکائے ہوئے پھرتے ہو چھاگل کی طرح

باندھ لو سر پہ کفن آج تو طوفاں ہو گا
حسن پھر ہم پہ برسنے کو  ہےبادل کی طرح

عشق تیر ا ہے کہ جادو سا ہوا ہے مجھ پر
میں کہ کھنچتا ہی چلا جاتا ہو ں آنچل کی طرح

تیری باتوں سے بھی زیادہ تری چپ لے بیٹھی
میں اترتا ہی گیا آنکھوں میں دلدل کی طرح

اپنے پیروں میں جو  روندھا تھا حقارت سے کبھی
اب اسے ڈھونڈتا پھرتا ہوں میں پاگل کی طرح
 

جب اچھالیں لوگ پتھر پھول پھل بھی کیا کریں



ہم نے اپنی کھیتی سینچی ، وقت سے کچھ پہلے ہی
اس لیے تو، ٹوٹی  ٹہنی، وقت سے کچھ پہلے ہی

جب اچھالیں لوگ پتھر پھول پھل بھی کیا کریں
ہو گئی ہے شاخ خالی ، وقت سے کچھ پہلے ہی

عشق کی چاپ سنائی دی ہے


عشق کی چاپ سنائی دی ہے
آگ ہی آگ دکھائی دی ہے

جان سے جسم جدا ہو جیسے
آج یوں تجھ کو دہائی دی ہے

وقت نے زخم دیے ہیں ہم کو
اور قسمت نے جدائی دی ہے

اک جھلک تیری چرانے کے لیے
عمر کی ساری کمائی دی ہے

دلِ وحشی کا نہ پوچھے کوئی
جب سے وہ شکل دکھائی دی ہے

عشق ضدی نہیں مانا اک بھی
عقل نے لاکھ صفائی دی ہے

وہم میرا ہے کہ روتا ہے وہ؟
درد کی ہوک سنائی دی ہے

غم کا سیلاب امڈ آنے دو
ضبط نے آج رہائی دی ہے

میرا محبوب ہے مجھ سے بڑھ کر
ہاتھ مانگا تھا کلائی دی ہے

Sunday, May 30, 2010

کیسے آنکھوں سے وہ چہرہ جائے

کیسے آنکھوں سے وہ چہرہ جائے
دیکھنا جس کا نہ دیکھا جائے

آنکھ ملتے ہی بکھر جاتا ہے
بات سے کیسے سمیٹا جائے

سب ستم بھول کے جو ملتا ہے
کیسے وہ شخص بھلایا جائے

ہم ہوئےغیر مگر اس کی تو
یہی ضد ہے اسے چاہا جائے

مسکرائے تو مری سانس رکے
حسن کیسے یہ سنبھالا جائے

تیری آنکھوں سے پیے جام بہکتا ہوں میں

تیری آنکھوں سے پیے جام بہکتا ہوں میں
تن بدن پھول کھلے آج مہکتا ہوں میں

تیری باتیں ہیں کہ ساون کی پھسلتی بوندیں
یوں بھگوتی ہیں کہ پتوں سا ٹپکتا ہوں میں

مسکراو  تو مجھے ریت سا کر دیتے ہو
اپنے ہاتھوں سے ہی پھر آپ سرکتا ہوں میں

میری پلکوں سے تجھے باندھا ہے رب نے شاید
جس طرف دیکھوں تجھے سامنے پاتا ہوں میں

آنکھ ملتے ہی وہ آنچل سے الجھ جاتا ہے
اس لیے جان کے آنکھوں کو جھپکتا ہوں میں

وقت بدلا ہے مگر وہ نہیں بدلا ریحان
جب بھی ملتا ہے وہ ماضی میں پلٹتا ہوں میں

Saturday, May 29, 2010

خار کو پھول بنانا ہو گا

خار کو پھول بنانا ہو گا
پیار ظالم کو سکھانا ہوگا

کیوں محبت سے مجھے دیکھتے ہو
پھر مجھے چھوڑ کے جانا ہوگا

عمر ساری ہی گزر جائے گی
زخم دل کا نہ پرانا ہو گا

اتنی بے چین ہوئے جاتی ہے
آنکھ کا دل پہ نشانہ ہو گا

اس کی نظروں میں جگہ پانے کو
آنکھ میں دیپ جلانا ہو گا

خاک کو سونا سمجھتے تھے جب
تیری چاہت کا زمانہ ہو گا

یہ جو روکے نہ رکے اس کا ضرور
تیری چوکھٹ پہ ٹھکانہ ہو گا

دیر کردی بڑی آنے میں پیا
اب تمہیں لوٹ کے جانا ہو گا

جسم کا کھیت کھلا چھوڑا تھا
اب کوئی پھول نہ دانہ ہو گا

وہی اک پل جو خطا کر بیٹھے
سارے اشکوں کا بہانہ ہو گا

ہو کے آیا  ترے کوچے سےیہ دل
اب کئی دن تو ستانا ہو گا

Friday, May 28, 2010

وہ مجھے چاند کہا کرتی تھی

وہ مجھے چاند کہا کرتی تھی
چاند کی طرح تنہا رہتا ہوں
جلتا اور کبھی بجھتا رہتا ہوں
چاند کی طرح سینے پہ داغ لیے پھرتا ہوں
وہ مجھے چاند کہا کرتی تھی

شاعر - انجینئر خرم مسعود - ساہیوال

بہت ہی سست طبیعت تھا میں محبت میں

 میں مر رہا تھا اچانک تمہاری یاد آئی
تمہاری یاد کے صدقے سنبھل گیا ہوں میں

بہت ہی سست طبیعت تھا میں محبت میں
تو جب سے آیا ہے دل میں بدل گیا ہوں میں

پیار کے ایسے سہاروں کی ثنا ہو کیوں کر

اے خدا تیرے نظاروں کی ثنا ہو کیوں کر
چاندنی رات ستاروں کی ثنا ہو کیوں کر

کوکھ دھرتی کی بھری سبزہ و گل سے یا رب
رنگ و خوشبو کی بہاروں کی ثنا ہو کیوں کر

جلتے صحرا کو خبر پانی کی ٹھنڈک کیا
نرم بارش کی پھواروں کی ثنا ہو کیوں کر

ماں کی ممتا میں چھپی تیری محبت یارب
پیار کے ایسے سہاروں  کی ثنا ہو کیوں کر

کسی غریب کے چولہے سا جل رہا ہے دل

پکا کے خواب کوئی پھر بہل رہا ہے دل
کسی غریب کے چولہے سا جل رہا ہے دل

نہ کوئی آس نہ سپنا نہ کوئی اپنا ہے
بس ایک درد کے ٹکڑوں پہ پل رہا ہے دل

صبح سے آنکھ کی کھڑکی سے اٹھ رہا ہے دھواں
نہ جانے کس کے تصور میں جل رہا دل

بکھر گیا وہ گلاب اور رت بدل بھی گئی
ابھی بھی خوشبو کے دھوکے میں چل رہا ہے دل

میں جم چکا ہوں  زمانے کی سرد راہوں پر
تری چھوَن کے خیالوں میں جل رہا ہے دل

Thursday, May 27, 2010

ہم نہ آتے تھے دنیا میں پھر بھی ہم کو دنیا میں لایا گیا ہے

ہم نہ آتے تھے دنیا میں پھر بھی  ، ہم کو دنیا میں لایا گیا ہے
روتے روتے ہی کھولی تھی آنکھیں، عمر بھر بھی رلایا گیا ہے

تم تو ناداں ہو کرتے ہو کوشش ، ایک لمحہ ٹھہر کر نہ دیکھا
ہے مقدر کا سارا  تماشا ، تم کو پتلی بنایا گیا ہے

روشنی کی حفاظت کو جس نے ، خوں جلایا تھا سارے بدن کا
صبح آئی تو لوگوں نے دیکھا ، اس کو سولی چڑھایا گیا ہے

ساقیا تیری آنکھوں پہ قرباں ، دیکھتے ہی سرور آگیا ہے
عمر بھر کی مسافت کا قرضہ ، ایک پل میں چکایا گیا ہے

میں سمندر کو پی کر بھی پیاسا ، تیرے پہلو میں جی کر بھی تنہا
عشق کی بددعا ہو جسے وہ ، کب کسی سے منایا گیا ہے

جسم پر کوئی  قبضہ جمائے ، کوئی خوابوں خیالوں سے کھیلے
تجھ کو کھو کر یوں بانٹا ہے خود کو، جیسے ورثہ لٹایا گیا ہے


Wednesday, May 26, 2010

آج کسی غریب کے چولہے کی طرح

آج کسی غریب کے چولہے کی طرح
جلا ہے دل
اور ہم نے بھی
کسی غریب بیوہ عورت کی طرح
ماضی کی کسی خوشگوار یاد میں گم
اٹھنے دیا ہے دھواں بہت دیر تلک

 خرم مسعود - مکینیکل انجینیر  - ساہیوال

Monday, May 24, 2010

زندگی ہم نے گزاری ہے کہ رب جانتا ہے

زندگی ہم نے گزاری ہے کہ رب جانتا ہے
 جنگ یہ جیت کہ ہاری ہے کہ رب جانتا ہے

ہم نے دیکھا ہیں نہیں ہاتھ بٹا نے والا
ایک بس جان ہماری ہے کہ رب جانتا ہے

ہم تو بس سانس کے رشتے سے بندھے جاتے ہیں
عمر صدیوں سے تمہاری ہے کہ رب جانتا ہے

وہ جب آئے تو مجھے چین سا آجاتا ہے
ورنہ تو وہ بےقراری ہے کہ رب جانتا ہے

نظرِ بد سے تری آنکھوں کو بچانے کیلیے
جان کی نذر اتاری ہے کہ  رب جانتا ہے

میں جو بکھرا تری آنکھوں نے سمیٹا مجھ کو
 تم نے یوں عمر سنواری ہے کہ رب جانتا ہے

Sunday, May 23, 2010

ہار کر ہم نے ترے ہاتھ پہ قسمت رکھ دی

عمر بھر تم نے جدائی کی جو صورت رکھ دی
ہار کر ہم نے ترے ہاتھ پہ قسمت رکھ دی

ہم کو آتا ہی نہ تھا تجھ سے بدل کر جینا
خود فریبی کو ذرا دل میں عداوت رکھ دی

حوصلہ مجھ میں نہ تھا تیرے  قریب آنے کا
تو نے  تو راہ میں ہر سمت محبت رکھ دی

درد آیا تھا  کوئی چاند سا چہرہ اوڑھے
ہم نے قدموں میں دل و جان کی دولت رکھ دی

اب مقدر کے سبھی وار میں سہہ لیتا ہوں
میرے محبوب نے مجھ میں وہ اذیت رکھ دی

سال ہا سال سے زندہ ہوں  مگر پھر بھی کیوں
مجھ کو لگتا ہے کہ ہر سانس امانت رکھ دی

Friday, May 21, 2010

یقیں مجھ کو نہیں آتا

بٹی ہے ذات یوں میری ، یقیں مجھ کو نہیں آتا
ابھی تک سانس ہے باقی ، یقیں مجھ کو نہیں آتا

پکڑ کر ہاتھ سورج کا ، میں سایہ ڈھونڈنے نکلا
ڈگر کس کی، طلب کس کی  ، یقیں مجھ کو نہیں آتا

وہ میرے سامنے تو ہے، مگر بالکل نہ ہونے سا
وہ خود آیا کہ شکل اس کی  ، یقیں مجھ کو نہیں آتا

وہ جس کی خواہشیں لے کر ، سفر کر ڈالا عمروں کا
فقط مورت تھی مٹی کی  ، یقیں مجھ کو نہیں آتا

میں تجھ کو چھو تو سکتا ہوں مگر احساس بنجر ہے
یہ محفل ہے کہ تنہائی  ، یقیں مجھ کو نہیں آتا

ہوا ہوں درد سے بے خود ، مجھے اب درد کیا دو گے
میں ہوں بھی کہ نہیں ہوں جی  ، یقیں مجھ کو نہیں آتا

کچھ ایسا وسوسہ رکھا ہے اس نے اپنے رشتے میں
کہ خود سےدیکھ لوں پھر بھی  ، یقیں مجھ کو نہیں آتا

Thursday, May 20, 2010

محبت والی آنکھوں میں کبھی کاجل نہیں رہتا

لٹک جاتا ہے پلکوں سے کسی من موجی بچے سا
محبت والی آنکھوں میں کبھی کاجل نہیں رہتا

وہ پورا چاند آنکھوں سے کبھی اوجھل نہیں ہوتا

بہت  مصروف ہوتا ہوں مگر غافل نہیں ہوتا
وہ پورا چاند آنکھوں سے کبھی اوجھل نہیں ہوتا

ہزاروں ان کہی باتیں نہ جانے کتنے  سالوں کی
محبت کے سفینوں کا کوئی ساحل نہیں ہوتا

نہ جانا ہم نے حال ان کا، نہ کھولا ان پہ حال اپنا
زباں سے گر بیاں نہ ہو تو کچھ حاصل نہیں ہوتا

بھلا دوں گا سبھی کچھ میں مگر بے چین وہ آنکھیں
جنہیں گر بھولنا چاہوں تو دل مائل نہیں ہوتا

سطح پر تیرتے رہنا ، ہے چکنائی طبیعت کی
میں شاعر ہوں کبھی بھی میں، کسی میں حل نہیں ہوتا

Wednesday, May 19, 2010

دو چار سال جوانی کا ابال ہوتا ہے

دو چار سال
 جوانی کا ابال ہوتا ہے
پھر ساری عمر
 ہلکی آنچ پہ پکتی ہے
اول اول
سب کا ہی خیال ہوتا ہے
آخر آخر
 خود سے بھی جان جانے لگتی ہے

ابھی تو درد سویا تھا

ابھی تو درد سویا تھا
بڑی ہی مشکلوں کے بعد
کہاں سے تم چلے آئے
زمیں پہ پیر    پٹخاتے
تمہاری یاد تو دل میں
یوں پائوں دابے آتی تھی
کہ آہٹ تک نہ ہوتی تھی
پہ تم تو ڈھول جیسے ہو
یہاں اب درد سوئے کیا
ابھی تو درد سویا تھا!

مجھ کو دیوانہ بنا ڈالے گا برسات کا موسم

مجھ کو دیوانہ بنا ڈالے گا برسات کا موسم
اور پھر اس پہ غضب تیری ملاقات کا موسم

درد صدیوں کا سمٹ جائے تری ایک نظر میں
تو جو چاہے تو بدل سکتا ہے حالات کا موسم

آنکھ سے آنکھ چھلکتی ہو نشہ تیر رہا ہو
ہو نہ ہو ہم پہ بھی اک روز عنایات کا موسم

تپتے تن پر جو گرے بوند وہ موتی ہے سمجھ لو
روح میں پھول اگاتا ہے یہ برسات کا موسم

چاہنے والے مجھے بانٹ گئے مال کی صورت
میرے حصے میں فقط آیا خیالات کا موسم

Thursday, May 13, 2010

کبھی یہ غم کبھی وہ غم ، بہت ہی رائیگاں گزری

کبھی یہ غم کبھی وہ غم ، بہت ہی رائیگاں گزری
ہمیشہ سوچتے ہیں ہم ، بہت ہی رائیگاں گزری

نہ ساون بھیگ کر دیکھا ، نہ تتلی کا سفر دیکھا
نہ دیکھی پھول پر شبنم ، بہت ہی رائیگاں گزری

سجائے خواب آنکھوں نے ، مگر یہ پیٹ خالی تھا
اسے بھرتے رہے ہیں ہم ،  بہت ہی رائیگاں گزری

محبت روز آتی تھی، ہمیں فرصت نہ ہوتی تھی
ہمیں تو کام تھا پیہم ،  بہت ہی رائیگاں گزری

گلابوں کو کتابوں میں سنا رکھتے ہیں دل والے
چمن سے تھا گزر کم کم ،  بہت ہی رائیگاں گزری

ہمیں تم سے اکیلے میں ذرا  اک بات کہنی تھی
پہ یہ بھی نہ ہوا ہمدم ،  بہت ہی رائیگاں گزری

بہت ہی سوچ کر ہم نے، فقط اک تم کہ چاہا تھا
مگر تم بھی وہی ظالم ،  بہت ہی رائیگاں گزری


مرے رشتے تو لاشے تھے ، جو کاندھے پر اٹھا ئے تھے
دعا ہونٹوں پہ آنکھیں نم ،  بہت ہی رائیگاں گزری

Tuesday, May 11, 2010

جنت کی دعائیں کون کرے

"جو میرا ہے
وہ سب تیرا ہے
جو تیرا ہے
وہ تو تیرا ہے ہی!"
کل باتوں باتوں ماں مجھ کو سمجھا رہی تھی
اور میں سوچ رہا تھا
گر سارے رشتے ماں سے ہوں
تو اس دنیا میں آکر
جنت کی دعائیں کون کرے

ساری دنیا چھانٹ کے دیکھ لی ، کوئی خاص ہے تو وہ پیار ہے

میں نےدنیا چھانٹ کے دیکھ لی ، کوئی خاص ہے تو وہ پیار ہے
بڑی پھیکی پھیکی ہے زندگی ، جو مٹھاس ہے تو وہ پیار  ہے

یوں بھرا بھرا سا ہے جی مرا ، جیسے عمر صدیوں کی جی چکا
بڑا بے طلب سا ہے رابطہ ، کوِئی پیاس ہے تو وہ پیار ہے

کئی امتحاں کئی آفتیں ، کہ قدم قدم پہ ہیں سازشیں
یہاں ہر گھڑی ہے قیامتیں ، مجھے راس ہے تو وہ پیار ہے

بڑا خود غرض سا تھا راستہ ، جانے کون کس کو کچل گیا
مجھے زندگی نے تھکا دیا ابھی سانس ہے تو وہ پیار ہے

یہ لہو لہو سا نگر ترا ، جانے کون کس کی غذا ہوا
یہاں نفسا نفسی کا ماجرا ، ذرا آس ہے تو وہ پیار ہے

نہ زمیں رہی ، نہ فلک ملا ، میں کہ درمیاں میں اٹک گیا
میں تو خود ہی خود سے بچھڑ گیا ، مرے  پاس ہے تو وہ پیار ہے

Monday, May 10, 2010

روٹھ کر زمانے سے ، میں کتاب لکھتا ہوں

شکوہ جات لکھتا ہوں ، بے حساب لکھتا ہوں
روٹھ کر زمانے سے ، میں کتاب لکھتا ہوں

ضبط کی کہانی ہے ، ہا ئے کیا جوانی ہے
اس لیے سمندر کو ، میں سراب لکھتا ہوں

آگئی میناروں پر ، اب تو گھر گھر اترے گی
آج کل محبت کو ، آفتاب لکھتا ہوں

لمس بڑھتا آتا ہے ، پھول کی طرف دیکھو
خوشبوئیں نشے میں ہیں ، میں عذاب لکھتا ہوں

روز  میری آنکھوں میں ، میری نیند روتی ہے
روز اس کے ماتھے پہ ، ایک خواب لکھتا ہوں

کہیں کوئی درد رکھا ہے

کہیں کوئی درد رکھا ہے
سینے میں ذرا اندر
شاید دل کے پہلو میں
جیسے دل دھڑکتا ہے
رات دن تسلسل سے
ایسے یہ بھی بجتا ہے
ٹن ٹن تسلسل سے

مائوں کی دعاِئیں ہیں کہ جنت کی ہوائیں

ہم نے نہ کبھی ماں کو خفا ہوتے ہوئے دیکھا
ہر وقت محبت کی دعا ہوتے ہوئے دیکھا

مائوں کی دعاِئیں ہیں کہ جنت کی ہوائیں
تپتے ہوئے رستوں کو صبا ہوتے ہوئے دیکھا

وزن کے لیے
ہوتے = ہت

پھولوں میں گندھی تیری محبت ماں جی

دن رات مرے گھر کا اجالا تم ہو
میں ڈولتی کشتی ہوں سنبھالا تم ہو

آنکھوں میں ترے رب کے کرشمے دیکھوں
دنیا میں خدائی کا حوالہ تم ہوں

پھولوں میں گندھی تیری محبت ماں جی
خوشبو سے بنا پیار کا ہالہ تم ہو

رشتوں کو رویوں پہ پرکھتے ہم ہیں
بے لوث محبت کا حوالہ تم ہو

موسم کی کڑی دھوپ میں ٹھنڈک تم سے
دکھ درد میں سکھ چین کا شالہ تم ہو

دنیا میں مرا ہونا ترے ہونے سے
جیتا ہوں تو جینے کا نوالہ تم ہو

Saturday, May 8, 2010

دیکھو یہ محبت کی بیماری نہیں جاتی

چہرے سے شرافت بھی اتاری نہیں جاتی
بے کار جوانی بھی گزاری نہیں جاتی

کیوں اس کو سمجھتے ہو مداوا غمِ جاں کا
جس شوخ سے اک زلف سنواری نہیں جاتی

پاکر  تجھے دیکھا ہے گنوا کر تجھے دیکھا
دیکھو یہ محبت کی بیماری نہیں جاتی

اب عمرِ گریزاں بھی لگی ہاتھ چھڑانے
لیکن ترے جلو وں کی خماری نہیں جاتی

آنکھوں میں سجا عشق تو دل ہوس بھرا ہے
اس شہر کے مردوں کی عیاری نہیں جاتی

میں کعبے کے اندر تو وہ کافر مرے اندر
حیران ہوں کیوں کھوٹ ہماری نہیں جاتی

Friday, May 7, 2010

سرخ آنچل کوئی مل جائے مجھے درد مرے

سرخ آنچل کوئی مل جائے مجھے درد مرے
اب کے بہنے کو ہیں سب اشک مرے درد مرے

منہ چھپانے کو گھنی زلف کہیں مل جائے
چاہے پھر رات ڈھلے یا نہ ڈھلے درد مرے

روپ کندن سا وہ گر میری اماں میں آئے
رتجگے آنکھوں کے ہو جائیں کھرے درد مرے

پیار ہی پیار نگاہوں میں لیے بیٹھے ہیں
دیکھے دشمن بھی تو لگ جائے گلے درد مرے

دن کے دھکوں نے مجھے توڑ گرایا تھا ریحاں
رات نے جوڑ دیے ٹکڑے مرے درد مرے

Thursday, May 6, 2010

فراغت بانٹ کھائے تو ، محبت میں سمٹ جانا

کبھی دل میں اتر جانا ، کبھی جاں سے لپٹ جانا
فراغت بانٹ کھائے تو ، محبت میں سمٹ جانا

ضروری ہے کہ کچھ دن تم ، نئے لوگوں میں گھل مل لو
پر اکتانے لگے جب دل ، تو پیچھے کو پلٹ جانا

محبت جان لیوا ہے

بہت ہی خشک میوہ ہے
محبت جان لیوا ہے

دیکھو

ڈھول جیسا تھا آدمی کوئی
میرے کانوں میں روز بجتا تھا
شور سے جاں بلکتی رہتی تھی
اور  میں شکوے لکھتا رہتا تھا
آج وہ بھی چلا گیا دیکھو
مجھ میں اب موت سی خموشی ہے
ذات میری کہ قبر ہے کوئی
جاتے جاتے بھی جان لے گیا -------- دیکھو

Wednesday, May 5, 2010

زندگی سوچ کر گزار نہیں

زندگی سوچ کر گزار نہیں
سوچ جذبوں کی پاسدار نہیں

اس جوانی کا کیا حساب اے رب
جس جوانی پہ اختیار نہیں

وہ کسی پر یقین کیا کرتا
جس کو خود پر ہی اعتبار نہیں

عقل سے دل کی بات مت کرنا
عقل لذت سے ہمکنار نہیں

زندگی کیا ندامتیں تجھ پر
ہم تماشائی حصہ دار نہیں

زمیں پہ رکھ کے سبھی غم، کہیں سے آ جائو

بہت حسین ہے موسم کہیں سے آ جائو
بکھرتے جاتے ہیں اب ہم کہیں سے آ جائو

پکڑ کے ہاتھ چلیں سات آسمانوں تک
زمیں پہ رکھ کے سبھی غم، کہیں سے آ جائو

چلیں گے پانی کے اوپر ہوا سے کھیلیں گے
ندی کنارے کھڑے ہم کہیں سے آ جائو

تری آواز میں بہتے ہیں ساز جھرنوں کے
بہت ہی ہو کا ہے عالم کہیں سے آ جائو

تراش لیتا ہوں صورت تری نئی ہر روز
سراب توڑ کے یک دم کہیں سے آ جائو

Sunday, May 2, 2010

جانے کیا سوچ کے رویا ہے یہ بادل لوگو

جانے کیا سوچ کے رویا ہے یہ بادل لوگو
اس نے آنکھوں میں ابھی ڈالا ہے کاجل لوگو

حسن آتا رہا یوں میرے مقابل لوگو
دوست کے روپ میں جیسے کوئی قاتل لوگو

زخم کھلتے ہی گئے میرے بدن کے پل پل
اور سجتا ہی گیا عشق کا مقتل لوگو

موج درد موج جوانی نے بھٹکتے رکھا
اپنی قسمت میں کہا ں لکھا تھا ساحل لوگو

کیا کہیں کیسے کہیں حال محبت والا
باندھ کر اس نے کیے ہونٹ مقفل لوگو

مرضی سے کب تھا چلا مرضی سے رکتا کیسے
میرے پیروں میں تھی حالات کی پایل لوگو

جیسے سونے میں کوئی کھوٹ ملا کر رکھ دے

وہ اگر رونے پہ آئے تو رلا کر رکھ دے
آگ کی طرح جلے سب کو جلا کر رکھ دے

ایک لمحے میں مجھے پھول سا کومل کر دے
ایک لمحے میں مجھے خار بنا کر رکھ دے

دور جائوں تو مری سانس بھی رکھ لے ، لے کر
پاس آئے تو نیا زخم لگا کر رکھ دے

مل گیا مجھ میں وہ اب  شیر و شکر کی صورت
اس کو اب بھولنا چاہوں تو ستا کر رکھ دے

پیار میں درد ملایا ہے کچھ ایسے اس نے
جیسے سونے میں کوئی کھوٹ ملا کر رکھ دے

Saturday, May 1, 2010

اب اگر اجڑے تو پھر بسنے کی صورت ہی نہیں

اب اگر اجڑے تو پھر بسنے کی صورت ہی نہیں
اور پھر یہ بھی کہ اب تیری ضرورت ہی نہیں

یہ نہیں ہے کہ تری جان کے دشمن ہیں ہم
ہاں مگر یہ کہ ذرا تم سے محبت ہی نہیں

اب اگر ہیں تو فقط وقت گزاری کے لیے
اب ترے ساتھ میں پہلی سی وہ راحت ہی نہیں

جبر خود پر بھی کیا رب سے بھی کہہ کر دیکھا
تیرے ہاتھوں میں مرے پیار کی قسمت ہی نہیں

عقل کے ساتھ رہی بات کئی برسوں تک
لیکن اب دل میں وہ پہلی سی اخوت ہی نہیں

ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھیں ہیں ، سو بیٹھیں ہیں
کاسہ خالی ہے ،رہے ، ہم کو ضرورت ہی نہیں

کچی عمروں کی محبت کیا محبت ہے ریحاں
بحث کیا اس پہ کریں جس کی حقیقت ہی نہیں
 

چاند نے ہم کو بھگایا دائرے میں گول گول

چاند نے ہم کو بھگایا دائرے میں گول گول
چاند کو کس نے گھمایا   دائرے میں گول گول

درد کے بنتے گئے حیلے وسیلے خودبخود
غم گلے تک بڑھتا آیا  دائرے میں گول گول

بھولپن کا واقعہ ہے پھر بھی ہم کو یاد ہے
نام جب اس لب پہ آیا  دائرے میں گول گول

آپ کی آنکھوں میں سویا سا کبوتر چاہ کا
دیکھتے ہی پھڑپھڑایا  دائرے میں گول گول

چاہا کس کو مانگا کس کو کچھ غلط تو ہم بھی تھے
وقت کس محور پہ لایا  دائرے میں گول گول

میں بھی انساں ہوں مگر چھلکا اتار آیا ہوں

اپنے چہرے سے ترا چہرا اتار آیا ہوں
آنکھ سے خواب کا ہر نقشہ اتار آیا ہوں

میری صورت سے تمہیں ہوتی ہے وحشت کیونکر
میں بھی انساں ہوں مگر چھلکا اتار آیا ہوں

کہا زبان کا مڑ کر زبان کو آئے

کہا زبان کا مڑ کر  زبان کو آئے
کہ تیر لوٹ کےگویا کمان کو آئے

گرا پڑا تھا تو کہتا تھا وہ خدا ہم کو
سنبھل گیا تو ہماری ہی جان کو آئے


Sunday, April 25, 2010

بے حسی

مرے سامنے ٹپ ٹپ
کسی کی شکا یت خاک میں مل رہی ہے
دھیمے دھیمے سروں میں  کسی کی سسسکی
پنکھے کی آواز میں گھل رہی ہے
اگرچہ لیمپ پہ اڑتے ہوئے پتنگے کے لیے
یہ بہت رقت انگیز منظر ہو گا
لیکن مرے لیے یہ اتنا معمولا اور غیر محسوس ہے
کہ مرے ذہن میں بس اتنا خیال آیا ہے
"رات کا ایک بج گیا ہو گا
 

یہ فطرت کے نظارے

آج سے کئی برس پہلے
پہلے ملن کی شب
بادل یوں دھاڑا تھا
جیسے کسی باپ کا جواں سال اکلوتا بیٹا
اچانک موت نے اچک لیا ہو
آسمان سے پاتال تک ایسے دھارے چھوٹے تھے جیسے
اگلے کئی برس تک آنسوئوں کے لیے پانی کم پڑ جا ئے گا
اس وقت مجھے یہ سب کچھ جشن لگا تھا
آج تجھ کو کھویا ہے تو بادل کا دکھ جانا ہے
اور سمجھ  میں آیا
 ہمارے ملنے پہ بادل کیوں رویا تھا
یہ فطرت کے نظارے
بادل موسم بجلی پھول
 انسان کے کتنے ہمدرد ہیں-
کتنے خیر خواہ ہیں –
محبوبائو ں سے بھی زیادہ!

خود سے ملنے کو تو لمحہ نہیں ملتا اب کے

 خود سے ملنے کو تو لمحہ نہیں ملتا اب کے
دوڑ ہی دوڑ ہے وقفہ نہیں ملتا اب کے

کھینچ کر ایسے بنے وقت کے بخیے کس نے
بال بھر جھول کا دھاگہ نہیں ملتا اب کے

ہاتھ رکھ دو زمین کے اوپر

ایک میں ہوں پڑا ہوں صدیوں سے
ایک دنیا کہ بدلے جاتی ہے

ہاتھ رکھ دو زمین کے اوپر
سالی پھرکی سی گھومے جاتی ہے

عمر یوں یوں گزرتی جاتی ہے

عمر یوں یوں گزرتی جاتی ہے
دل کی حیرانی بڑھتی جاتی ہے

وقت پنجے جمائے بیٹھا ہے
باقی ہر شے پھسلتی جاتی ہے

ساری باتیں نصیب کی باتیں
عقل حیلے بناتی جاتی ہے

کون ہے دفن میرے گائوں میں
یہ زمیں حسن جنتی جاتی ہے

ایک کمہار نے کہا مجھ سے
خاک پیکر بدلتی جاتی ہے

زندگی کی میعاد کیا کہیے
دھول اڑتی بکھرتی جاتی ہے

جونک

آج اک جونک سے ملا ہوں میں
عمر میں مجھ سے دوگنا ہو گی
مجھ سے کہتی کہ مجھ سے پہلے بھی
تین جسموں کا خوں نچوڑ چکی
میری آنکھوں کا رخ بدلنے کو
دکھ بھری داستاں سنانے لگی
اس کی باتوں میں کھو گیا جب میں
اس نے لہجے میں کپکپی بھر لی
اور شہ رگ پہ اس طرح جھپٹی
جیسے مرتے کی آخری ہچکی
شیر جیسے ہو بھوکا پنجرے میں
کوئی چپکے سے کھول دے کھڑکی
عمر اس کی تھی شام کا سورج
بھوک اس کی مگر یہ کہتی تھی
جونک کا پیٹ پھٹ تو سکتا ہے
جونک کی بھوک مٹ نہیں سکتی
آج اک جونک سے ملا ہو میں
عمر میں مجھ سے دوگنا ہو گی

Thursday, April 22, 2010

خواب منہ زور تھے سائل کے سوالوں کی طرح

خواب منہ زور تھے سائل کے سوالوں کی طرح
درد بڑھتا ہی گیا عمر کے سالوں کی طرح

جان بے جان ہوئی جان میں جاں نہ رہی
جسم کوڑا ہوا ٹوٹے ہوئے پیالوں کی طرح

آج بھی پیار پکارے تو چلے آئیں ہم
یہ الگ بات کہ اجڑے ہیں مثالوں کی طرح

یوں گلا پھاڑ کے روتا تھا زمیں ہلتی تھی
درد پھر بھی نہ گیا دل کے حوالوں کی طرح

آنکھ میں آنچ رہے بات سے خوشبو آئے
درد گل رنگ ہے محبوب کے گالوں کی طرح

اتنا نالائق محبت کی پڑھا ئی میں وہ
نوٹ کرتا تھا مرا پیار نقالوں کی طرح

اب کوئی یاد بھی آتا ہے تو ایسے جیسے

اب کوئی یاد بھی آتا ہے تو ایسے جیسے
بے خیالی میں کوئی آنکھ سے گزرے جیسے


غیر محسوس سے لگتے ہیں سبھی لوگ یہاں
پردہِ سیمیں پہ سایوں کے تماشے جیسے


چند رشتوں کو کلیجے سے لگا رکھا ہے
ڈوبتا چاند ستاروں  کو سمیٹے جیسے


درد سے جی ہے بھرا سانس ہے بوجھل بوجھل
آخری بار کوئی دیس سے پلٹے جیسے


یوں لپیٹا ہے تجھے ہار کے جیون سارا
جانے والا کوئی بستر کو لپیٹے جیسے


اپنے اب غیر سے لگتے ہیں غیر اپنے سے
میں ہوا غیر  کہ اب غیر ہیں میرے جیسے


لا تعلق سا ہوا جاتا ہوں سب چیزوں سے
بوڑھا سورج ہو ذرا شام سے پہلے جیسے

Tuesday, April 20, 2010

کبھی مجھے بھی مقدر پہ ٹال رکھتا تھا


اداس چہروں پہ صبحیں اجال رکھتا تھا
تھکن کے ماروں کی سانسیں بحال رکھتا تھا

محبتوں میں وفا پر یقین تھا اس کو
تنازعات کو وہ کل پہ ٹا ل رکھتا تھا

لیے ہے ریت ارادوں کی اپنے ہاتھوں میں
جوپربتوں سے بھی اونچے خیال رکھتا تھا

تھکا دیا تری عادت نے وہ جفاکش بھی
جو روٹھ کر بھی نظر میں جمال رکھتا تھا

دبک کہ بیٹھ گیا گود میں اندھیروں کی
جو اپنے سر پہ چراغوں کے تھال رکھتا تھا

کبھی کبھی تو جھگڑتا تھا ساری دنیا سے
کبھی مجھے بھی مقدر پہ ٹال رکھتا تھا

ہزار حصوں میں تقسیم ہو گیا آخر
قصور یہ کہ میں سب کا خیال رکھتا تھا

Monday, April 19, 2010

توڑ کے پھینک دی کمان ، تیر سبھی جلا دیے

توڑ کے پھینک دی کمان ، تیر سبھی جلا دیے
دام میں جو اسیر تھے ، آج وہ بھی اڑا دیے
بحث چھڑی نصیب سے ، مان گئے نصیب کو
ہار کہ آج خواب بھی ، آنکھ سے سب گرا دیے

Sunday, April 18, 2010

جو پیار کے دھاگوں سے محبوب کے پر باندھے


ہونٹوں سے زباں باندھے ، آنکھوں سے نظر باندھے
اور اٹھنے کا سوچوں تو ، بانہوں سے کمر باندھے

تتلی کا چمن والو، یوں پھول پہ  قبضہ ہے
رنگوں کو چرا کر بھی خوشبو کا سفر باند ھے

یوں پہرا لگائے ہے دن رات مرے اوپر
چپ ہوں تو بگڑ بیٹھے ، بولوں تو ٰعذر باندھے

خود غرض کہیں اس کو ، کم ظرف/عقل کہیں اس کو
جو پیار کے دھاگوں سے محبوب کے پر باندھے

دکھ درد محبت میں کے ہر رنگ میں رہتا ہے
گر ہجر جگر کاٹے تو وصل ہنر باندھے

جاری رکھ مشقِ ستم ایک ستم اور سہی

جاری رکھ مشقِ ستم ایک ستم اور سہی

اس محبت کی نظر ایک جنم اور سہی

شہر کی بھیڑ میں مجھ سے تو ہزاروں ہونگے

شوق تیرا ہے تو سر ایک قلم اور سہی

Saturday, April 17, 2010

خواب کے پھول کو پیروں میں بکھر جانے دو


خواب کے پھول کو پیروں میں بکھر جانے دے
اپنے دیوانے کو رو رو کے ہی مر جانے دے

درد کی قید میں جینے کی یہ شرطیں کیسی
غم کا خنجر مری گردن میں اتر جانے دے

اپنے آنچل سے ہوا دےمرے شعلوں کو اب
راکھ کے ڈھیر کو خوشبو میں بکھر جانے دے

اس سے پہلے کہ تجھے غیر کا ہوتے دیکھوں
لے لے آنکھیں مری مجھ کو بے بصر جانے دے

بخش دو مجھ کو وجود اپنا

بخش دو مجھ کو وجود اپنا



بخش دو مجھ کو وجود اپنا کہ تم کو اس کی ْقدر نہیں ہے !

یہ بکھرے گیسو ، یہ جاگی آنکھیں ، یہ ہنستے آنسو ، یہ روتی سانسیں

اور بے قراری کی دھول تھامے

 یہ تیرے پیروں سے لپٹی راہیں

بدن میں کھلتے گلاب چاہ کے

ہجر کی گرمی میں جل رہے ہیں

بھولی آشا کے ننھے جگنو ، اندوہِ حسرت میں پل رہے ہیں

کھل رہی ہیں بقا کی گرہیں دل کہیں ہے تو جاں کہیں ہے

بخش دو مجھ کو وجود اپنا  کہ تم کو اس کی ْقدر نہیں ہے !

بدن کا تیرے میں خلیہ خلیہ

 کچھ ایسے چوموں گلاب کر دوں

کٹورے ہونٹوں سے پی کے شبنم

رگوں میں تیری شراب بھر دوں

تیری آنکھوں میں جھانک لوں جو

چاند تاروں سے خواب کر دوں

یہ آب زم زم سی باتیں تیری

سنوں تو رشکِ ثواب کر دوں

آئو کہ پہلو میں آ کے بیٹھو، تمہاری جنت و جاں یہیں ہے

بخش دو مجھ کو وجود اپنا  کہ تم کو اس کی ْقدر نہیں ہے !