Sunday, April 24, 2011

یوسف ترا گلیوں میں

اے مصر کے ہرکارو
کہ دویہ زلیخا سے
 کہ خواب کے محلوں سے
باہر کبھی آئے نا!
اس بھوک کی دنیا میں
اس درد کے صحرا میں
کس نرخ پہ بکتا ہے
کس خاک میں تلتا ہے
یوسف ترا گلیوں میں
آکر کبھی دیکھے نا!

وہ فقط سوچ ہے سوچا نہ کرو

وہ فقط سوچ ہے سوچا نہ کرو
ریت کے نقش پہ مچلا نہ کرہ

کانچ کا چاند ہے گر جائے گا
آنکھ بھر کر اسے دیکھا نہ کرو

وقت لوٹا ہے نہ لوٹے گا کبھی
آپ یوں ماضی کو پیٹا نہ کرو

اپنے ہاتھوں سے تراشا ہو جسے
ایسے بت کا کبھی شکوی نہ کرو