Monday, May 31, 2010

رتجگے بڑھتے چلے آتے ہیں قاتل کی طرح

رتجگے بڑھتے چلے آتے ہیں قاتل کی طرح
جسم کچھ روز میں ہو جائے گا مقتل کی طرح

عشق نے پھر سے دلِ زار پہ دستک دے دی
کھول کر بازو ملا دل بھی مقابل کی طرح

یہ پڑی جان یہ دل اور یہ دستار بھی ہے!
اور تو اب بھی مجھے دیکھے ہے سائل کی طرح

تپتا صحر ا ہوں میں اک بوند گراتے جائو
حسن چھلکائے ہوئے پھرتے ہو چھاگل کی طرح

باندھ لو سر پہ کفن آج تو طوفاں ہو گا
حسن پھر ہم پہ برسنے کو  ہےبادل کی طرح

عشق تیر ا ہے کہ جادو سا ہوا ہے مجھ پر
میں کہ کھنچتا ہی چلا جاتا ہو ں آنچل کی طرح

تیری باتوں سے بھی زیادہ تری چپ لے بیٹھی
میں اترتا ہی گیا آنکھوں میں دلدل کی طرح

اپنے پیروں میں جو  روندھا تھا حقارت سے کبھی
اب اسے ڈھونڈتا پھرتا ہوں میں پاگل کی طرح
 

جب اچھالیں لوگ پتھر پھول پھل بھی کیا کریں



ہم نے اپنی کھیتی سینچی ، وقت سے کچھ پہلے ہی
اس لیے تو، ٹوٹی  ٹہنی، وقت سے کچھ پہلے ہی

جب اچھالیں لوگ پتھر پھول پھل بھی کیا کریں
ہو گئی ہے شاخ خالی ، وقت سے کچھ پہلے ہی

عشق کی چاپ سنائی دی ہے


عشق کی چاپ سنائی دی ہے
آگ ہی آگ دکھائی دی ہے

جان سے جسم جدا ہو جیسے
آج یوں تجھ کو دہائی دی ہے

وقت نے زخم دیے ہیں ہم کو
اور قسمت نے جدائی دی ہے

اک جھلک تیری چرانے کے لیے
عمر کی ساری کمائی دی ہے

دلِ وحشی کا نہ پوچھے کوئی
جب سے وہ شکل دکھائی دی ہے

عشق ضدی نہیں مانا اک بھی
عقل نے لاکھ صفائی دی ہے

وہم میرا ہے کہ روتا ہے وہ؟
درد کی ہوک سنائی دی ہے

غم کا سیلاب امڈ آنے دو
ضبط نے آج رہائی دی ہے

میرا محبوب ہے مجھ سے بڑھ کر
ہاتھ مانگا تھا کلائی دی ہے

Sunday, May 30, 2010

کیسے آنکھوں سے وہ چہرہ جائے

کیسے آنکھوں سے وہ چہرہ جائے
دیکھنا جس کا نہ دیکھا جائے

آنکھ ملتے ہی بکھر جاتا ہے
بات سے کیسے سمیٹا جائے

سب ستم بھول کے جو ملتا ہے
کیسے وہ شخص بھلایا جائے

ہم ہوئےغیر مگر اس کی تو
یہی ضد ہے اسے چاہا جائے

مسکرائے تو مری سانس رکے
حسن کیسے یہ سنبھالا جائے

تیری آنکھوں سے پیے جام بہکتا ہوں میں

تیری آنکھوں سے پیے جام بہکتا ہوں میں
تن بدن پھول کھلے آج مہکتا ہوں میں

تیری باتیں ہیں کہ ساون کی پھسلتی بوندیں
یوں بھگوتی ہیں کہ پتوں سا ٹپکتا ہوں میں

مسکراو  تو مجھے ریت سا کر دیتے ہو
اپنے ہاتھوں سے ہی پھر آپ سرکتا ہوں میں

میری پلکوں سے تجھے باندھا ہے رب نے شاید
جس طرف دیکھوں تجھے سامنے پاتا ہوں میں

آنکھ ملتے ہی وہ آنچل سے الجھ جاتا ہے
اس لیے جان کے آنکھوں کو جھپکتا ہوں میں

وقت بدلا ہے مگر وہ نہیں بدلا ریحان
جب بھی ملتا ہے وہ ماضی میں پلٹتا ہوں میں

Saturday, May 29, 2010

خار کو پھول بنانا ہو گا

خار کو پھول بنانا ہو گا
پیار ظالم کو سکھانا ہوگا

کیوں محبت سے مجھے دیکھتے ہو
پھر مجھے چھوڑ کے جانا ہوگا

عمر ساری ہی گزر جائے گی
زخم دل کا نہ پرانا ہو گا

اتنی بے چین ہوئے جاتی ہے
آنکھ کا دل پہ نشانہ ہو گا

اس کی نظروں میں جگہ پانے کو
آنکھ میں دیپ جلانا ہو گا

خاک کو سونا سمجھتے تھے جب
تیری چاہت کا زمانہ ہو گا

یہ جو روکے نہ رکے اس کا ضرور
تیری چوکھٹ پہ ٹھکانہ ہو گا

دیر کردی بڑی آنے میں پیا
اب تمہیں لوٹ کے جانا ہو گا

جسم کا کھیت کھلا چھوڑا تھا
اب کوئی پھول نہ دانہ ہو گا

وہی اک پل جو خطا کر بیٹھے
سارے اشکوں کا بہانہ ہو گا

ہو کے آیا  ترے کوچے سےیہ دل
اب کئی دن تو ستانا ہو گا

Friday, May 28, 2010

وہ مجھے چاند کہا کرتی تھی

وہ مجھے چاند کہا کرتی تھی
چاند کی طرح تنہا رہتا ہوں
جلتا اور کبھی بجھتا رہتا ہوں
چاند کی طرح سینے پہ داغ لیے پھرتا ہوں
وہ مجھے چاند کہا کرتی تھی

شاعر - انجینئر خرم مسعود - ساہیوال

بہت ہی سست طبیعت تھا میں محبت میں

 میں مر رہا تھا اچانک تمہاری یاد آئی
تمہاری یاد کے صدقے سنبھل گیا ہوں میں

بہت ہی سست طبیعت تھا میں محبت میں
تو جب سے آیا ہے دل میں بدل گیا ہوں میں

پیار کے ایسے سہاروں کی ثنا ہو کیوں کر

اے خدا تیرے نظاروں کی ثنا ہو کیوں کر
چاندنی رات ستاروں کی ثنا ہو کیوں کر

کوکھ دھرتی کی بھری سبزہ و گل سے یا رب
رنگ و خوشبو کی بہاروں کی ثنا ہو کیوں کر

جلتے صحرا کو خبر پانی کی ٹھنڈک کیا
نرم بارش کی پھواروں کی ثنا ہو کیوں کر

ماں کی ممتا میں چھپی تیری محبت یارب
پیار کے ایسے سہاروں  کی ثنا ہو کیوں کر

کسی غریب کے چولہے سا جل رہا ہے دل

پکا کے خواب کوئی پھر بہل رہا ہے دل
کسی غریب کے چولہے سا جل رہا ہے دل

نہ کوئی آس نہ سپنا نہ کوئی اپنا ہے
بس ایک درد کے ٹکڑوں پہ پل رہا ہے دل

صبح سے آنکھ کی کھڑکی سے اٹھ رہا ہے دھواں
نہ جانے کس کے تصور میں جل رہا دل

بکھر گیا وہ گلاب اور رت بدل بھی گئی
ابھی بھی خوشبو کے دھوکے میں چل رہا ہے دل

میں جم چکا ہوں  زمانے کی سرد راہوں پر
تری چھوَن کے خیالوں میں جل رہا ہے دل

Thursday, May 27, 2010

ہم نہ آتے تھے دنیا میں پھر بھی ہم کو دنیا میں لایا گیا ہے

ہم نہ آتے تھے دنیا میں پھر بھی  ، ہم کو دنیا میں لایا گیا ہے
روتے روتے ہی کھولی تھی آنکھیں، عمر بھر بھی رلایا گیا ہے

تم تو ناداں ہو کرتے ہو کوشش ، ایک لمحہ ٹھہر کر نہ دیکھا
ہے مقدر کا سارا  تماشا ، تم کو پتلی بنایا گیا ہے

روشنی کی حفاظت کو جس نے ، خوں جلایا تھا سارے بدن کا
صبح آئی تو لوگوں نے دیکھا ، اس کو سولی چڑھایا گیا ہے

ساقیا تیری آنکھوں پہ قرباں ، دیکھتے ہی سرور آگیا ہے
عمر بھر کی مسافت کا قرضہ ، ایک پل میں چکایا گیا ہے

میں سمندر کو پی کر بھی پیاسا ، تیرے پہلو میں جی کر بھی تنہا
عشق کی بددعا ہو جسے وہ ، کب کسی سے منایا گیا ہے

جسم پر کوئی  قبضہ جمائے ، کوئی خوابوں خیالوں سے کھیلے
تجھ کو کھو کر یوں بانٹا ہے خود کو، جیسے ورثہ لٹایا گیا ہے


Wednesday, May 26, 2010

آج کسی غریب کے چولہے کی طرح

آج کسی غریب کے چولہے کی طرح
جلا ہے دل
اور ہم نے بھی
کسی غریب بیوہ عورت کی طرح
ماضی کی کسی خوشگوار یاد میں گم
اٹھنے دیا ہے دھواں بہت دیر تلک

 خرم مسعود - مکینیکل انجینیر  - ساہیوال

Monday, May 24, 2010

زندگی ہم نے گزاری ہے کہ رب جانتا ہے

زندگی ہم نے گزاری ہے کہ رب جانتا ہے
 جنگ یہ جیت کہ ہاری ہے کہ رب جانتا ہے

ہم نے دیکھا ہیں نہیں ہاتھ بٹا نے والا
ایک بس جان ہماری ہے کہ رب جانتا ہے

ہم تو بس سانس کے رشتے سے بندھے جاتے ہیں
عمر صدیوں سے تمہاری ہے کہ رب جانتا ہے

وہ جب آئے تو مجھے چین سا آجاتا ہے
ورنہ تو وہ بےقراری ہے کہ رب جانتا ہے

نظرِ بد سے تری آنکھوں کو بچانے کیلیے
جان کی نذر اتاری ہے کہ  رب جانتا ہے

میں جو بکھرا تری آنکھوں نے سمیٹا مجھ کو
 تم نے یوں عمر سنواری ہے کہ رب جانتا ہے

Sunday, May 23, 2010

ہار کر ہم نے ترے ہاتھ پہ قسمت رکھ دی

عمر بھر تم نے جدائی کی جو صورت رکھ دی
ہار کر ہم نے ترے ہاتھ پہ قسمت رکھ دی

ہم کو آتا ہی نہ تھا تجھ سے بدل کر جینا
خود فریبی کو ذرا دل میں عداوت رکھ دی

حوصلہ مجھ میں نہ تھا تیرے  قریب آنے کا
تو نے  تو راہ میں ہر سمت محبت رکھ دی

درد آیا تھا  کوئی چاند سا چہرہ اوڑھے
ہم نے قدموں میں دل و جان کی دولت رکھ دی

اب مقدر کے سبھی وار میں سہہ لیتا ہوں
میرے محبوب نے مجھ میں وہ اذیت رکھ دی

سال ہا سال سے زندہ ہوں  مگر پھر بھی کیوں
مجھ کو لگتا ہے کہ ہر سانس امانت رکھ دی

Friday, May 21, 2010

یقیں مجھ کو نہیں آتا

بٹی ہے ذات یوں میری ، یقیں مجھ کو نہیں آتا
ابھی تک سانس ہے باقی ، یقیں مجھ کو نہیں آتا

پکڑ کر ہاتھ سورج کا ، میں سایہ ڈھونڈنے نکلا
ڈگر کس کی، طلب کس کی  ، یقیں مجھ کو نہیں آتا

وہ میرے سامنے تو ہے، مگر بالکل نہ ہونے سا
وہ خود آیا کہ شکل اس کی  ، یقیں مجھ کو نہیں آتا

وہ جس کی خواہشیں لے کر ، سفر کر ڈالا عمروں کا
فقط مورت تھی مٹی کی  ، یقیں مجھ کو نہیں آتا

میں تجھ کو چھو تو سکتا ہوں مگر احساس بنجر ہے
یہ محفل ہے کہ تنہائی  ، یقیں مجھ کو نہیں آتا

ہوا ہوں درد سے بے خود ، مجھے اب درد کیا دو گے
میں ہوں بھی کہ نہیں ہوں جی  ، یقیں مجھ کو نہیں آتا

کچھ ایسا وسوسہ رکھا ہے اس نے اپنے رشتے میں
کہ خود سےدیکھ لوں پھر بھی  ، یقیں مجھ کو نہیں آتا

Thursday, May 20, 2010

محبت والی آنکھوں میں کبھی کاجل نہیں رہتا

لٹک جاتا ہے پلکوں سے کسی من موجی بچے سا
محبت والی آنکھوں میں کبھی کاجل نہیں رہتا

وہ پورا چاند آنکھوں سے کبھی اوجھل نہیں ہوتا

بہت  مصروف ہوتا ہوں مگر غافل نہیں ہوتا
وہ پورا چاند آنکھوں سے کبھی اوجھل نہیں ہوتا

ہزاروں ان کہی باتیں نہ جانے کتنے  سالوں کی
محبت کے سفینوں کا کوئی ساحل نہیں ہوتا

نہ جانا ہم نے حال ان کا، نہ کھولا ان پہ حال اپنا
زباں سے گر بیاں نہ ہو تو کچھ حاصل نہیں ہوتا

بھلا دوں گا سبھی کچھ میں مگر بے چین وہ آنکھیں
جنہیں گر بھولنا چاہوں تو دل مائل نہیں ہوتا

سطح پر تیرتے رہنا ، ہے چکنائی طبیعت کی
میں شاعر ہوں کبھی بھی میں، کسی میں حل نہیں ہوتا

Wednesday, May 19, 2010

دو چار سال جوانی کا ابال ہوتا ہے

دو چار سال
 جوانی کا ابال ہوتا ہے
پھر ساری عمر
 ہلکی آنچ پہ پکتی ہے
اول اول
سب کا ہی خیال ہوتا ہے
آخر آخر
 خود سے بھی جان جانے لگتی ہے

ابھی تو درد سویا تھا

ابھی تو درد سویا تھا
بڑی ہی مشکلوں کے بعد
کہاں سے تم چلے آئے
زمیں پہ پیر    پٹخاتے
تمہاری یاد تو دل میں
یوں پائوں دابے آتی تھی
کہ آہٹ تک نہ ہوتی تھی
پہ تم تو ڈھول جیسے ہو
یہاں اب درد سوئے کیا
ابھی تو درد سویا تھا!

مجھ کو دیوانہ بنا ڈالے گا برسات کا موسم

مجھ کو دیوانہ بنا ڈالے گا برسات کا موسم
اور پھر اس پہ غضب تیری ملاقات کا موسم

درد صدیوں کا سمٹ جائے تری ایک نظر میں
تو جو چاہے تو بدل سکتا ہے حالات کا موسم

آنکھ سے آنکھ چھلکتی ہو نشہ تیر رہا ہو
ہو نہ ہو ہم پہ بھی اک روز عنایات کا موسم

تپتے تن پر جو گرے بوند وہ موتی ہے سمجھ لو
روح میں پھول اگاتا ہے یہ برسات کا موسم

چاہنے والے مجھے بانٹ گئے مال کی صورت
میرے حصے میں فقط آیا خیالات کا موسم

Thursday, May 13, 2010

کبھی یہ غم کبھی وہ غم ، بہت ہی رائیگاں گزری

کبھی یہ غم کبھی وہ غم ، بہت ہی رائیگاں گزری
ہمیشہ سوچتے ہیں ہم ، بہت ہی رائیگاں گزری

نہ ساون بھیگ کر دیکھا ، نہ تتلی کا سفر دیکھا
نہ دیکھی پھول پر شبنم ، بہت ہی رائیگاں گزری

سجائے خواب آنکھوں نے ، مگر یہ پیٹ خالی تھا
اسے بھرتے رہے ہیں ہم ،  بہت ہی رائیگاں گزری

محبت روز آتی تھی، ہمیں فرصت نہ ہوتی تھی
ہمیں تو کام تھا پیہم ،  بہت ہی رائیگاں گزری

گلابوں کو کتابوں میں سنا رکھتے ہیں دل والے
چمن سے تھا گزر کم کم ،  بہت ہی رائیگاں گزری

ہمیں تم سے اکیلے میں ذرا  اک بات کہنی تھی
پہ یہ بھی نہ ہوا ہمدم ،  بہت ہی رائیگاں گزری

بہت ہی سوچ کر ہم نے، فقط اک تم کہ چاہا تھا
مگر تم بھی وہی ظالم ،  بہت ہی رائیگاں گزری


مرے رشتے تو لاشے تھے ، جو کاندھے پر اٹھا ئے تھے
دعا ہونٹوں پہ آنکھیں نم ،  بہت ہی رائیگاں گزری

Tuesday, May 11, 2010

جنت کی دعائیں کون کرے

"جو میرا ہے
وہ سب تیرا ہے
جو تیرا ہے
وہ تو تیرا ہے ہی!"
کل باتوں باتوں ماں مجھ کو سمجھا رہی تھی
اور میں سوچ رہا تھا
گر سارے رشتے ماں سے ہوں
تو اس دنیا میں آکر
جنت کی دعائیں کون کرے

ساری دنیا چھانٹ کے دیکھ لی ، کوئی خاص ہے تو وہ پیار ہے

میں نےدنیا چھانٹ کے دیکھ لی ، کوئی خاص ہے تو وہ پیار ہے
بڑی پھیکی پھیکی ہے زندگی ، جو مٹھاس ہے تو وہ پیار  ہے

یوں بھرا بھرا سا ہے جی مرا ، جیسے عمر صدیوں کی جی چکا
بڑا بے طلب سا ہے رابطہ ، کوِئی پیاس ہے تو وہ پیار ہے

کئی امتحاں کئی آفتیں ، کہ قدم قدم پہ ہیں سازشیں
یہاں ہر گھڑی ہے قیامتیں ، مجھے راس ہے تو وہ پیار ہے

بڑا خود غرض سا تھا راستہ ، جانے کون کس کو کچل گیا
مجھے زندگی نے تھکا دیا ابھی سانس ہے تو وہ پیار ہے

یہ لہو لہو سا نگر ترا ، جانے کون کس کی غذا ہوا
یہاں نفسا نفسی کا ماجرا ، ذرا آس ہے تو وہ پیار ہے

نہ زمیں رہی ، نہ فلک ملا ، میں کہ درمیاں میں اٹک گیا
میں تو خود ہی خود سے بچھڑ گیا ، مرے  پاس ہے تو وہ پیار ہے

Monday, May 10, 2010

روٹھ کر زمانے سے ، میں کتاب لکھتا ہوں

شکوہ جات لکھتا ہوں ، بے حساب لکھتا ہوں
روٹھ کر زمانے سے ، میں کتاب لکھتا ہوں

ضبط کی کہانی ہے ، ہا ئے کیا جوانی ہے
اس لیے سمندر کو ، میں سراب لکھتا ہوں

آگئی میناروں پر ، اب تو گھر گھر اترے گی
آج کل محبت کو ، آفتاب لکھتا ہوں

لمس بڑھتا آتا ہے ، پھول کی طرف دیکھو
خوشبوئیں نشے میں ہیں ، میں عذاب لکھتا ہوں

روز  میری آنکھوں میں ، میری نیند روتی ہے
روز اس کے ماتھے پہ ، ایک خواب لکھتا ہوں

کہیں کوئی درد رکھا ہے

کہیں کوئی درد رکھا ہے
سینے میں ذرا اندر
شاید دل کے پہلو میں
جیسے دل دھڑکتا ہے
رات دن تسلسل سے
ایسے یہ بھی بجتا ہے
ٹن ٹن تسلسل سے

مائوں کی دعاِئیں ہیں کہ جنت کی ہوائیں

ہم نے نہ کبھی ماں کو خفا ہوتے ہوئے دیکھا
ہر وقت محبت کی دعا ہوتے ہوئے دیکھا

مائوں کی دعاِئیں ہیں کہ جنت کی ہوائیں
تپتے ہوئے رستوں کو صبا ہوتے ہوئے دیکھا

وزن کے لیے
ہوتے = ہت

پھولوں میں گندھی تیری محبت ماں جی

دن رات مرے گھر کا اجالا تم ہو
میں ڈولتی کشتی ہوں سنبھالا تم ہو

آنکھوں میں ترے رب کے کرشمے دیکھوں
دنیا میں خدائی کا حوالہ تم ہوں

پھولوں میں گندھی تیری محبت ماں جی
خوشبو سے بنا پیار کا ہالہ تم ہو

رشتوں کو رویوں پہ پرکھتے ہم ہیں
بے لوث محبت کا حوالہ تم ہو

موسم کی کڑی دھوپ میں ٹھنڈک تم سے
دکھ درد میں سکھ چین کا شالہ تم ہو

دنیا میں مرا ہونا ترے ہونے سے
جیتا ہوں تو جینے کا نوالہ تم ہو

Saturday, May 8, 2010

دیکھو یہ محبت کی بیماری نہیں جاتی

چہرے سے شرافت بھی اتاری نہیں جاتی
بے کار جوانی بھی گزاری نہیں جاتی

کیوں اس کو سمجھتے ہو مداوا غمِ جاں کا
جس شوخ سے اک زلف سنواری نہیں جاتی

پاکر  تجھے دیکھا ہے گنوا کر تجھے دیکھا
دیکھو یہ محبت کی بیماری نہیں جاتی

اب عمرِ گریزاں بھی لگی ہاتھ چھڑانے
لیکن ترے جلو وں کی خماری نہیں جاتی

آنکھوں میں سجا عشق تو دل ہوس بھرا ہے
اس شہر کے مردوں کی عیاری نہیں جاتی

میں کعبے کے اندر تو وہ کافر مرے اندر
حیران ہوں کیوں کھوٹ ہماری نہیں جاتی

Friday, May 7, 2010

سرخ آنچل کوئی مل جائے مجھے درد مرے

سرخ آنچل کوئی مل جائے مجھے درد مرے
اب کے بہنے کو ہیں سب اشک مرے درد مرے

منہ چھپانے کو گھنی زلف کہیں مل جائے
چاہے پھر رات ڈھلے یا نہ ڈھلے درد مرے

روپ کندن سا وہ گر میری اماں میں آئے
رتجگے آنکھوں کے ہو جائیں کھرے درد مرے

پیار ہی پیار نگاہوں میں لیے بیٹھے ہیں
دیکھے دشمن بھی تو لگ جائے گلے درد مرے

دن کے دھکوں نے مجھے توڑ گرایا تھا ریحاں
رات نے جوڑ دیے ٹکڑے مرے درد مرے

Thursday, May 6, 2010

فراغت بانٹ کھائے تو ، محبت میں سمٹ جانا

کبھی دل میں اتر جانا ، کبھی جاں سے لپٹ جانا
فراغت بانٹ کھائے تو ، محبت میں سمٹ جانا

ضروری ہے کہ کچھ دن تم ، نئے لوگوں میں گھل مل لو
پر اکتانے لگے جب دل ، تو پیچھے کو پلٹ جانا

محبت جان لیوا ہے

بہت ہی خشک میوہ ہے
محبت جان لیوا ہے

دیکھو

ڈھول جیسا تھا آدمی کوئی
میرے کانوں میں روز بجتا تھا
شور سے جاں بلکتی رہتی تھی
اور  میں شکوے لکھتا رہتا تھا
آج وہ بھی چلا گیا دیکھو
مجھ میں اب موت سی خموشی ہے
ذات میری کہ قبر ہے کوئی
جاتے جاتے بھی جان لے گیا -------- دیکھو

Wednesday, May 5, 2010

زندگی سوچ کر گزار نہیں

زندگی سوچ کر گزار نہیں
سوچ جذبوں کی پاسدار نہیں

اس جوانی کا کیا حساب اے رب
جس جوانی پہ اختیار نہیں

وہ کسی پر یقین کیا کرتا
جس کو خود پر ہی اعتبار نہیں

عقل سے دل کی بات مت کرنا
عقل لذت سے ہمکنار نہیں

زندگی کیا ندامتیں تجھ پر
ہم تماشائی حصہ دار نہیں

زمیں پہ رکھ کے سبھی غم، کہیں سے آ جائو

بہت حسین ہے موسم کہیں سے آ جائو
بکھرتے جاتے ہیں اب ہم کہیں سے آ جائو

پکڑ کے ہاتھ چلیں سات آسمانوں تک
زمیں پہ رکھ کے سبھی غم، کہیں سے آ جائو

چلیں گے پانی کے اوپر ہوا سے کھیلیں گے
ندی کنارے کھڑے ہم کہیں سے آ جائو

تری آواز میں بہتے ہیں ساز جھرنوں کے
بہت ہی ہو کا ہے عالم کہیں سے آ جائو

تراش لیتا ہوں صورت تری نئی ہر روز
سراب توڑ کے یک دم کہیں سے آ جائو

Sunday, May 2, 2010

جانے کیا سوچ کے رویا ہے یہ بادل لوگو

جانے کیا سوچ کے رویا ہے یہ بادل لوگو
اس نے آنکھوں میں ابھی ڈالا ہے کاجل لوگو

حسن آتا رہا یوں میرے مقابل لوگو
دوست کے روپ میں جیسے کوئی قاتل لوگو

زخم کھلتے ہی گئے میرے بدن کے پل پل
اور سجتا ہی گیا عشق کا مقتل لوگو

موج درد موج جوانی نے بھٹکتے رکھا
اپنی قسمت میں کہا ں لکھا تھا ساحل لوگو

کیا کہیں کیسے کہیں حال محبت والا
باندھ کر اس نے کیے ہونٹ مقفل لوگو

مرضی سے کب تھا چلا مرضی سے رکتا کیسے
میرے پیروں میں تھی حالات کی پایل لوگو

جیسے سونے میں کوئی کھوٹ ملا کر رکھ دے

وہ اگر رونے پہ آئے تو رلا کر رکھ دے
آگ کی طرح جلے سب کو جلا کر رکھ دے

ایک لمحے میں مجھے پھول سا کومل کر دے
ایک لمحے میں مجھے خار بنا کر رکھ دے

دور جائوں تو مری سانس بھی رکھ لے ، لے کر
پاس آئے تو نیا زخم لگا کر رکھ دے

مل گیا مجھ میں وہ اب  شیر و شکر کی صورت
اس کو اب بھولنا چاہوں تو ستا کر رکھ دے

پیار میں درد ملایا ہے کچھ ایسے اس نے
جیسے سونے میں کوئی کھوٹ ملا کر رکھ دے

Saturday, May 1, 2010

اب اگر اجڑے تو پھر بسنے کی صورت ہی نہیں

اب اگر اجڑے تو پھر بسنے کی صورت ہی نہیں
اور پھر یہ بھی کہ اب تیری ضرورت ہی نہیں

یہ نہیں ہے کہ تری جان کے دشمن ہیں ہم
ہاں مگر یہ کہ ذرا تم سے محبت ہی نہیں

اب اگر ہیں تو فقط وقت گزاری کے لیے
اب ترے ساتھ میں پہلی سی وہ راحت ہی نہیں

جبر خود پر بھی کیا رب سے بھی کہہ کر دیکھا
تیرے ہاتھوں میں مرے پیار کی قسمت ہی نہیں

عقل کے ساتھ رہی بات کئی برسوں تک
لیکن اب دل میں وہ پہلی سی اخوت ہی نہیں

ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھیں ہیں ، سو بیٹھیں ہیں
کاسہ خالی ہے ،رہے ، ہم کو ضرورت ہی نہیں

کچی عمروں کی محبت کیا محبت ہے ریحاں
بحث کیا اس پہ کریں جس کی حقیقت ہی نہیں
 

چاند نے ہم کو بھگایا دائرے میں گول گول

چاند نے ہم کو بھگایا دائرے میں گول گول
چاند کو کس نے گھمایا   دائرے میں گول گول

درد کے بنتے گئے حیلے وسیلے خودبخود
غم گلے تک بڑھتا آیا  دائرے میں گول گول

بھولپن کا واقعہ ہے پھر بھی ہم کو یاد ہے
نام جب اس لب پہ آیا  دائرے میں گول گول

آپ کی آنکھوں میں سویا سا کبوتر چاہ کا
دیکھتے ہی پھڑپھڑایا  دائرے میں گول گول

چاہا کس کو مانگا کس کو کچھ غلط تو ہم بھی تھے
وقت کس محور پہ لایا  دائرے میں گول گول

میں بھی انساں ہوں مگر چھلکا اتار آیا ہوں

اپنے چہرے سے ترا چہرا اتار آیا ہوں
آنکھ سے خواب کا ہر نقشہ اتار آیا ہوں

میری صورت سے تمہیں ہوتی ہے وحشت کیونکر
میں بھی انساں ہوں مگر چھلکا اتار آیا ہوں

کہا زبان کا مڑ کر زبان کو آئے

کہا زبان کا مڑ کر  زبان کو آئے
کہ تیر لوٹ کےگویا کمان کو آئے

گرا پڑا تھا تو کہتا تھا وہ خدا ہم کو
سنبھل گیا تو ہماری ہی جان کو آئے