Monday, May 31, 2010

رتجگے بڑھتے چلے آتے ہیں قاتل کی طرح

رتجگے بڑھتے چلے آتے ہیں قاتل کی طرح
جسم کچھ روز میں ہو جائے گا مقتل کی طرح

عشق نے پھر سے دلِ زار پہ دستک دے دی
کھول کر بازو ملا دل بھی مقابل کی طرح

یہ پڑی جان یہ دل اور یہ دستار بھی ہے!
اور تو اب بھی مجھے دیکھے ہے سائل کی طرح

تپتا صحر ا ہوں میں اک بوند گراتے جائو
حسن چھلکائے ہوئے پھرتے ہو چھاگل کی طرح

باندھ لو سر پہ کفن آج تو طوفاں ہو گا
حسن پھر ہم پہ برسنے کو  ہےبادل کی طرح

عشق تیر ا ہے کہ جادو سا ہوا ہے مجھ پر
میں کہ کھنچتا ہی چلا جاتا ہو ں آنچل کی طرح

تیری باتوں سے بھی زیادہ تری چپ لے بیٹھی
میں اترتا ہی گیا آنکھوں میں دلدل کی طرح

اپنے پیروں میں جو  روندھا تھا حقارت سے کبھی
اب اسے ڈھونڈتا پھرتا ہوں میں پاگل کی طرح
 

No comments:

Post a Comment