Thursday, May 13, 2010

کبھی یہ غم کبھی وہ غم ، بہت ہی رائیگاں گزری

کبھی یہ غم کبھی وہ غم ، بہت ہی رائیگاں گزری
ہمیشہ سوچتے ہیں ہم ، بہت ہی رائیگاں گزری

نہ ساون بھیگ کر دیکھا ، نہ تتلی کا سفر دیکھا
نہ دیکھی پھول پر شبنم ، بہت ہی رائیگاں گزری

سجائے خواب آنکھوں نے ، مگر یہ پیٹ خالی تھا
اسے بھرتے رہے ہیں ہم ،  بہت ہی رائیگاں گزری

محبت روز آتی تھی، ہمیں فرصت نہ ہوتی تھی
ہمیں تو کام تھا پیہم ،  بہت ہی رائیگاں گزری

گلابوں کو کتابوں میں سنا رکھتے ہیں دل والے
چمن سے تھا گزر کم کم ،  بہت ہی رائیگاں گزری

ہمیں تم سے اکیلے میں ذرا  اک بات کہنی تھی
پہ یہ بھی نہ ہوا ہمدم ،  بہت ہی رائیگاں گزری

بہت ہی سوچ کر ہم نے، فقط اک تم کہ چاہا تھا
مگر تم بھی وہی ظالم ،  بہت ہی رائیگاں گزری


مرے رشتے تو لاشے تھے ، جو کاندھے پر اٹھا ئے تھے
دعا ہونٹوں پہ آنکھیں نم ،  بہت ہی رائیگاں گزری

No comments:

Post a Comment