Saturday, May 29, 2010

خار کو پھول بنانا ہو گا

خار کو پھول بنانا ہو گا
پیار ظالم کو سکھانا ہوگا

کیوں محبت سے مجھے دیکھتے ہو
پھر مجھے چھوڑ کے جانا ہوگا

عمر ساری ہی گزر جائے گی
زخم دل کا نہ پرانا ہو گا

اتنی بے چین ہوئے جاتی ہے
آنکھ کا دل پہ نشانہ ہو گا

اس کی نظروں میں جگہ پانے کو
آنکھ میں دیپ جلانا ہو گا

خاک کو سونا سمجھتے تھے جب
تیری چاہت کا زمانہ ہو گا

یہ جو روکے نہ رکے اس کا ضرور
تیری چوکھٹ پہ ٹھکانہ ہو گا

دیر کردی بڑی آنے میں پیا
اب تمہیں لوٹ کے جانا ہو گا

جسم کا کھیت کھلا چھوڑا تھا
اب کوئی پھول نہ دانہ ہو گا

وہی اک پل جو خطا کر بیٹھے
سارے اشکوں کا بہانہ ہو گا

ہو کے آیا  ترے کوچے سےیہ دل
اب کئی دن تو ستانا ہو گا

No comments:

Post a Comment