Friday, May 21, 2010

یقیں مجھ کو نہیں آتا

بٹی ہے ذات یوں میری ، یقیں مجھ کو نہیں آتا
ابھی تک سانس ہے باقی ، یقیں مجھ کو نہیں آتا

پکڑ کر ہاتھ سورج کا ، میں سایہ ڈھونڈنے نکلا
ڈگر کس کی، طلب کس کی  ، یقیں مجھ کو نہیں آتا

وہ میرے سامنے تو ہے، مگر بالکل نہ ہونے سا
وہ خود آیا کہ شکل اس کی  ، یقیں مجھ کو نہیں آتا

وہ جس کی خواہشیں لے کر ، سفر کر ڈالا عمروں کا
فقط مورت تھی مٹی کی  ، یقیں مجھ کو نہیں آتا

میں تجھ کو چھو تو سکتا ہوں مگر احساس بنجر ہے
یہ محفل ہے کہ تنہائی  ، یقیں مجھ کو نہیں آتا

ہوا ہوں درد سے بے خود ، مجھے اب درد کیا دو گے
میں ہوں بھی کہ نہیں ہوں جی  ، یقیں مجھ کو نہیں آتا

کچھ ایسا وسوسہ رکھا ہے اس نے اپنے رشتے میں
کہ خود سےدیکھ لوں پھر بھی  ، یقیں مجھ کو نہیں آتا

No comments:

Post a Comment