بٹی ہے ذات یوں میری ، یقیں مجھ کو نہیں آتا
ابھی تک سانس ہے باقی ، یقیں مجھ کو نہیں آتا
پکڑ کر ہاتھ سورج کا ، میں سایہ ڈھونڈنے نکلا
ڈگر کس کی، طلب کس کی ، یقیں مجھ کو نہیں آتا
وہ میرے سامنے تو ہے، مگر بالکل نہ ہونے سا
وہ خود آیا کہ شکل اس کی ، یقیں مجھ کو نہیں آتا
وہ جس کی خواہشیں لے کر ، سفر کر ڈالا عمروں کا
فقط مورت تھی مٹی کی ، یقیں مجھ کو نہیں آتا
میں تجھ کو چھو تو سکتا ہوں مگر احساس بنجر ہے
یہ محفل ہے کہ تنہائی ، یقیں مجھ کو نہیں آتا
ہوا ہوں درد سے بے خود ، مجھے اب درد کیا دو گے
میں ہوں بھی کہ نہیں ہوں جی ، یقیں مجھ کو نہیں آتا
کچھ ایسا وسوسہ رکھا ہے اس نے اپنے رشتے میں
کہ خود سےدیکھ لوں پھر بھی ، یقیں مجھ کو نہیں آتا
ابھی تک سانس ہے باقی ، یقیں مجھ کو نہیں آتا
پکڑ کر ہاتھ سورج کا ، میں سایہ ڈھونڈنے نکلا
ڈگر کس کی، طلب کس کی ، یقیں مجھ کو نہیں آتا
وہ میرے سامنے تو ہے، مگر بالکل نہ ہونے سا
وہ خود آیا کہ شکل اس کی ، یقیں مجھ کو نہیں آتا
وہ جس کی خواہشیں لے کر ، سفر کر ڈالا عمروں کا
فقط مورت تھی مٹی کی ، یقیں مجھ کو نہیں آتا
میں تجھ کو چھو تو سکتا ہوں مگر احساس بنجر ہے
یہ محفل ہے کہ تنہائی ، یقیں مجھ کو نہیں آتا
ہوا ہوں درد سے بے خود ، مجھے اب درد کیا دو گے
میں ہوں بھی کہ نہیں ہوں جی ، یقیں مجھ کو نہیں آتا
کچھ ایسا وسوسہ رکھا ہے اس نے اپنے رشتے میں
کہ خود سےدیکھ لوں پھر بھی ، یقیں مجھ کو نہیں آتا
No comments:
Post a Comment