Thursday, May 27, 2010

ہم نہ آتے تھے دنیا میں پھر بھی ہم کو دنیا میں لایا گیا ہے

ہم نہ آتے تھے دنیا میں پھر بھی  ، ہم کو دنیا میں لایا گیا ہے
روتے روتے ہی کھولی تھی آنکھیں، عمر بھر بھی رلایا گیا ہے

تم تو ناداں ہو کرتے ہو کوشش ، ایک لمحہ ٹھہر کر نہ دیکھا
ہے مقدر کا سارا  تماشا ، تم کو پتلی بنایا گیا ہے

روشنی کی حفاظت کو جس نے ، خوں جلایا تھا سارے بدن کا
صبح آئی تو لوگوں نے دیکھا ، اس کو سولی چڑھایا گیا ہے

ساقیا تیری آنکھوں پہ قرباں ، دیکھتے ہی سرور آگیا ہے
عمر بھر کی مسافت کا قرضہ ، ایک پل میں چکایا گیا ہے

میں سمندر کو پی کر بھی پیاسا ، تیرے پہلو میں جی کر بھی تنہا
عشق کی بددعا ہو جسے وہ ، کب کسی سے منایا گیا ہے

جسم پر کوئی  قبضہ جمائے ، کوئی خوابوں خیالوں سے کھیلے
تجھ کو کھو کر یوں بانٹا ہے خود کو، جیسے ورثہ لٹایا گیا ہے


No comments:

Post a Comment