Saturday, May 8, 2010

دیکھو یہ محبت کی بیماری نہیں جاتی

چہرے سے شرافت بھی اتاری نہیں جاتی
بے کار جوانی بھی گزاری نہیں جاتی

کیوں اس کو سمجھتے ہو مداوا غمِ جاں کا
جس شوخ سے اک زلف سنواری نہیں جاتی

پاکر  تجھے دیکھا ہے گنوا کر تجھے دیکھا
دیکھو یہ محبت کی بیماری نہیں جاتی

اب عمرِ گریزاں بھی لگی ہاتھ چھڑانے
لیکن ترے جلو وں کی خماری نہیں جاتی

آنکھوں میں سجا عشق تو دل ہوس بھرا ہے
اس شہر کے مردوں کی عیاری نہیں جاتی

میں کعبے کے اندر تو وہ کافر مرے اندر
حیران ہوں کیوں کھوٹ ہماری نہیں جاتی

No comments:

Post a Comment