Monday, April 20, 2015

تھوڑا تھوڑا کرتے میں نے ساری زندگی ضائع کر دی

نہ جانے کیسی اداسی تھی اس کی آنکھوں میں
کہ چند لمحوں میں سالوں کا درد لے کے اٹھا

بس یہ کر لوں بس وہ کر لوں، بس یہ آخری کام ہے اب
تھوڑا تھوڑا کرتے میں نے ساری زندگی ضائع کر دی

Sunday, April 5, 2015

پر ایک شخص ہے تکیہ کیے ہوئے مجھ پر

بہت ہی دھندلا سا اک نقش ہوں سرِ ساحل
پر ایک شخص ہے تکیہ کیے ہوئے مجھ پر

وہ کیسی عمر تھی پل پل کو پر کھا کرتے تھے
یہ کیسی عمر ہے سالوں کا بھی حساب نہیں

پھر اپنے آپ میں لوٹو گے قسمتوں کے طفیل
کسی کی آنکھوں میں دیکھو تو ہوش مت کھونا

اب اپنے آپ میں تھوڑا سا بچ گیا ہوں بس!
میں اگلی نسل میں خود کو انڈیلتا جاوں