نہ جانے کیسی اداسی تھی اس کی آنکھوں میں
کہ چند لمحوں میں سالوں کا درد لے کے اٹھا
بس یہ کر لوں بس وہ کر لوں، بس یہ آخری کام ہے اب
تھوڑا تھوڑا کرتے میں نے ساری زندگی ضائع کر دی
Monday, April 20, 2015
Sunday, April 5, 2015
پر ایک شخص ہے تکیہ کیے ہوئے مجھ پر
بہت ہی دھندلا سا اک نقش ہوں سرِ ساحل
پر ایک شخص ہے تکیہ کیے ہوئے مجھ پر
وہ کیسی عمر تھی پل پل کو پر کھا کرتے تھے
یہ کیسی عمر ہے سالوں کا بھی حساب نہیں
پھر اپنے آپ میں لوٹو گے قسمتوں کے طفیل
کسی کی آنکھوں میں دیکھو تو ہوش مت کھونا
اب اپنے آپ میں تھوڑا سا بچ گیا ہوں بس!
میں اگلی نسل میں خود کو انڈیلتا جاوں
پر ایک شخص ہے تکیہ کیے ہوئے مجھ پر
وہ کیسی عمر تھی پل پل کو پر کھا کرتے تھے
یہ کیسی عمر ہے سالوں کا بھی حساب نہیں
پھر اپنے آپ میں لوٹو گے قسمتوں کے طفیل
کسی کی آنکھوں میں دیکھو تو ہوش مت کھونا
اب اپنے آپ میں تھوڑا سا بچ گیا ہوں بس!
میں اگلی نسل میں خود کو انڈیلتا جاوں
Subscribe to:
Posts (Atom)