Monday, July 28, 2014

کچھ ملاقاتیں ذائقہ چھوڑیں

بحث و تکرار چوں چناں نہ کریں
وقت جو بھی عطا کرے لے لیں

بھول جائوں گا ساری باتیں مگر
کچھ ملاقاتیں ذائقہ چھوڑیں

وقت آگے نکل تو جاتا ہے
راستوں کے نشان مٹ نہ سکیں

داد و تحسیں کے شوق میں شاعر
مانگے تانگے کا پیرہن پہنیں

ہم بہر حال مرنے آئے ہیں
جتنا بھی جی لیں جیسے بھی جی لیں


اپنے ماضی کو پیٹتے ہیں جب
رونا آتا ہے مسلمانوں پر
چھوڑ دو صاحب آگے دیکھو کب


زیادہ دور نہ جاو زیادہ مت سوچو
بس ارد گرد کے لوگوں سے پیار کرتے رہو
یہ کانٹ چھانٹ خدائی نہیں زمینی ہے
سب آدمی ہیں یہاں آدمی ہی بن کے رہو


------------------------

گھپ اندھیرا ہے آگے اور پیچھے
صرف پیروں میں روشنی ہے کچھ
کون جانے سفر کہاں کا ہے
-------------------------


کام سارے رہے ادھورے ہی
جی لگا ہی نہیں کسی شے میں
نا مکمل تھا عارضی تھا سب
-----------------
زندگی جتنی ملے جیسی ملے پیتے رہو
سانس بھی جتنی چلے جیسی چلے جیتے رہو
--------------







Thursday, July 24, 2014

پیٹ کی چاکری ہوتی ہے نہ پاگل دل کی


پیٹ کی چاکری ہوتی ہے نہ پاگل دل کی
ہم سے خود داروں کو جینے میں بڑی مشکل ہے

کھلے کھلے سے بظاہر یہ پھول سے چہرے
چھپیائے پھرتے ہیں کتنے ہی داغ سینوں میں


Tuesday, July 22, 2014

فلسطین

علم نے اتنا کیا طور طریقے بدلے
ظلم بدلا ہے نہ ظالم کی طبیعت بدلی

اب بھی کمزور سرِ راہ کھڑا ہے بے بس
بے حسی لوگوں کی فطرت کی مشیت ہے وہی

خوں میں لتھڑے ہوئے اجسام وہ پرزہ پرزہ
نسل انسانی کی اوقات ہے بس اتنی سی

Monday, July 21, 2014

ڈھا کے تعمیر کرو پھر سے یہ دنیا ساری


نفرت و دشمنی مذہب کا فساد اور جھگڑے
خوں خرابہ ہے کہیں اور کہیں بے زاری
اس کی بنیادوں میں بنیادی خرابی ہے کوئی
ڈھا کے تعمیر کرو پھر سے یہ دنیا ساری

ان مذاہب نے تعصب کے سوا کچھ نہ دیا

قسطوں قسطوں میں ہی جی زندگی جتنی جی ہے
نقد کی پونجی نہ تھی سانس ادھاری لی ہے
کارِ بے کار کی تکرار میں دن خرچ ہوئے
اور ہر رات کوئی موت سی نیند آئی ہے
پیٹ کی چاکری اور جبرِ بقا کے آگے 
سر اٹھا یا نہ کبھی کوئی رعایت لی ہے
ہم سے مت لیجیے بیتے ہوئے سالوں کا حساب
ہم نے یہ عمر گزاری نہیں ضائع کیا ہے
ہم وہ خود کار کھلونے ہیں جنہیں مالک نے

ذوق تفریح کی تسکین کو چابی دی ہے

----------------

بدن کی صحت بتاتی ہے آرزو کا سراغ
تو جانتی ہے کہ روحیں تو مردہ ہوتی ہیں 

!!!تیرے شباب کی خیر اور بانکپن کی خیر
-----------------------


عیش وعشرت میں دن گزرتے ہیں
اپنے بچوں کے ساتھ ہوتا ہے
دو بغل میں اور ایک سینے پر
کیف و مست کی نیند سوتا ہوں
---------------------


سب کا پیغام محبت ہے مگر حیرت ہے
ان مذاہب نے تعصب کے سوا کچھ نہ دیا
خود کو محبوب خدا کہتی ہے جو قوم اسے نے
رب کے کس حکم کی تعمیل میں یہ ظلم کیا
عورتوں بوڑھوں کو معذوروں کو مفلوجوں کو
بے گنہ قتل کیا پھول سے معصوموں کو


جس کی بنیادوں میں معصوموں کا ناحق خوں ہو
ایسی دیوار مقدس کہاں رہتی ہے بھلا
شیر خواروں کے لہو سے وہ سنے ہوئے ہاتھ
خود کو جب غازی کہں سوچتا تو ہوگا خدا






Thursday, July 17, 2014

وہ جو بارش تھی روح تک آئی

ساری گرمی نکال دی واللہ
وہ جو بارش تھی روح تک آئی

ہاتھ باندھے ہیں پاوں جکڑے ہیں
روزگاری بھی قید ہے سچ مچ


Saturday, July 12, 2014

کس کے باندھو گے تو بڑھتی ہی رہیں گی گرہیں

جسم کا شور نہیں روح کی موسیقی ہے 
زندگی جینی ہے تو شہر سے ہجرت کیجے

رات ہو چاند ہو خاموشی ہو تنہائی ہو
ایسی آسائشیں پانی ہیں تو گائوں رہیے

صرف احساس ہے احساس پہ تکیہ کیسا
رشتہ بنتا نہیں کوئی بھی ہمیشہ کے لیے

حبس بڑھ جائے تو مسکن سے نکلنا اچھا
ذات تو ذات ہے افکار بھی بے حد رکھیے

کس کے باندھو گے تو بڑھتی ہی رہیں گی گرہیں
رشتوں کی ڈور میں کچھ جھول بھی رکھا کیجے



جڑ سے اکھڑے ہوئے پودے ہیں ہمارا کیا ہے
آب و گِل کوئی بھی ہو ہم نے نمو کرنا ہے
ہم کو معلوم نہیں مطلبِ قوم و ملت
ہانک دے  کوئی جدھر کو بھی ادھر چلنا ہے


  وقت سے تیز بھی بھاگیں گے تو تھک جائیں گے
آخرش عمر گھسیٹے گی پکڑ کر کالر

بوڑھا ہوتے ہوئے دیکھو گے سبھی کو اک دن



jism ka shore nahi rooh ki moseeqi hai
zindagi jeeny hai to shehar se hijrat kije

raat ho chaand ho khamoshi ho tanhai ho
aisi asaishen pani hain to gouwn rahiye

sirf ehsas hai ehsas pay takiya kaisa
rishta bantaa nahi koi bhi hamesha ke liye

habs barh jaye to maskan se niklana acha
zaat to zaat hai afkaar bhi be had rakhiye

kis ke ge to barhti hi rahen gi ghirhein
rishton ki dor mein kuch jhool bhi rakha kije



jarr se hue pouday hain hamara kya hai
aabb o gِl koi bhi ho hum ne numoo karna hai
hum ko maloom nahi مطلبِ qoum o millat
haank day koi jidhar ko bhi idhar chalna hai


waqt se taiz bhi bhagain ge to thak jayen ge
Umar ghsite gi pakar kar caller

boorha hotay hue dekho ge sabhi ko ik din







Wednesday, July 9, 2014

شعر بے اختیار ہوتا ہے

شاعری قافیہ ردیف نہیں
شعر بے اختیار ہوتا ہے
سوجھتا ہے اچھوتا سا مصرع
دفعتا ََ جیسے پیار ہوتا ہے

Monday, July 7, 2014

سعی ِ ناکام

میں جانتا ہوں کہ وہ ایک خالی برتن ہے
اور پھر عین وسط میں اس کے
ایک سوراخ ہے پوشیدہ سا اور گہرا سا
وہ بھرا اور نہ اس نے بھرنا ہے
اس کو خوش کرنے کی سب کوششیں ناکام ہیں جو
تم بھی کرتے رہو اور میں بھی کیے جاتا ہوں


Sunday, July 6, 2014

پانی رک جائے تو دریا نہیں کہتے اس کو

میرے شعروں میں وہ پہلے سا بہاو نہیں اب
اب میں شاعر نہیں بس قافیہ پیما ہوں کوئی

پانی رک جائے تو دریا نہیں کہتے اس کو


نیکی دریا میں ڈال دو اچھا
کوئی احسان جانتا ہی نہیں

ڈوبتے ڈوبتے بچا پھر بھی
نا خدا کو وہ مانتا ہی نہیں







ہمارے گاوں میں اسکول کھول کر کس نے

ہمارے گاوں میں اسکول کھول کر کس نے
ہمیں ہماری ہی نظروں میں نیچا کر ڈالا
ہمیں بتایا "کہ اسکول آنے سے پہلے
نیا لباس نئی بولی پہن کر آنا
تمہارے طور طریقے تمہارے رسم و رواج
پرانے کپڑے ہیں گھر میں اتار کر آنا
تمہیں سکھائیں گے دنیا کی باقی قوموں سے
تمہاری قوم حقیر اور کتنی کم تر ہے
تمہیں بتائیں گے ساری ترقیوں کا راز
 بدیسی وردی بدیسی  زباں میں مضمر ہے
ہمارے گاوں میں اسکول کھول کر کس نے
ہمیں ہماری ہی نظروں میں نیچا کر ڈالا
ہماری سوچوں کو احساس کمتری دے کر
ہماری قوم کو ذہنی غلام کر ڈالا


Friday, July 4, 2014

یہ بات چھوڑیے کہ کتنے بچے ہیں میرے

یہ بات چھوڑیے کہ کتنے بچے ہیں میرے
وہ کہہ رہی تھی مجھے اب بھی پیار ہے تجھ سے

عجب تضاد میں جیتے ہیں چاہنے والے
چہرے کی گرد بتاتی ہے صعوبت رہ کی
چہرے کی گرد ضمانت نہیں منزل کی کبھی




Thursday, July 3, 2014

ہم شرمسار ہوتے رہے اپنے آپ سے

ہم شرمسار ہوتے رہے اپنے آپ سے
نسلیں ہماری غیر سے مرعوب ہو گئیں


Tuesday, July 1, 2014

چاند کے آسمان پر اپنے بھی واجبات ہے

چاند کے آسمان پر اپنے بھی واجبات ہے
خاک نشین کب تلک چاند کے خواب دیکھیں