Monday, July 28, 2014

کچھ ملاقاتیں ذائقہ چھوڑیں

بحث و تکرار چوں چناں نہ کریں
وقت جو بھی عطا کرے لے لیں

بھول جائوں گا ساری باتیں مگر
کچھ ملاقاتیں ذائقہ چھوڑیں

وقت آگے نکل تو جاتا ہے
راستوں کے نشان مٹ نہ سکیں

داد و تحسیں کے شوق میں شاعر
مانگے تانگے کا پیرہن پہنیں

ہم بہر حال مرنے آئے ہیں
جتنا بھی جی لیں جیسے بھی جی لیں


اپنے ماضی کو پیٹتے ہیں جب
رونا آتا ہے مسلمانوں پر
چھوڑ دو صاحب آگے دیکھو کب


زیادہ دور نہ جاو زیادہ مت سوچو
بس ارد گرد کے لوگوں سے پیار کرتے رہو
یہ کانٹ چھانٹ خدائی نہیں زمینی ہے
سب آدمی ہیں یہاں آدمی ہی بن کے رہو


------------------------

گھپ اندھیرا ہے آگے اور پیچھے
صرف پیروں میں روشنی ہے کچھ
کون جانے سفر کہاں کا ہے
-------------------------


کام سارے رہے ادھورے ہی
جی لگا ہی نہیں کسی شے میں
نا مکمل تھا عارضی تھا سب
-----------------
زندگی جتنی ملے جیسی ملے پیتے رہو
سانس بھی جتنی چلے جیسی چلے جیتے رہو
--------------







No comments:

Post a Comment