Tuesday, March 30, 2010

ایسے مجھ کو کس کے باندھا آپ نے

ایسے مجھ کو کس کے باندھا آپ نے
سانس کا رستہ نہ چھوڑا آپ نے

دیکھتا رہتا ہوں اپنے آپ کو
آنکھ بھر کر جب سے دیکھا آپ نے

آپ کو معلوم تھا دلدل ہوں میں
پھر بھی مجھ میں پائوں رکھا آپ نے

آپ کی آنکھیں ذہانت سے بھری
پلکوں پر رکھا ہے قصہ آپ نے

تھوڑا تھوڑا روز پاس آ تے گئے
قسطوں قسطوں مجھ کو جیتا آپ نے

Monday, March 29, 2010

بن بلائے آنے والا

بن بلائے آنے والا
کتنا زعم رکھتا ہے
جیسے اس کی آمد کا
انتظار ہوتا ہو
جیسے بے قراری میں
انگلیوں کی پوروں پر
بار بار پل پل ہر دن شمار ہوتا ہو
میں خموش بیٹھا ہوں
اور مجھ میں بیٹھا ہے
نفرتوں کا موسم بھی
مجھ کو ضبط کرنے دو
مجھ کو چپ ہی رہنے دو
کہ -----
میں نے جِیب کے اوپر
ایک انگارہ رکھا ہے
جو بھڑکتا رہتا ہے
بن بلائے آنے والا
جھوٹا زعم رکھتا ہے
اس کا زعم رہنے دو

Saturday, March 27, 2010

کوئی تو میری رفاقتوں میں محبتوں کی مثال ہوتا

کوئی تو میری رفاقتوں میں محبتوں کی مثال ہوتا
مری خوشی پر جو جان دیتا ، مرے دکھوں پر نڈھال ہوتا

بھنور میں اس کو میں چھوڑ جاتا کسی کے نینوں کی چاہ میں جب
تو میرے رستے کی بنتا آنکھیں ، دعائیں دیتا ، نہال ہوتا

فریب آنکھوں سے زخم کھا کر ، میں اس کی جھولی میں آکے گرتا
تو اپنے ہونٹوں سے میرے ماتھے پہ چاند لکھتا بے حال ہوتا

وہ خود تو میری پناہ میں رہتا ، مگر وہ مجھ کو آزاد رکھتا
کہ میں تو ملتا ملا تا سب سے ، اسے مرا ہی خیال ہوتا

میں بات کرتا تو میرے ہونٹوں سے لفظ چنتا گلاب مانند
خموش ہوتا تو میرے چہرے کو بوجھنے میں کمال ہوتا

********************************

میں بے وفائی میں چاند جیسا ، وہ دلربائی میں پھول جیسا
وہ گردشوں میں مجھے گنواتا ، میں اس کو خو شبو سے ڈھونڈ لاتا

Bahar Pattern: - = - = = / - = - = = / - = - = = / - = - = =
Example: گئے دنوں کا سراغ لیکے کدھر سے آیا کدھر گیا وہ – ناصر کاظمی

آدمی کی بدنصیبی

آدمی کی بدنصیبی
آستیں میں رہتی ہے
جیسے بیل آ کاس کی پیڑوں پر ہی پلتی ہے
خوشبوئوں کے ہونے سے ہی
پھول مہکے رہتے ہیں
لیکن اس خوشبو سے پھر
گلچیں بھی آتے ہیں
ہنستے بستے گلشن کی
قیمت لگنے لگتی ہے
آدمی کی بدنصیبی
آستیں میں رہتی ہے

مرد کی یہ فطرت ہے

مرد کی یہ فطرت ہے

چھوٹی چھوٹی باتوں پہ
روز کیوں جھگڑتے ہو
جلتے بجھتے رہتے ہو
شور برپا رکھتے ہو
چھوٹی چھوٹی باتوں سے
تلخیاں یوں بڑھتی ہیں
دوستی کے ماتھے پہ
سلوٹیں یوں پڑتی ہیں
زندگی کے چہرے سے
خوف آنے لگتا ہے
اعتبار رشتوں کا
سر جھکانے لگتا ہے
ایک بار سن لو نا!
تھوڑا غور کر لو نا!
مرد کی یہ فطرت ہے
قتل جیسے جرموں سے
در گزر تو کر لینا
لیکن ایسی باتوں کو
دل سے باندھ کر رکھنا
دل میں کھوٹ بھر لینا
چھوٹی چھوٹی باتوں پہ
روز کیوں جھگڑتے ہو

Friday, March 26, 2010

بات رستہ بھولنے کی ہے فقط

سوچ کی ساری حدوں میں تم نہ تھے
چاہ کے سب راستوں میں تم نہ تھے

بات رستہ بھولنے کی ہے فقط
ورنہ دل کی منزلوں میں تم نہ تھے

چال کچھ تو موسموں کی ہے ضرور
جلتے بلتے سورجوں میں تم نہ تھے

ایک نظرِ بے خودی کی دیر تھی
پھر تمہارے دوستوں میں تم نہ تھے

وقت تم سے چال کوئی چل گیا
ورنہ دل کے حادثوں میں تم نہ تھے

Tuesday, March 23, 2010

کتنا ملتا ہو گا رب مائوں سے

زندہ رہنے کی طلب مائوں سے
اچھا لگتا ہے یہ سب مائوں سے

رب تو دیکھا نہیں ماں دیکھی ہے
کتنا ملتا ہو گا رب مائوں سے

مرے ہمسفر مرے ہم نشیں

مرے ہمسفر مرے ہم نشیں
تری زندگی پہ نظر نہیں

یہاں دوڑ دھوپ فضول ہے
یہاں آنسوئوں کی قدر نہیں

تو اسیرِ دام نصیب ہے
کہ لکھے گئے سے مفر نہیں

ترا ہاتھ وقت کے ہاتھ میں
جسے منزلوں کی خبر نہیں

Monday, March 22, 2010

کبھی لو بلند تھی چراغ کی، کبھی رات پر بھی شباب تھا

کبھی لو بلند تھی چراغ کی، کبھی رات پر بھی شباب تھا
کبھی بٹ رہی تھی یوں بے طلب نہ سوال تھا نہ حساب تھا

تری زلف الجھی تھی پائوں سے ترا بچ نکلنا محال تھا
تری سوچ میں مرا نام تھا، تری نیند میں مرا خواب تھا

جو بکھر گیا ہے برگ برگ ، مری بے بسی کے مزار پر
کبھی خوشبوئوں سی دعائوں سے ، مجھے مانگتا وہ گلاب تھا

یہ گئے دنوں کا ہے سانحہ ، کبھی تنہا بیٹھ کے سوچنا
ابھی خواب دیتے تھے تھپکیاں ابھی چڑھتا چڑھتا شباب تھا

تجھے ضابطوں کی سزا ملی مجھے منزلوں کی خبر نہ تھی
تو کھڑا رہا مرا منتظر، مرے راستوں میں چناب تھا

میں نے پھول توڑا تھا ایک ہی وہی پھول نکلا ہے کاغذی
مجھے کہکشاں کا گمان تھا، وہ غبار ِ ریگِ سراب تھا

روز ہی توبہ روز گنہ بھی

روز ہی توبہ روز گنہ بھی
ایک بشر بھی، خوفِ خدا بھی

میرا تمہارا ساتھ ہے ایسے
جینے سے نفرت سانس لینا بھی

کانچ کی گڑیا چاند کی سوتن
تن سے لگی بھی، من سے جدا بھی

اپنا ملن بھی ، لگتا کٹھن ہی
رات اماوس، رستہ نیا بھی

جاگتے رہنا ، سوچتے رہنا
ہجر کا موسم اور خفا بھی

Bahar Patter: = - - = = / = - - = =
مثال: ہم کو محبت ڈھونڈ رہی تھی ، نام پتہ سب پو چھ رہی تھی

Thursday, March 18, 2010

وہ انتظار اب نہیں جاناں

محبت کی پہلی ساعتِ دیدار سے ہی
انتظار کی شہر فصیلوں میں آگئے
جہاں باہر کی جانب
کوئی رستہ نہیں جاتا
کوئی دروازہ نہیں کھلتا
پھر ادائے انتظار ایسی
خوش فہمیوں کے جال میں آگئے
کہ محبتوں کے سبھی ذاِئقے
قربتوں کے تمام لمس
چاہتوں کے سبھی بوسے
دبے پائوں آئیں گے
کسی روز ہوا کی طرح
میری آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کر
سرگوشی کریں گے
کانوں میں صبا کی طرح
مگر محورِ ذات کے گرد
سال جلتے رہے
جل جل گرتے رہے، کسی کرمکِ یاس کی طرح
ہر سال میں چار موسم
ہر موسم کے کتنے دن
سورج چڑھتے رہے
ڈھلتے رہے۔
دور کیا جانا
آئینوں سے پوچھ لو
چاند چہرے بھی روپ بدلتے رہے لباس کی طرح
تم نے کہا
محبت چھائوں ہے جاناں
مگر چھائوں کا تو
دھوپ سے مقابلہ ٹھہرا
موسموں سے واسطہ ٹھہرا
طویل ہوتے ہیں کبھی سائے کبھی چھوٹے ہوتے ہیں
خالی ہوتے ہیں کبھی پیڑ کبھی گھنے ہوتے ہیں
پھر ہم ہی کیوں استادہ رہیں
پنکھڑی پنکھڑی محبتوں کے
گریزاں پھول لیئے
بے کار جھگڑتے رہیں ہوائوں سے شامو سحر
لو آج ہم بھی کہتے ہیں
محبت چھائوں ہے جاناں
مگر جہاں چھائوں ہے وہیں اپنا گھائوں ہے جاناں
کسی پیڑ کے نیچے دو گھڑی جو سو لیے
تو کسی اور پیڑ کی جانب چل پڑے
کسی اور پیڑ کے دو گھڑی جو ہو لئے
تو کسی اور پیڑ کی جانب چل پڑے
سچ کہیں----
وہ پہلا پیار اب نہیں جاناں
وہ انتظار اب نہیں جاناں

کائنات ترے حسن کی

چاند چہرہ، سادگی
گلاب رنگت تازگی
زلفوں کی نرمی میں
مو بمو چھپی ہوئی، خوشبو کوئی آندھیوں سی
کہ سانس میں گھلے تو پھر
رواں رواں مہک جائے
-
دھنک سات رنگ کی
جیسے آنچل پہ ٹانکی ہوئی
یا بڑے ہی سلیقے سے
خوبصورت قرینے سے
رنگ برنگی تتلیاں ہوں
قطار در قطار لیٹی ہوئی
بات ہی کیا پیرہن کی
تیرے صندلیں پیکر پہ
پائے مالِ راہ پھول جیسے
کسی گلدان میں سجے تو پھر
برگ برگ مہک جائے
-
حسین پلکوں کی چلمن پہ
جھیل آنکھوں کے ساحل پہ
نٹ کھٹ سے کاجل کی
کج ادا سی دھار سی
اور نظر بے قرار سی
اگر کبھی اٹھے تو پھر
مکاں اور لا مکاں سے پرے
ہر بے جاں میں جاں پڑے
ذرہ ذرہ بہک جائے
-
لمحہ لمحہ مچلتے ہوئے
کبھی بند ہوتے کبھی کھلتے ہوئے
اک قوس سی بناتے ہوئے
دو ہونٹ برگِ گلاب سے
اگر کبھی گویا ہوں
تو حرف حرف شراب لگے
بات بات نکھر جائے
پتی پتی بکھر جائے
-
یہی کائنات ترے حسن کی
مری ذات کی گہرائیوں میں
کچھ اس ادا سے سرایت ہوئی
جیسے چپ چاپ سے کنویں میں
سرِ آب بھاری پتھر کوئی
اتنے ہولے سے رکھے
کہ کنویں تک کو خبر نہ ہو
اور پتھر پار اتر جائے

کہیں دور مسجد میں اذان کی آواز کے ساتھ

کہیں دور مسجد میں
اذان کی آواز کے ساتھ
پھیل گئے پوری محفل میں
احترام کے سائے
گویائی گنگ سی ہو گئی
سناٹے بولنے لگے
اور شرمگیں لہجے میں بلند ہوتے
دو صندلیں ہاتھ
چاند چہرے سے ہوتے ہوئے
کانوں کی لو تک آئے
اور ننگے سر پر عقیدتوں کا
آنچل اوڑھنے لگے
اب الفاظ کہاں سے لائیں
کہ تمہیں بتائیں
اس وقت وہ مقدس چہرہ کیسا تھا
آنکھیں تھی باادب کیسی
نور کا سویرا کیسا تھا
اسی سویرے کی پیاسی کرن تھی کوئی
جو میری آنکھوں کی سیہ رات میں تھی
بندگی کا سفر کرتے ہوئے گئی
اور چاند کے چرنوں کو چھو آئی
اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اسے یوں دیکھنے لگا
جیسے کوئی نمازی ہو
انتہائے شوق کی نماز کے ساتھ
کہیں دور مسجد میں
اذان کی آواز کے ساتھ

مرے ارد گرد سجا ہوا


مرے ارد گرد سجا ہوا
جھوٹ کا اک خول ہے
کچھ اداکاری ہے ذات کی
کچھ دو رخی ہے بات کی
کتنے ہی برس بیت گئے
یہ بات نہیں ہے آج کی
بے منزل سے راستے
بے طلب سی زندگی
نہ کسی کی آرزو
نہ جستجو کسی کی
جھوٹ کے نقاب کو
گر کبھی میں کھولتا
ذات کی سچائی کو
گر کبھی میں بولتا
میرے سارے چاہنے والے
مجھے اپنا ماننے والے
مجھے چھوڑ چکے ہوتے
مروتوں کے کھوکھلے بندھن
کب کے توڑ چکے ہوتے
لیکن اس نقاب میں
اب اور جی نہیں سکتا
جب زہر ہی زندگی بنے
تو زہر پی نہیں سکتا
پر اوپر کے بہروپ کو
گر آج میں اتار بھی دوں
تو اند اور بہروپ ہے
اند اور بہروپ ہے
اند اور بہروپ ہے!
وہ ریحان جسے تم جانتے ہو
وہ ریحان تو کہیں کھو گیا
ذات کے سراب میں شاید گم ہی ہو گیا
یہ جو مشتِ غبار ہے
یہ تو اک مذاق ہے
یہ تو اک مخول ہے

Wednesday, March 17, 2010

بات بے بات پہ کرتے ہیں شکایت جاناں

بات بے بات پہ کرتے ہیں شکایت جاناں
بعض لوگوں کی تو ہوتی ہے یہ عادت جاناں

میرے شکوے میں ذرا دم ہے ذرا غور سے سن
مجھ کو درکار ہے تھوڑی سی محبت جاناں

ہم کہ دکھ درد میں ہنس کھیل لیا کرتے تھے
ہم اگر چپ ہیں تو ٹوٹی ہے قیامت جاناں

کتنا شکی ہے مزاجا مرا ہمدم دیکھو
میرے خوابوں کی بھی کرتا ہے حفاظت جاناں

پھر کوئی زلف ہو جس میں، میں چھپا لوں چہرہ
پھر کہیں مل جائے رخسار کی جنت جاناں

غمِ دنیا کا صلہ بھی غمِ دنیا ٹھہرا
لذتِ ہجر ہے نہ وصل کی حدت جاناں

دل سے شکوہ ہے نہ تجھ سے ہی شکایت ساقی

دل سے شکوہ ہے نہ تجھ سے ہی شکایت ساقی
تیری چوکھٹ پہ ہی مچلی یہ طبیعت ساقی

گھونٹ دو گھونٹ پیے تھے یونہی چلتے چلتے
عمر بھر ان کی چکانی پڑی قیمت ساقی

ساغرِ مے میں ملایا تھا نجانے کیا کیا
عین مستی میں بھی ہوتی ہے اذیت ساقی

لاج مے خانے کی رکھنی تھی سو ہم نے رکھی
سر کٹانے کی پرانی تھی روایت ساقی

لوگ کردار نبھاتے ہی فنا ہو جائیں
تیرے افسانے کی بنتی نہیں صورت ساقی

بعض کو جام و سبو سے نہیں فرصت ملتی
بعض کے کاسے میں ازلوں کی حقارت ساقی

آنکھ سے ابلتا ہے چشمہ کھارے پانی کا

آنکھ سے ابلتا ہے چشمہ کھارے پانی کا
دل کو بانجھ کرتا ہے چشمہ کھارے پانی کا

پیار کی کہانی ہے، درد کی زبانی ہے
پھوٹ پھوٹ بہتا ہے چشمہ کھارے پانی کا

جب کبھی محبت کا پھول کٹ کے گرتا ہے
درد چننے لگتا ہے چشمہ کھارے پانی کا

منتظر نگاہوں کے جب گلاب کھلتے ہیں
اوس بن کے گرتا ہے چشمہ کھارے پانی کا

ہوس کی زمینوں پر وصل کی بہاریں ہیں
عشق بن میں بہتا ہے چشمہ کھارے پانی کا

عورتوں کی عادت ہے بات بات رو دینا
ان کے ساتھ رہتا ہے چشمہ کھارے پانی کا

Tuesday, March 16, 2010

کلائی کی گھڑی

کلائی کی گھڑی

خرم زانو پہ سر رکھے چپ چاپ دیکھ رہا تھا- ٹپ ٹپ کرتے بارش کے قطرے - ---- وہ جس سرائے میں ٹھہرا ہو تھا اس کی چھت میں شگاف تھا اور بارش کا پانی فر ش کو گیلا کر رہا تھا، جب کہ خرم ایک کونے میں تھوڑی سی مر تفع جگہ پر بیٹھا تھا، اس کو معلو م تھا ٹپکنے والا پانی اس کے پاس پہنچنے سے پہلے باہر چلا جائے گا – اس لیئے وہ قطعی طور پر بے نیاز بیٹھا ہوا تھا،نہ اسے بارش سے شکایت تھی، نہ سرائے کے درو دیوار اور چھت سے غرض تھی- کیونکہ وو صرف وقت گزار رہا تھا ، اس نے سیالکوٹ جانا تھا لیکن وہ کراچی کی ریل گاڑی پر بیٹھ گیا تھا اور بیٹھتے ہی اس کی آنکھ لگ گئی تھی، جب اس کو جاگ آئی تو گاڑی صوبہ سندھ میں داخل ہو چکی تھی، وہ ہڑبڑا کر اٹھا اور ریل بابو کو ٹرین روکنے کا کہا، ریل بابو نے اسے ایک ویران سے سٹیشن پر اتار دیا جہاں کوئی چرند پرند نظر نہیں آرہا تھا، اتنے میں بارش ہونے لگی اور وہ سرائے کے اندر آ کر پنجاب جانے والی گاڑی کا انتظار کرنے لگا، خرم کی نظر اپنی کلائی پہ بندھی ہوئی گھڑی پہ تھی جو معمول سے کیہں زیادہ سست روی سے چل رہی تھی
----------------------------------------------------------------------------

ائر کنڈیشنڈ کمرے میں لیٹی ہوئی نجمہ آج پھر اپنے آپ کو دنیا کی بدنصیب ترین عورت سمجھ رہی تھی، اس کو غصہ آ رہا تھا زندگی پر اور زندگی سے وابستہ ہر چیز پر جو اس کے حلقہِ نظر میں تھی، وہ آج پھر خود کشی کی کوشش کر چکی تھی اور اس کوشش میں ناکام ہونے کے بعد وہ شیشے کے تین گلاس ، ایک جگ، ایک موبائل فون اور اپنے شوہر ارسلان کی عینک توڑ چکی تھی جب اس پر بھی اس کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تو اس نے اٹھ کر ارسلان کا بٹوا الماری سے نکالااور اس میں پڑی ہوئی ساری نقدی کو ریزہ ریزہ کر کے فرش پر بکھیر دیا، اس کے بعد اس نے ایٹی وان کی دو گولیاں نگلیں اور کمبل اوڑھ کر لیٹ گئی، وہ مسلسل رو رہی تھی اور اس کے رونے کی سسکیوں کی آواز نےپورے کمرے کے ماحول کو ایسے سوگوار کیا ہوا تھا جیسے زندگی ایسی غار میں چلی گئی ہے جہاں پر نہ روشنی ہے اور نہ ہی واپسی کا کوئی راستہ- ارسلان صوفے پربیٹھا نجمہ کی انکھوں سے بہتے ہوئے آنسوئوں کے دھارے کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے یہ کوئی نمکین پانی کا چشمہ ہو جس کو نہ تو بند کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس سے کھیتوں کو سیراب کیا جا سکتا ہے، بلکہ اس کا رخ بنجر زمین کی طرف موڑ دیا جاتا ہے- نجمہ سے شادی ارسلان نے اپنی مرضی سے کی تھی، اگرچہ اس میں ارسلان کی اپنی پسند شامل نہیں تھی- ارسلان کا یہ فیصلہ اس کے اس مفروضے کے مرہونِ منت تھا کہ اس کی کوششوں سے کسی کی یاسیت اور اداسی ابدی خوشی میں بدل سکتی ہے، نجمہ کو مرگی کے دورے پڑتے تھے اور آدھے سر کا درد رہتا تھا، وہ اکثر و بیشتر نیند کی گولیاں کھا کر خود کو قریب المرگ کر لیتی تھی - ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ گھریلو تنائو ہے- نجمہ اس کا الزام اپنے والد کے سر تھوپتی تھی او ر ہر وقت اس کے ظلم و ستم کے ْرونے روتی تھی- وہ ارسلان سے عشق کرتی تھی اور بظاہر اس کی خود کشیوں کی وجہ ارسلان سے ناقابلِ برداشت دوری تھی،- نجمہ کا تکیہ کلام تھا کہ اگر اس کو ارسلان کا قرب ، نام، اور عزت کی چھت مل جائےتو وہ ساری عمر ارسلان کی داسی بن کر گزار سکتی ہے-آج کی لڑائی کی وجہ ارسلان کا دوست خرم تھا جو سیالکوٹ آرہا تھا اور اس کوناشتہ کروانے کے بعد ارسلان نے اسے ائر پورٹ پر چھوڑنے جانا تھا-اور یہ اتنی سی بات نجمہ کو پسند نہیں تھی-اول اول تو ارسلان نے نجمہ کےہر درد کا مداوا تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن پھر اس کو احساس ہو گیا کہ دنیاوی متاع و زر سے حقیقی خوشی اور قلبی سکون نہیں خریدا جا سکتا-اس نے آج ہی سنڈے میگزین سے ایک حدیث پاک پڑھی تھی جس کا مفہوم تھا کہ کوہِ احد اپنی جگہ سے ٹل سکتا ہے لیکن آدمی کی سرشت نہیں بدل سکتی- نجمہ ایک بے چین روح تھی جس کے لہو کی بوند بوند میں حسد ، لالچ اور اضطراب کی آمیزش تھی- ارسلان کو اب نہ تو نجمہ کے آنسوئوں اور سسکیوں سے غرض تھی اور نہ ہی اس کی ناراضگی کا خیال- اسے پتہ تھا کہ وہ غلط گاڑی پر سوار ہے جس کی کوئی منزل نہیں- ابھی کچھ دیر میں نجمہ روتی روتی سو جائیگی اور صبح پھر کسی نئی بات پر جھگڑا ہو گا- اگرچہ خرم سے ملے ایک سال بیت گیا تھا اور خرم اس کا یارِغار تھا، پھر بھی ارسلان دعا مانگ رہا تھا کہ کاش خرم کل سیالکوٹ نہ آئے- ارسلان کی نظر اپنی کلائی پہ بندھی ہوئی گھڑی پہ تھی جو معمول سے کیہں زیادہ سست روی سے چل رہی تھی

درد

ہم نے درد پالا ہے

اپنی گود میں ایسے

جیسے بانجھ عورت کی

کوکھ کا یہ بچہ ہو

اور اس کو کھونے کا

ہر گھڑی ہی خدشہ ہو

بہت عجیب سا لگتا ہے غم زمانے کا

بہت عجیب سا لگتا ہے غم زمانے کا
ترا رقیب سا لگتا ہے غم زمانے کا

نہ وہ حجاب سی پلکیں نہ کوئی دلجوئی
تہی نصیب سا لگتا ہے غم زمانے کا

اس حسن کے جلووں میں چھپا اور ہی کچھ ہے

اس حسن کے جلووں میں چھپا اور ہی کچھ ہے
نینوں کی زباں اور، ادا اور ہی کچھ ہے

ہم گھر کو جلا لیں گے اگر چاندنی روٹھی
دہکے ہوئے شعلوں کی ضیا اور ہی کچھ ہے

خوابوں کو پرکھنے کی تو ضد کرتا ہے کیونکر
ہے اصل میں کچھ اور، سنااور ہی کچھ ہے

چلتا ہے محبت کے سفر پر تو یہ سن لے
آغاز ہے پھولوں سا، رسا اور ہی کچھ ہے

ہم دشتِ محبت میں بسے ہیں تو یہ جانا
دعووں کا چمن اور ،وفا اور ہی کچھ ہے

اشکوں کی قطاروں سے کبھی درد نہ ماپو
لالچ بھری نظروں کی نوا اور ہی کچھ ہے

جو عشق میں مرتا ہے اسے جا کے یہ کہنا
یہ عشق تو امرت ہے قضا اور ہی کچھ ہے

Friday, March 12, 2010

تجھے بہت بھولنا چاہا جاناں

تجھے بہت بھولنا چاہا جاناں
تجھے بہت بھولنا چاہا
جب بھی یاد آئی تیری
یہی سوچ کے چپ ہو لیئے
چلو آخری بار ہے
دل کی کشتِ ویراں کو سیراب کر لیں
خوابوں کی نگری آباد کر لیں
جی بھر کے یاد کر لیں
چلو آخری بار ہے
گریز پا لمحوں کو لفظوں میں جکڑ لیں
تخیل میں کھیلتے
تری سیہ آنکھوں کے
جگنو پکڑ لیں
جب بھی قدم بڑھے میرے
تیرے ہی شہر کی جانب بڑھے
مگر بڑھتے ہوئے قدموں پہ زنجیر سی ڈالےرکھی
بھول جائیں گے تجھے بھول جائیں گے، یہی آس پالے رکھی
وقت کے سمندر میں میں یہہی کشمکش رہی،
کبھی تیری یاد کا جزیرہ، کبھی زندگی کی پتوار کا سہارا
نہ جزیرے پہ ٹھہر سکے
نہ پتوار چلا سکے
نہ مزل کو پاس بلا سکے
نہ خود ساحل پہ جا سکے
 نہ کسی اور کو اپنا سکے
نہ تجھی کو بلا سکے
تجھے ًبھلاتے بھلاتے خود کو بھلا دیا
سب کچھ مٹا دیا
تیری یاد نہ مٹا سکے
تجھے نہ ہم بھلا سکے
ہاں تجھے نہ ہم بھلا سکے

اے اشفاق

اے اشفاق

وہ تلقین شاہ کے قصے ، وہ توتا کہانیاں
وہ محبتوں کے افسانے اور انسانیت کے دلاسے
یہ سارے چشمے کچھ اس ادا سے پھوٹتے
کہ نہ دریا میں ملتے ، نہ سمندر میں گرتے
بلکہ دھرتی کی بانہوں میں آتے ہی
ایسے جذب ہو جاتے
جیسے دھرتی کے ہی پیاسے ہوں
یا پھر دھرتی ان کی پیاسی ہو!
اے اشفاق
تیری ضرورت تھی ابھی
تیری آنکھوں سے بہت سے رنگ چننے تھے
فیض کے شوق پڑھنے تھے، ناصر کے ہجر سننے تھے
زندگی کی بیاض میں کچھ صفحات بچا رکھے تھے
جو تیرے ہاتھوں نے بھرنے تھے
اے اشفاق
تو تو بہت باتیں کرتا تھا
کبھی خاموش نہ ہوتا تھا
ہر سوال کا جواب دیتا تھا
آج کیوں بے زباں ہو گیا
زندگی کے دوراہے پر تو بھی
اک عام سا انساں ہو گیا!!!!

اے محبت آ تجھے تلاش کرتے ہیں

اے محبت
آ تجھے تلاش کرتے ہیں
پرانی کتابوں کے صفحوں میں
چند مانوس سی سطروں میں
کچھ بے آواز لفظوں میں
وہ لفظ تو اب طاقِ نسیا ں میں دفن ہیں
مگران کے سائے، ان کے معانی
ساتھ ساتھ چلتے ہیں
اے محبت !
آ تجھے تلاش کرتے ہیں
گو زندگی کی بیاض میں
تری یادوں کے کچھ مضمون باقی ہیں
مگر ان میں کوئی بھی لفظ اپنا نہیں
کہ یہاں تو اب ہر روز
نئی تاریخ پڑتی ہے
نیا دن تحریر ہوتا
ہاں البتہ صفحہ بدلتا نہیں
ایک ہی صفحے پر
میں اور دیمک
اپنے اپنے دائرے میں
اپنے اپنے انداز میں
اپنی اپنی وفا سے لڑتے ہیں
اے محبت !
آ تجھے تلاش کرتے ہیں

مجھ کو اپنوں کا بھرم مار گیا تھا ورنہ

مجھ کو اپنوں کا بھرم مار گیا تھا ورنہ
اپنے قاتل کو میں آداب سکھاتا ورنہ

ہم محبت میں سیاست کے روادار نہ تھے
یہ جہاں ہم کو بھی مسند پہ بٹھاتا ورنہ

چور دروازوں سے آنے کی مجھے عادت نہ تھی
میں بھی منزل پہ ترے ساتھ ہی جاتا ورنہ

خون مل کے وہ بنا پھرتا ہے غازی دیکھو
وار دشمن کا وہ ہر اک سے چھپاتا ورنہ

جھوٹی ہمدردیِ احباب گوارا کب تھی
میرے زخموں پہ فلک اشک بہاتا ورنہ

تیرے چہرے کا کرب دیکھ کے پھینکا ترکش
تیری للکار کی طاقت آ زماتا ورنہ

Thursday, March 11, 2010

یہ محبت ہے کیسی محبت

یہ محبت ہے کیسی محبت
بے قراری خماری اذیت

جام منہ سے لگا کر بھی ہم کو
پیاس کی ہی رہی ہے شکایت

وصل منزل نہیں ہے ہماری
عمر سے بھی بڑی ہے مسافت

خود سے ناراض رہنے لگا ہوں
تیرے نینوں نے کی ہے شرارت

حرکتیں دل کی ہیں پاگلوں سی
جیسے بچے کی مچلے طبیعت

حسن چھپتا پھرے ہے حیا سے
عشق کی دیکھی جائے نہ وحشت

ہم پہ قربان جنت کی حوریں
پھر بھی تیری رہے گی ضرورت

Pattern: = - = = / - = = / - = =
Sample: بھر دو جھولی مری یا محمد - یا - جب تک الجھے نہ کانٹوں سے دامن، کوئی سمجھے گا کیا رازِ گلشن

Wednesday, March 10, 2010

محبت کیا ہے اپنی
















محبت کیا ہے اپنی
بس اک ضد ہےاس دل کی
کسی کو چاہتے رہنا اور چاہتے ہی چلے جانا
چاہت کے محبت کے کبھی معانی نہ سمجھ پانا
فاصلوں پہ خوش نہ قربتوں پہ راضی
محبت کیا ہے اپنی
بس اک ضد ہے اس  دل کی
کبھی اداسیوں کی ڈگر میں
کسی خوشبو سے الجھ جانا
تو کسی یادِ گلاب میں بکھرتے ہی چلے جانا
تو کبھی آنکھیں بند کر کے
سب کچھ بھول بھلا کے، بیتی ہوئی یادوں کو سہارا سا بنا لینا
جیسے وادیِ عشق میں قدم رکھ کر
ہر لحظہ پیچھے پلٹ کے دیکھتی
اک نو عمر لڑکی!
محبت کیا ہے اپنی
بس اک ضد ہےاس  دل کی
تم جو ڈھونڈتے ہو راہیں ترکِ تعلق کی
تو ڈھونڈا کرو
تم جو کرتے ہو ستم ہم پہ
تو کیا کرو
ہمیں تو رشتہ وفا توڑنا آتا ہی نہیں
اک زبانِ بے زباں ہے کہ
شناسائے شکوہ ہی نہیں
اک دلِ سرکش رکھتے ہیں
کہ بھولنا جانتا ہی نہیں
صبح سے شام ، شام سے رات، رات سے صبح
عنواں بدل بدل کے آتی ہے
فقط ایک کہانی، ایک نام ایک آس ، ایک ہی یاد تری
محبت کیا ہے اپنی
بس اک ضد ہےاس   دل کی










مرا ہمسفر یہیں تھک گیا ، ابھی مجھ کو چلنا ہے دیر تک

مرا ہمسفر یہیں تھک گیا ، ابھی مجھ کو چلنا ہے دیر تک
شروعات ہے ابھی رات کی، یہ چراغ جلنا ہے دیر تک

کہیں دھوپ ہے، کہیں دھول ہے، کئی درد ہیں کئی وحشتیں
میں محبتوں کے سفر میں تھا، یہ غبار اڑنا ہے دیر تک

کئی آسروں کو بدل بدل، تجھے کھینچ لایا ہوں زندگی
مرا جسم مر بھی چکا مگر ، ابھی دل دھڑکنا ہے دیر تک

کوئی ہاتھ ہو جیسے پھول ہو، کوئی ساتھ ہو جیسے آپ ہو
میں سفر میں عمر گزار دوں، کہ سفر مہکنا ہے دیر تک

وہ اداس آنکھ گلاب کی، جو الجھتی رہتی تھی خواب سے
وہ گئی تو نیند بھی لے گئی، مجھے چاند تکنا ہے دیر تک

Tuesday, March 9, 2010

دو گام پہ منزل ہے، صدیوں کی مسافت ہے

دو گام پہ منزل ہے، صدیوں کی مسافت ہے
یہ تیری محبت ہے، یا کوئی مصیبت ہے

تو سامنے بیٹھا تھا، نظروں کو شکایت تھی
تو اٹھ کہ گیا جب سے، اس دل پہ قیامت ہے

دن رات تجھے دیکھوں، سوچوں کے دریچوں میں
کیا رات سی زلفیں ہیں!، کیا دھوپ سی رنگت ہے!

ان گول سے ہونٹوں کو، جب اذنِ تکلم ہو
ہر حرف میں خوشبو ہے، ہر بات میں راحت ہے

وہ عشق تو کرتا ہے، ڈرتا ہے زمانے سے
اک پھول کی جنت ہے، سو دشت کی وحشت ہے

Monday, March 8, 2010

خموشی محبت کی زباں ہو جائے

اے محبت
ترے ہونٹوں کے ُپھولوں کے
خوشبوئو ں کے رنگوں کے
رخسار پہ اگتی صبحوں کے
آنکھوں میں ڈوبتی شاموں کے
زلفوں میں چھپتے جگنئوں کے
باتوں میں مچلتی تتلیوں کے
بہت سے گیت گائے
اے محبت
تیرے ہونٹوں
تیری آنکھوں
تیرے ماتھے میں
تیرے معصوم سے حسین چہرے کے خاکے میں
مہکتے ہوئے لفظوں سے دھنک کے رنگ سجائے
مگر اے جانِ حسن!
تیرے حسن کا سفر ہے کہ ختم ہوتا نہیں
اور عشق یہ جاگا ہے کہ اب سوتا نہیں
تیرے ہونٹوں کے اشارے
تیری آنکھوں کی زباں
رخِ کاغذ پہ اتاروں تو بھلا کیسے
عشق کے جذبے ، آہیں ، سازِ دل کے شرارے
لفظوں میں اتاروں تو بھلا کیسے
میری نظمیں۔ میری غزلیں ، میرے لفظوں کا پندار
جہاں کی ساری تشبیہیں کائنات کا ہر استعارہ
تری روشنی سے ماند سا پڑ گیا ہے
ایک تکرار سی تکرار ہے کہ قلم اڑ گیا ہے
اب تو یہی آرزو ہے کہ اک روز
یوں بارشِ حسن میں نکھر کے آئے چہرہ ترا
کہ یک دم جو کھلیں آنکھیں میری تو پتھر ہو جائیں
ہونٹ یوں دفعتا بند ہوں کہ مقفل ہو جائیں
سفید کاغذ پہ آ کر قلم ساکت ہو جائے
چار آنکھوں کے بیچ وقت جامد ہو جائے
خموشی بولتی ہو، خموشی لکھتی ہو
خموشی باتیں کرتی ہو،
گویائی ہاتھ باندھے کھڑی ہو
خموشی محبت کی زباں ہو جائے

ایک کم ظرف کو دکھایا دل

ایک کم ظرف کو دکھایا دل
آگ سے راکھ ہی بنایا دل

ایک شمع جلائی تھی دل میں
دل کے مہماں نے ہی جلایا دل

دردِدل کی دوا عبث ہے جی
ٹوٹکوں نے سگوں دکھایا دل

ضد لگاِئی ہے ساری دنیا سے
روٹھ کر سب سے اک منایا دل

نام لے کر مرا ڈرے چاہت
میں کہاں تھا کہاں پہ لایا دل

اب اسیری میں سانس لوں کیسے
باندھ کر مجھ کو چھوڑ آیا دل

تیرے ملنے کا کوئی امکاں نہیں
پھر بھی اک بت تراش لایا دل

کل محبت پہ جان دیتا تھا
آج نفرت پہ اتر آیا دل

Thursday, March 4, 2010

اے محبت آج تیرے جذبات کی بات کرتے ہیں

اے محبت آج
تیرے جذبات کی بات کرتے ہیں
جو کہ
جھوٹے نینوں کی شررباری سے
سراب ہونٹوں کی پھول کاری سے
زلفِ تاباں کی ملمع کاری سے
میٹھے لہجوں کی اداکاری سے
میرے حصارِ ذات میں پنپتے رہے
خلوتِ غمِ ہجر میں
حلقہ چشم میں
بے سبب اشکوں کی طرح بھٹکتے رہے
جلوتِ رخِ ستم گر میں
نارسا آہوں کی طرح جلتے رہے
جل جل مرتے رہے

اے محبت آج
تیرے جذبات کی بات کرتے ہیں

جو کہ
مقدس تھے ایسے
جب بھی سوچتے تھے – عبادت کا گماں ہوتا تھا
زمیں تا فلک نور کا ہیولہ سا رواں ہوتا تھا
ماہتابِ داغ داغ کی پیشانی میں
چادرِ شب پہ ٹانکے نجوم کی تابانی میں
معراجِ بندگی کا سماں ہوتا تھا
اے محبت آج
تیرے جذبات کی بات کرتے ہیں
 جنہیں کہیں اماں نہ ملتی
تو لفظوں میں چلے آتے تھے
شعروں میں ڈھلے جاتے تھے
وہی اشعار جب
سرِ بزم پڑھےجاتے تھے
تو ہونٹوں سے سنے جاتے تھے
پلکوں سے چنے جاتے تھے

اے محبت آج
تیرے جذبات کی بات کرتے ہیں

انہی جذبات کو آج
تیرے حضور لایا تھا
میں نہیں لایا تھا انہیں
خوش فہمیِ شوق کے دلاسے لائے تھے
بے دود آتشِ سینہ کے شعلے لائے تھے
غیرتِ عشق کا مجروح غرور لایا تھا
وہ جذبات کے رنجیدہ تھے
رتجگوں سے زیادہ
وہ جذبات کہ سنجیدہ تھے
بے کسوں سے زیادہ
نشانہِ تضحیک بنے ایسے
کہ جان کی نیاز جیسے
کوئی رکھ دے پتھروں کے آگے
اور بے حس پتھر ہنس کے بولے
دیکھو یہ مذاق نہیں اچھا
آئندہ ایسا مذاق نہ کرنا
آپ بہت محترم ہیں میرے لیے
آئندہ ایسی بات نہ کرنا

میں ترا لاڈلا ، بگڑا ہوا ، ضدی سا بچہ ہوں

اے خدا

میں ترا لاڈلا ، بگڑا ہوا ، ضدی سا بچہ ہوں

کوئی دے دلا کے منا لے مجھ کو

یا پھر اپنے ہی پاس بلا لے مجھ کو

یہ تری دنیا اچھی نہیں لگتی مجھ کو  

نجانے کس نے تراشے ہیں اصول جینے کے

کہیں ایسا نہ ہو کہ بغاوت کر دوں

جہاں والوں سے الجھ جائوں ، کوئی وحشت کر دوں

میں جس ڈگر پہ چلا ہوں – ہٹا لے مجھ کو

کوئی دے دلا کے منا لے مجھ کو

Tuesday, March 2, 2010

میں بھی اک رسالہ ہوں

کچھ ذہین لوگوں کو
ناز ہے ذہانت پہ
کچھ امیر لوگوں کو
فخر ہے امارت پہ
کچھ شریف لوگوں کا
مان ہے شرافت پہ
عاشقوں کے ٹولے کو
آس ہے محبت سے
وقت کی شرارت کو
قسمتوں کی عادت کو
کون جان پایا ہے
کون جان سکتا ہے
ہم نے خود یہ دیکھا ہے
آسمانی بارش سے
لہلہاتی فصلوں کا
ٹوٹ کر بکھر جانا
ہم نے خود یہ دیکھا ہے
چاند جیسے چہروں کا
دھوپ کی تمازت سے
راکھ میں بدل جانا
ہم نے خود یہ دیکھا ہے
شبنمی ہوائوں میں
مہکتے گلابوں کا
خون خون ہو جانا
آج کے رسالے تو
میز پر ٹکائے ہیں
کل یہی رسالے پھر
روڈ کے کناروں پر
خاک پر سجے ہوں گے
آتے جاتے لوگوں کی
راہ میں پڑے ہوں گے
اور نصف قیمت پر
پھر سے بک رہے ہوں گے
میں بھی اک رسالہ ہوں
جس کی ہر کہانی کو
تم نے پڑھ لیا جاناں
اب تمہاری چاہت کا
اور میری قسمت کا
فیصلہ تو ظاہر ہے!