محبت کیا ہے اپنی
بس اک ضد ہےاس دل کی
کسی کو چاہتے رہنا اور چاہتے ہی چلے جانا
چاہت کے محبت کے کبھی معانی نہ سمجھ پانا
فاصلوں پہ خوش نہ قربتوں پہ راضی
محبت کیا ہے اپنی
بس اک ضد ہے اس دل کی
کبھی اداسیوں کی ڈگر میں
کسی خوشبو سے الجھ جانا
تو کسی یادِ گلاب میں بکھرتے ہی چلے جانا
تو کبھی آنکھیں بند کر کے
سب کچھ بھول بھلا کے، بیتی ہوئی یادوں کو سہارا سا بنا لینا
جیسے وادیِ عشق میں قدم رکھ کر
ہر لحظہ پیچھے پلٹ کے دیکھتی
اک نو عمر لڑکی!
محبت کیا ہے اپنی
بس اک ضد ہےاس دل کی
تم جو ڈھونڈتے ہو راہیں ترکِ تعلق کی
تو ڈھونڈا کرو
تم جو کرتے ہو ستم ہم پہ
تو کیا کرو
ہمیں تو رشتہ وفا توڑنا آتا ہی نہیں
اک زبانِ بے زباں ہے کہ
شناسائے شکوہ ہی نہیں
اک دلِ سرکش رکھتے ہیں
کہ بھولنا جانتا ہی نہیں
صبح سے شام ، شام سے رات، رات سے صبح
عنواں بدل بدل کے آتی ہے
فقط ایک کہانی، ایک نام ایک آس ، ایک ہی یاد تری
محبت کیا ہے اپنی
بس اک ضد ہےاس دل کی
بس اک ضد ہےاس دل کی
No comments:
Post a Comment