Wednesday, March 10, 2010

محبت کیا ہے اپنی
















محبت کیا ہے اپنی
بس اک ضد ہےاس دل کی
کسی کو چاہتے رہنا اور چاہتے ہی چلے جانا
چاہت کے محبت کے کبھی معانی نہ سمجھ پانا
فاصلوں پہ خوش نہ قربتوں پہ راضی
محبت کیا ہے اپنی
بس اک ضد ہے اس  دل کی
کبھی اداسیوں کی ڈگر میں
کسی خوشبو سے الجھ جانا
تو کسی یادِ گلاب میں بکھرتے ہی چلے جانا
تو کبھی آنکھیں بند کر کے
سب کچھ بھول بھلا کے، بیتی ہوئی یادوں کو سہارا سا بنا لینا
جیسے وادیِ عشق میں قدم رکھ کر
ہر لحظہ پیچھے پلٹ کے دیکھتی
اک نو عمر لڑکی!
محبت کیا ہے اپنی
بس اک ضد ہےاس  دل کی
تم جو ڈھونڈتے ہو راہیں ترکِ تعلق کی
تو ڈھونڈا کرو
تم جو کرتے ہو ستم ہم پہ
تو کیا کرو
ہمیں تو رشتہ وفا توڑنا آتا ہی نہیں
اک زبانِ بے زباں ہے کہ
شناسائے شکوہ ہی نہیں
اک دلِ سرکش رکھتے ہیں
کہ بھولنا جانتا ہی نہیں
صبح سے شام ، شام سے رات، رات سے صبح
عنواں بدل بدل کے آتی ہے
فقط ایک کہانی، ایک نام ایک آس ، ایک ہی یاد تری
محبت کیا ہے اپنی
بس اک ضد ہےاس   دل کی










No comments:

Post a Comment