Friday, March 12, 2010

مجھ کو اپنوں کا بھرم مار گیا تھا ورنہ

مجھ کو اپنوں کا بھرم مار گیا تھا ورنہ
اپنے قاتل کو میں آداب سکھاتا ورنہ

ہم محبت میں سیاست کے روادار نہ تھے
یہ جہاں ہم کو بھی مسند پہ بٹھاتا ورنہ

چور دروازوں سے آنے کی مجھے عادت نہ تھی
میں بھی منزل پہ ترے ساتھ ہی جاتا ورنہ

خون مل کے وہ بنا پھرتا ہے غازی دیکھو
وار دشمن کا وہ ہر اک سے چھپاتا ورنہ

جھوٹی ہمدردیِ احباب گوارا کب تھی
میرے زخموں پہ فلک اشک بہاتا ورنہ

تیرے چہرے کا کرب دیکھ کے پھینکا ترکش
تیری للکار کی طاقت آ زماتا ورنہ

No comments:

Post a Comment