مجھ کو اپنوں کا بھرم مار گیا تھا ورنہ
اپنے قاتل کو میں آداب سکھاتا ورنہ
ہم محبت میں سیاست کے روادار نہ تھے
یہ جہاں ہم کو بھی مسند پہ بٹھاتا ورنہ
چور دروازوں سے آنے کی مجھے عادت نہ تھی
میں بھی منزل پہ ترے ساتھ ہی جاتا ورنہ
خون مل کے وہ بنا پھرتا ہے غازی دیکھو
وار دشمن کا وہ ہر اک سے چھپاتا ورنہ
جھوٹی ہمدردیِ احباب گوارا کب تھی
میرے زخموں پہ فلک اشک بہاتا ورنہ
تیرے چہرے کا کرب دیکھ کے پھینکا ترکش
تیری للکار کی طاقت آ زماتا ورنہ
No comments:
Post a Comment