کہیں دور مسجد میں
اذان کی آواز کے ساتھ
پھیل گئے پوری محفل میں
احترام کے سائے
گویائی گنگ سی ہو گئی
سناٹے بولنے لگے
اور شرمگیں لہجے میں بلند ہوتے
دو صندلیں ہاتھ
چاند چہرے سے ہوتے ہوئے
کانوں کی لو تک آئے
اور ننگے سر پر عقیدتوں کا
آنچل اوڑھنے لگے
اب الفاظ کہاں سے لائیں
کہ تمہیں بتائیں
اس وقت وہ مقدس چہرہ کیسا تھا
آنکھیں تھی باادب کیسی
نور کا سویرا کیسا تھا
اسی سویرے کی پیاسی کرن تھی کوئی
جو میری آنکھوں کی سیہ رات میں تھی
بندگی کا سفر کرتے ہوئے گئی
اور چاند کے چرنوں کو چھو آئی
اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اسے یوں دیکھنے لگا
جیسے کوئی نمازی ہو
انتہائے شوق کی نماز کے ساتھ
کہیں دور مسجد میں
اذان کی آواز کے ساتھ
No comments:
Post a Comment