مرے ارد گرد سجا ہوا
جھوٹ کا اک خول ہے
کچھ اداکاری ہے ذات کی
کچھ دو رخی ہے بات کی
کتنے ہی برس بیت گئے
یہ بات نہیں ہے آج کی
بے منزل سے راستے
بے طلب سی زندگی
نہ کسی کی آرزو
نہ جستجو کسی کی
جھوٹ کے نقاب کو
گر کبھی میں کھولتا
ذات کی سچائی کو
گر کبھی میں بولتا
میرے سارے چاہنے والے
مجھے اپنا ماننے والے
مجھے چھوڑ چکے ہوتے
مروتوں کے کھوکھلے بندھن
کب کے توڑ چکے ہوتے
لیکن اس نقاب میں
اب اور جی نہیں سکتا
جب زہر ہی زندگی بنے
تو زہر پی نہیں سکتا
پر اوپر کے بہروپ کو
گر آج میں اتار بھی دوں
تو اند اور بہروپ ہے
اند اور بہروپ ہے
اند اور بہروپ ہے!
وہ ریحان جسے تم جانتے ہو
وہ ریحان تو کہیں کھو گیا
ذات کے سراب میں شاید گم ہی ہو گیا
یہ جو مشتِ غبار ہے
یہ تو اک مذاق ہے
یہ تو اک مخول ہے
No comments:
Post a Comment