Thursday, March 18, 2010

مرے ارد گرد سجا ہوا


مرے ارد گرد سجا ہوا
جھوٹ کا اک خول ہے
کچھ اداکاری ہے ذات کی
کچھ دو رخی ہے بات کی
کتنے ہی برس بیت گئے
یہ بات نہیں ہے آج کی
بے منزل سے راستے
بے طلب سی زندگی
نہ کسی کی آرزو
نہ جستجو کسی کی
جھوٹ کے نقاب کو
گر کبھی میں کھولتا
ذات کی سچائی کو
گر کبھی میں بولتا
میرے سارے چاہنے والے
مجھے اپنا ماننے والے
مجھے چھوڑ چکے ہوتے
مروتوں کے کھوکھلے بندھن
کب کے توڑ چکے ہوتے
لیکن اس نقاب میں
اب اور جی نہیں سکتا
جب زہر ہی زندگی بنے
تو زہر پی نہیں سکتا
پر اوپر کے بہروپ کو
گر آج میں اتار بھی دوں
تو اند اور بہروپ ہے
اند اور بہروپ ہے
اند اور بہروپ ہے!
وہ ریحان جسے تم جانتے ہو
وہ ریحان تو کہیں کھو گیا
ذات کے سراب میں شاید گم ہی ہو گیا
یہ جو مشتِ غبار ہے
یہ تو اک مذاق ہے
یہ تو اک مخول ہے

No comments:

Post a Comment