Thursday, March 18, 2010

کائنات ترے حسن کی

چاند چہرہ، سادگی
گلاب رنگت تازگی
زلفوں کی نرمی میں
مو بمو چھپی ہوئی، خوشبو کوئی آندھیوں سی
کہ سانس میں گھلے تو پھر
رواں رواں مہک جائے
-
دھنک سات رنگ کی
جیسے آنچل پہ ٹانکی ہوئی
یا بڑے ہی سلیقے سے
خوبصورت قرینے سے
رنگ برنگی تتلیاں ہوں
قطار در قطار لیٹی ہوئی
بات ہی کیا پیرہن کی
تیرے صندلیں پیکر پہ
پائے مالِ راہ پھول جیسے
کسی گلدان میں سجے تو پھر
برگ برگ مہک جائے
-
حسین پلکوں کی چلمن پہ
جھیل آنکھوں کے ساحل پہ
نٹ کھٹ سے کاجل کی
کج ادا سی دھار سی
اور نظر بے قرار سی
اگر کبھی اٹھے تو پھر
مکاں اور لا مکاں سے پرے
ہر بے جاں میں جاں پڑے
ذرہ ذرہ بہک جائے
-
لمحہ لمحہ مچلتے ہوئے
کبھی بند ہوتے کبھی کھلتے ہوئے
اک قوس سی بناتے ہوئے
دو ہونٹ برگِ گلاب سے
اگر کبھی گویا ہوں
تو حرف حرف شراب لگے
بات بات نکھر جائے
پتی پتی بکھر جائے
-
یہی کائنات ترے حسن کی
مری ذات کی گہرائیوں میں
کچھ اس ادا سے سرایت ہوئی
جیسے چپ چاپ سے کنویں میں
سرِ آب بھاری پتھر کوئی
اتنے ہولے سے رکھے
کہ کنویں تک کو خبر نہ ہو
اور پتھر پار اتر جائے

No comments:

Post a Comment