Tuesday, March 9, 2010

دو گام پہ منزل ہے، صدیوں کی مسافت ہے

دو گام پہ منزل ہے، صدیوں کی مسافت ہے
یہ تیری محبت ہے، یا کوئی مصیبت ہے

تو سامنے بیٹھا تھا، نظروں کو شکایت تھی
تو اٹھ کہ گیا جب سے، اس دل پہ قیامت ہے

دن رات تجھے دیکھوں، سوچوں کے دریچوں میں
کیا رات سی زلفیں ہیں!، کیا دھوپ سی رنگت ہے!

ان گول سے ہونٹوں کو، جب اذنِ تکلم ہو
ہر حرف میں خوشبو ہے، ہر بات میں راحت ہے

وہ عشق تو کرتا ہے، ڈرتا ہے زمانے سے
اک پھول کی جنت ہے، سو دشت کی وحشت ہے

No comments:

Post a Comment