کچھ ذہین لوگوں کو
ناز ہے ذہانت پہ
کچھ امیر لوگوں کو
فخر ہے امارت پہ
کچھ شریف لوگوں کا
مان ہے شرافت پہ
عاشقوں کے ٹولے کو
آس ہے محبت سے
وقت کی شرارت کو
قسمتوں کی عادت کو
کون جان پایا ہے
کون جان سکتا ہے
ہم نے خود یہ دیکھا ہے
آسمانی بارش سے
لہلہاتی فصلوں کا
ٹوٹ کر بکھر جانا
ہم نے خود یہ دیکھا ہے
چاند جیسے چہروں کا
دھوپ کی تمازت سے
راکھ میں بدل جانا
ہم نے خود یہ دیکھا ہے
شبنمی ہوائوں میں
مہکتے گلابوں کا
خون خون ہو جانا
آج کے رسالے تو
میز پر ٹکائے ہیں
کل یہی رسالے پھر
روڈ کے کناروں پر
خاک پر سجے ہوں گے
آتے جاتے لوگوں کی
راہ میں پڑے ہوں گے
اور نصف قیمت پر
پھر سے بک رہے ہوں گے
میں بھی اک رسالہ ہوں
جس کی ہر کہانی کو
تم نے پڑھ لیا جاناں
اب تمہاری چاہت کا
اور میری قسمت کا
فیصلہ تو ظاہر ہے!
No comments:
Post a Comment