Tuesday, March 2, 2010

میں بھی اک رسالہ ہوں

کچھ ذہین لوگوں کو
ناز ہے ذہانت پہ
کچھ امیر لوگوں کو
فخر ہے امارت پہ
کچھ شریف لوگوں کا
مان ہے شرافت پہ
عاشقوں کے ٹولے کو
آس ہے محبت سے
وقت کی شرارت کو
قسمتوں کی عادت کو
کون جان پایا ہے
کون جان سکتا ہے
ہم نے خود یہ دیکھا ہے
آسمانی بارش سے
لہلہاتی فصلوں کا
ٹوٹ کر بکھر جانا
ہم نے خود یہ دیکھا ہے
چاند جیسے چہروں کا
دھوپ کی تمازت سے
راکھ میں بدل جانا
ہم نے خود یہ دیکھا ہے
شبنمی ہوائوں میں
مہکتے گلابوں کا
خون خون ہو جانا
آج کے رسالے تو
میز پر ٹکائے ہیں
کل یہی رسالے پھر
روڈ کے کناروں پر
خاک پر سجے ہوں گے
آتے جاتے لوگوں کی
راہ میں پڑے ہوں گے
اور نصف قیمت پر
پھر سے بک رہے ہوں گے
میں بھی اک رسالہ ہوں
جس کی ہر کہانی کو
تم نے پڑھ لیا جاناں
اب تمہاری چاہت کا
اور میری قسمت کا
فیصلہ تو ظاہر ہے!

No comments:

Post a Comment